Saturday 19 May 2012

ہمالیہ روئے گا؟. January 10, 2012



میں پیپلز پارٹی کی اس ادائے کافرانہ یا ادائے فرزانہ کا تین دہائیوں سے عینی شاہد ہوں اس لئے جب بھی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا پیپلز پارٹی اس اداکا مظاہرہ کرتی ہے تو میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے پی پی پی کی قیادت شدید نرگسیت اور خود پسندی کا شکار ہے اور تین دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ ایک عجیب قسم کے فریب میں مبتلا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ خود فریبی نہیں بلکہ یہ دھمکیاں سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکمت عملی ہے تو پھر دوسری پارٹیاں ایسا کیوں نہیں کرتیں اور جب یہ حکمت عملی کئی بار اپنی ناکامی کا راز فاش کرچکی ہے تو پھر اسے ترک کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخر ایسی حکمت عملی یا دھمکی کا کیا فائدہ جو ”مخول“ اور مذاق بن جائے۔
آپ پوچھیں گے میں کس دھمکی اور کس حکمت عملی کا رونا رو رہا ہوں۔ آج کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں شامل ایک فقرہ میری توجہ کا مرکز ہے اور یہ فقرہ ہمارے محبوب وزیر اعظم صاحب کا فرمان ہے۔ مجھے علم نہیں کہ انہوں نے یہ بات صدر صاحب سے پوچھ کر کہی ہے یا پھر ماضی میں کی گئی ایسی باتیں ان کے لاشعور میں محفوظ تھیں جو ہونٹوں پر آئیں۔ وزیر اعظم صاحب کچھ عرصے سے شدید دباؤ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں چنانچہ وہ گزشتہ تین ماہ سے مسلسل واویلا کررہے ہیں کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ وہ مسلسل اس خوف کا اظہار کررہے ہیں کہ ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، ان کے اقتدار کی بساط لپیٹی جارہی ہے لیکن وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، مریں گے مرجائیں گے، اس سے قبل وہ دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کو بھی وارننگ دیتے رہے کہ اگر ہماری”دکان“ بند ہوئی تو تمہاری”دکان“ بھی بند ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ بلکہ اشارے فوج کی جانب ہیں کیونکہ انہیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ ان کی حکومت کو ختم کردیا جائے گا۔ اندازہ تھا کہ آرمی چیف کی یقین دہانی اور سپریم کورٹ کے اعلان کے بعد وزیر اعظم صاحب کو سکون حاصل ہوجائے گا لیکن آج کے بیان نے پھر سے اسی بے سکونی اور اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کردیا ہے جس کا اظہار صدر صاحب، وزیر اعظم صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء کچھ عرصے سے کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اندیشے کہاں سے جنم لے رہے ہیں؟ زیادہ غور و خوض کے بغیر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ میمو گیٹ کا جادو حکمرانوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی بے گناہی اور معصومیت پر مصر ہیں اور دوسری طرف ان کا ہر ردعمل اس تاثر کی تصدیق کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے اور جس رفتار سے یہ خطرہ بڑھتا جارہا ہے کہ دال میں کالا نظر آجائے گا اور راز کا بھانڈا پھوٹ جائے گااسی رفتار سے حکمرانوں کی شام غریباں کے واویلے میں اضافہ ہورہا ہے۔ صدر صاحب اور وزیر اعظم بار بار فرما چکے کہ اداروں میں تصادم نہیں ہورہا اور وہ بار بار یقین دہانی کروا چکے کہ عدالت عالیہ کے فیصلوں پر عمل کیا جائے گا اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی مزاحمت نہیں کی جائے گی لیکن ان کا عملاً رویہ اس حقیقت کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ضرورت پڑنے پر مزاحمت بھی کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مزاحمت کا نتیجہ تصادم نکلے گا اور اداروں کا تصادم عام طور پر ماورائے آئین صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ آج این آر او پر عمل کرنے کا آخری دن ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے مہلت دس تاریخ تک دی تھی۔صدر صاحب کا موقف ہے کہ سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو مقدمہ ری اوپن کرنے کا لکھنا بی بی کی قبر کا ٹرائل ہے، اس لئے پارٹی کا فیصلہ ہے کہ خط نہ لکھا جائے۔ میں نے گزشتہ چار برسوں میں یہ بات کئی بار لکھی کہ صدر صاحب کمیشن کے طور پر وصول کئے گئے چالیس کروڑ ڈالر کبھی واپس نہیں کریں گے چاہے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ آج تک کی سیاسی پیش رفت اس تاثر کی تصدیق کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرے گی تو عدالت کو توہین عدالت کی کارروائی کرنا پڑے گی کیونکہ اس سے قبل عدالت دو برس تک صبر کا مظاہرہ کرتی رہی ہے ۔ صدر صاحب اور ان کے رفقاء اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں اور یقیناً انہوں نے یہ حکمت عملی بہت سوچ سمجھ کر طے کی ہے۔ پی پی پی قائدین ایک عرصے سے میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ انہیں کبھی انصاف نہیں ملا۔اس پراپیگنڈہ کامقصد بھی ہمدردی اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھنا ہے اور یہ مہم کافی عرصہ قبل ہی شروع کردی گئی تھی۔ میمو گیٹ پر حکومت کا موقف اور صدر صاحب کا”اعلان“ بذات خود خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ صدر صاحب نے یہ کہہ کر کہ وہ صرف پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ مانیں گے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ مزاحمت اور تصادم کی تیاریاں نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسری طرف میمو گیٹ سیکنڈل پر حکومت اور فوج کے درمیان دوریاں بڑھ چکی ہیں۔ فوج کے نزدیک یہ حقیقت ہے جبکہ حکمران اسے افسانہ قرار دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ صدر صاحب میمو گیٹ سیکنڈل میں امریکہ کی مدد کے طالب ہیں اور اس مقصد کے لئے فرح اصفہانی امریکہ جاچکی ہیں۔ جیمز جونز کا بیان اسی سلسلے کی کڑی تھا اور اب امریکہ اعجاز منصور پر دباؤ ڈال کر یقینا پاکستانی حکمرانوں کو مرہون احسان کرسکتا ہے۔ امریکہ احسان کرے گا تو پھر اس کی قیمت بھی مانگے گا۔
اس پس منظر میں آج گیلانی صاحب نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو توڑا گیا تو اس سے ملک کے استحکام کو خطرہ ہوگا اور ملک کمزور ہوگا۔ مجھے گیلانی صاحب کا یہ بیان اسی سرگذشت کی صدائے باز گشت لگا جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ گیلانی صاحب نے وہی بات کہی جو بھٹو صاحب اور ان کے نہایت قابل کزن ممتاز بھٹو 1972-73ء میں اکثر کہا کرتے تھے ،آپ کو شاید یاد نہ ہو کہ ملک ٹوٹنے کے بعد جب پی پی پی برسراقتدار آئی توممتاز بھٹو صاحب گورنر اور پھر وزیر اعلیٰ سندھ تھے۔بظاہر ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ازراہ عادت یا خود پسندی کے فریب میں مبتلا ہو کر اس دور میں بھٹو برادران اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں ہٹایا گیا تو ہمالیہ روئے گا، پہاڑ آنسو بہائیں گے۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ بالآخر بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو اپنا آرمی چیف بنا کر ہمالیہ کے رونے کا انتظام کرلیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا لیکن نہ ہمالیہ رویا اور نہ ہی پہاڑوں نے آنسو بہائے البتہ ان کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو پی پی پی کو داغ مفارقت دے گئے۔ نہ جانے کیوں پی پی پی کے قائدین اپنے اقتدار کو خطرات بھانپ کر پہاڑوں کے رونے اور ملک کے کمزور ہونے کی پیشن گوئیاں کیونکر کرنے لگتے ہیں ، اقتدار آنی جانی شے ہے لیکن ملک ایک ابدی حقیقت ہوتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں ہر چند برسوں بعد حکمران پارٹیاں بدلتی رہتی ہیں اور اسے معمول کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان کے حکمران یہ کہتے ہیں کہ وہ برسراقتدار نہ رہے تو ملک کے وجود کو خطرہ ہوگا۔ یقین رکھیئے کہ حکومتیں بدلنے سے نہ کبھی پہلے ملک کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment