Saturday 19 May 2012

دو ہزار گیارہ کا آخری دن December 31, 2011


سب سے پہلے آپ سے ایک معذرت چاہ لوں اور وہ یہ کہ میں بنیادی طور پر رجائیت پسند، خوش فہم اور حسن ظن رکھنے والا شخص ہوں اس لئے پُر امید رہنا اور مصیبت و ابتلا میں بھی بہتری کا پہلو ڈھونڈھ لینا میری عادت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بقول میاں محمد صاحب عادتیں سر کے ساتھ نبھتی ہیں یعنی عادتیں اتنی وفا دار ہوتی ہیں کہ قبر تک ساتھ دیتی ہیں اس لئے اب اس پختہ عمر میں عادت بدلنا میرے بس کا روگ نہیں۔
زندگی کا پہیہ اس قدر تیزی سے چلتا ہے کہ برسوں اور دہائیوں کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا لیکن اگر انسان مصیبت، بیماری، بھوک و افلاس اور کسی آفت میں مبتلا ہو تو زندگی کا یہی پہیہ اس قدر سست ہو جاتا ہے کہ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا بن جاتا ہے۔ ایک ایک دن بھاری، ایک ایک سانس بوجھل ہو جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے دن نہیں گزرا گویا کوئی آفت گزری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان یا قوم خوش ہو یا خوشحال ہو یا کم از کم کسی آفت اور ابتلاء میں مبتلا نہ ہو تو دہائیاں سال کی مانند تیزی سے گزر جاتی ہیں لیکن اگر انسان، فرد یا قوم کسی عذاب میں گرفتار ہو تو وقت کی رفتار تھم جاتی ہے، ہر گھڑی درد کی گھڑی بن جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے لمحوں کا سفر برسوں کا سفر بن گیا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو 2011 کا سال ہمارے لئے بہ حیثیت قوم ابتلاء اور عذاب کا سال تھا۔ چنانچہ افق کے اس پار روشنی تلاش کرنے والے ”اڈیاں“ اٹھا اٹھا کر 2012 کا انتظار کرنے لگے جیسے نیا سال بہرحال خوشیاں لائے گا اور تبدیلی کا پیامبر ثابت ہو گا۔ دریں حالات مجھے حالات کے بہت بہتر ہونے کی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ ہم اپنے حکمرانوں اور سیاسی ناخداؤں کو چار سال تک بھگت اور آزما چکے، جنہوں نے گزشتہ چار برسوں میں اندھیروں، غربت، پہیہ جام اور مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا وہ 2012 میں قوم کو کیا دیں گے؟ میں کل ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا بیان پڑھ کر ذہنی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو کر تاریک وادیوں میں کھو گیا۔ ہمارے مایہ ناز سائنس دان کا کہنا تھا کہ تھرکول میں شعلہ جلا دیا ہے۔ اگلے سال یعنی 2013 سے بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی پھر غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے دوڑیں گی۔ تھرکول سے آئندہ پچاس سال کے لئے سستی اور وافر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اتنی وافر کہ ہم چاہیں تو دوسرے ممالک کو فروخت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو شکایت تھی کہ انہیں اس پراجیکٹ کے لئے بہت ہی کم فنڈز دیئے گئے۔ انرجی اور بجلی نہ صرف قومی زندگی بلکہ معاشی زندگی کی بھی جان ہے۔ بجلی ہو تو صنعتیں ترقی کرتیں، روزگار مہیا کرتیں اور مارکیٹوں کو آباد رکھتی ہیں۔ میں یہ سوچ کر ذہنی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو گیا کہ ہماری حکومت گزشتہ چار برس کیا کرتی رہی؟ اگر قیادت میں ویژن ہوتا تو پہلے دو برسوں کے اندر اندر صرف تھرکول کو ترقی اور فنڈز دے کر اتنی وافر بجلی پیدا کی جا سکتی تھی کہ نہ رینٹل پاور ہاؤسز پر اربوں خرچ کرنے پڑتے، نہ اس حوالے سے کرپشن سکینڈلز حکمرانوں کے دامن کو داغدار کرتے اور نہ آج ہم اندھیروں کے مسافر ہوتے۔ بجلی کے ساتھ وافر ڈیزل پیدا کر کے ہم غیر ملکی زرمبادلہ بھی بچاتے۔ 2011 اس لئے طویل لگا کہ ہم مسلسل عذابات کا شکار رہے جن میں خاص طور پر سیلاب، لوڈ شیڈنگ، ریلوے کی ابتری، سوئی گیس کا بحران، پی آئی اے کی تباہی، مہنگائی اور غربت میں بے پناہ اضافہ، بے روزگاری کا پھیلتا ہوا طوفان جس نے وارداتوں اور جرائم میں اضافہ کیا اور معصوم شہریوں کا خون شامل ہیں۔ جب ایم ڈی پی آئی اے نے حاجیوں کو خوار کرنے پر پھبتی کسی کہ کبھی اونٹوں پر حج کے لئے جایا کرتے تھے تو مجھے یوں لگا جیسے ہماری حکومت حکمت عملی کے تحت ہمیں سولہویں سترہویں صدی کی جانب لے جا رہی ہے جب ریلوے تھا اور نہ بجلی… لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے اور تیل کے چراغ جلایا کرتے تھے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس صورتحال میں لمحے کیوں نہ بوجھل اور وقت کیوں نہ کوہ گراں لگے۔ جب کبھی کوئی مہربان مل جاتا تو مجھے مصباح اللہ خان کا شعر یاد آتا۔
غنیمت جانیئے مل بیٹھنے کو
قیامت کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے
اور پھر اس قیامت میں ایک اور قیامت کا بھی اضافہ ہوا جو حکومت کی کمزور گرفت کا منطقی نتیجہ تھا۔ کرپشن کی سونامی نے ملک و قوم کو لپیٹ میں لے لیا، اغواء برائے تاوان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا، معصوم بچیوں بچوں سے زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا، چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں پولیس ملوث ہونے لگی، تھانے عقوبت خانے بن کر صوبائی حکومتوں کا منہ چڑانے لگے، بلوچستان میں بغاوت کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں اور دہائیوں سے آباد غیر بلوچی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے لگے، کئی ماہ تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا حشر برپا رہا جس میں ہمارے دکھوں کا مداوہ کرنے کی دعویدار سیاسی پارٹیاں ملوث تھیں اور ان مظالم کی چیخ و پکار کے سائے میں خفیہ ایجنسیاں اپنے کام میں مصروف رہیں اور لوگوں کو اٹھا کر گم کرتی رہیں… یہ ہے 2011 کی ایک نہایت معمولی سی جھلک، ایک نامکمل سی تصویر۔ معاف کیجئے میں نے قوم کے زخموں پر نمک ملنے والی ان عیاشیوں، فضول خرچیوں اور مہنگے غیر ملکی دوروں کا ذکر نہیں کیا جن کے ہمارے حاکم خوگر ہو چکے ہیں اور نہ ہی ان کرپٹ دوست نوازیوں، اقربا پروری اور قانون و میرٹ کے قتل عام کا ذکر کیا ہے جو ہماری قومی زندگی کو دیمک کی مانند تیز رفتاری سے چاٹ رہا ہے اس پس منظر میں نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے میں 2011 کا تصور کر کے کانپ جاتا ہوں۔
لیکن ایسی بھی بات نہیں 2011 جاتے جاتے ہمیں کچھ خوشخبریاں بھی دے گیا اور کچھ حسین خواب بھی دکھا گیا جنہوں نے بہتر مستقبل کی امید دلائی۔ وطن کے بائیس (24) سجیلے جوانوں کو شہید کروانے کے بعد حکومت نے نیٹو کی سپلائی بند کر دی۔ عوام کو حکومت کی یہ مزاحمت اچھی لگی اور انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ہم میں خودداری اور قومی حمیت کی رمق ابھی باقی ہے۔ حکومت پاکستان کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر امریکہ نے ڈرون حملے بند کر دیئے ہیں لیکن یہ خطرہ بہرحال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کہیں یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو۔ میرے نزدیک قومی زندگی کے حوالے سے تین نیک شگون دیکھنے میں آئے جنہیں میں جمہوریت کے لئے اہم پیش رفت اور بہتر مستقبل کی علامات کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اول تو مسلم لیگ (ن) کا فرینڈلی اپوزیشن کے فریب سے نکل کر موثر اپوزیشن بننے کی حکمت عملی دوم تحریک انصاف کا تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنا اور سوم نوجوانوں کا متحرک ہونا، بغاوت پر آمادہ ہو کر اپنے غصے کا اظہار کرنا اور ملک و قوم کا مقدر بدلنے کی آرزو کا اظہار کرنا۔ اسی آرزو میں اس پہلو کو بھی شامل کر لیجئے کہ 2011 میں ہی چنیوٹ کی ستارہ عروج جیسے پاکستانی طالب علموں نے عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کر کے اور تعلیمی میدان میں فتوحات کر کے یہ پیغام دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں رجائیت پسند، خوش فہم اور خواب دیکھنے والا ”بزرگ نوجوان“ ہوں۔ 2012 کے حوالے سے میری تمام خوش فہمی اور میرے تمام خواب ان متحرک اور غصیلے نوجوانوں سے وابستہ ہیں بلکہ صرف ان کے غصے سے وابستہ ہیں۔ دوستو خواب دیکھتے رہو کہ خواب ہی حقیقت بنتے ہیں۔ 
 

No comments:

Post a Comment