Sunday 20 May 2012

فریب نظر March 21, 2012


ایک تعلیم وہ ہے جو ہم سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں اور دوسری تعلیم وہ ہے جو ہم اپنی محنت، گہرے مطالعے اور تحقیق سے حاصل کرتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق تیسری تعلیم وہ ہے جو زندگی ہمیں سکھاتی اور تجربات و مشاہدات کی شکل میں دیتی ہے۔ اس لحاظ سے ساری زندگی ایک درسگاہ ہے اور انسان عمر بھر سیکھتا ہی رہتا ہے۔ جو لوگ ایم اے، پی ایچ ڈی اور اس طرح کی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم پر عبور حاصل کر لیا ہے اور تعلیم کی آخری حدوں کو چھو لیا ہے۔
وہ دراصل ایک فریب اور گماں کا شکار ہو جاتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ فریب انسان کا ظالم دشمن ہوتا ہے یوں تو صوفیاء کے نزدیک زندگی خود بھی ایک فریب نظر ہے اور خاص طور پر ان کے لئے بہت بڑا فریب نظر ہے جو اسے حقیقی اور آخری شے سمجھ لیتے ہیں اور اگلی زندگی کے تقاضوں کو بھول جاتے ہیں کیونکہ اگر انسان کو دل سے یقین ہو کہ اس زندگی کے بعد بھی ایک حیات جاوداں اس کی منتظر ہے تو وہ نہ جھوٹ بولے، نہ دھوکہ دے، نہ ملاوٹ کرے، نہ حرام کھائے اور نہ ہی کسی حوالے سے خدا کا مجرم ٹھہرے۔ جو لوگ فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور خود کو عقل کل، عظیم ترین انسان اور بہت بڑا عالم و فاضل شخص سمجھنے لگتے ہیں وہ لامحالہ غرور، خود پسندی اور اس عارضی زندگی کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
میرے مشاہدے کے مطابق یہ غرور اور خود پسندی یا نرگسیت اقتدار کی طاقت سے جنم لیتی ہے یا دولت اور یا پھر بے تحاشا شہرت سے… اس پس منظر میں یہ انسان کے ظرف کا امتحان ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چند کتابیں، سنسنی خیز تحریریں اور تحقیق کے نام پر پراپیگنڈہ لٹریچر پڑھ کر، کچھ لوگ اقتدار اور دولت کے تخت شاہی پر متمکن ہو کر اور کچھ لوگ میڈیا کی چکا چوند روشنی میں نہا کر اور شہرت پا کر کچھ کچھ بہک جاتے ہیں جس طرح کسی انسان کا ظرف تو محض ایک جام کا متحمل ہو لیکن ساقی اسے دو تین جام پلا دے۔ سچ یہ ہے کہ ظرف سے زیادہ پی لی جائے تو انسان کے انداز و اطوار بدل جاتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے تاجر، صنعتکار، دانشور، مدیران اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کو دولت پاتے ہی بدلتے دیکھا ہے اور ان کے ہر انداز سے غرور ٹپکتے دیکھا ہے۔
یہی حال ان حضرات کا بھی ہوتا ہے جنہیں اچانک اپنی توقعات سے کہیں زیادہ بلند عہدہ مل جاتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو آپ کو ایسی لاتعداد مثالیں ملیں گی جن سے آپ عبرت حاصل کر سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ انسان عبرت حاصل کرنے کی بجائے انہیں رول ماڈل اور اپنا آئیڈیل بنا لیتا ہے اور پھر اسی راہ پر چل پڑتا ہے۔ چند سطحی کتابیں اور سنسنی خیز مخالفانہ کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو حرف آخر سمجھنے والے آج کل آپ کو اکثر ٹی وی چینلوں پر نظر آئیں گے جنہوں نے نہ اقبال کو دل لگا کر یا جم کر پڑھا ہے اور نہ ہی قائداعظم کے کارناموں اور تحریروں کے دریا میں اترے ہیں لیکن ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ان دونوں شخصیات اور قومی محسنوں پر یوں تنقید کے پتھر پھینکتے ہیں جیسے ایک نو دولتیاء فرزند دولت کے نشے میں بہک کر اپنے والد کی توہین کرتا ہے۔ کہاں اقبال اور جناح جن پر عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کا کام جاری ہے اور جن پر عالمی سطح کے سکالروں، لکھاریوں اور محققین نے قلبی محبت، عقیدت اور تعریف کے پھول برسائے ہیں اور کہاں یہ سطحی دانشور جو دو تین مخالفانہ کتابیں پڑھ کر دانشوری کی دکان سجانے نکلے ہیں۔
جذبات سے کھیلنا آسان ہے، عقل کل بن کر ٹی وی چینلوں پر فتوے دینا آسان ہے، بغیر تحقیق کئے اور بغیر سمجھے اعتراضات کرنا آسان ہے لیکن لنگوٹی باندھ کر علم کے دریا میں اترنا، بصیرت، مطالعہ اور غور و فکر کے موتی چننا نہایت مشکل۔ ہاں ہمارا الیکٹرانک میڈیا ایک طرح سے دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کے ظرف کا امتحان ہے اور میں اس رزم گاہ میں لوگوں کو دست و گریباں ہوتے، گالی گلوچ کرتے اور اقبال و جناح جیسی شخصیات پر پتھر پھینکتے دیکھ کر مغموم بھی ہو جاتا ہوں اور دوستوں کی کم ظرفی سے محظوظ بھی ہوتا ہوں۔ سیاسی اختلاف پر دست و گریبان ہونا، اپنے لیڈر کی خوشامد میں حدیں پار کرتے ہوئے مخالف کو گالی دینا تو معمول کی بات ہے لیکن اقبال و جناح کی تنقیص، اعتراض برائے اعتراض اور سطحی فتوے آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہیں۔ ہمارے یہ محسنین بہرحال انسان تھے اور انسانوں میں کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں۔ ان سے اختلاف کی گنجائش بھی رہتی ہے لیکن علمی اختلاف اور شے ہے اور بدنیتی پر مبنی تنقیص اور شے ہے۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ میں کہہ رہا تھا کہ انسان عمر بھر سیکھتا ہی رہتا ہے اور اگر آرزو سیکھنے کی ہو تو زندگی علم حاصل کرنے اور سیکھنے کا پیہم عمل دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً میں نے طویل عمر گزارنے کے بعد سیکھا ہے کہ انسانی تعلقات جن پر ہم ناز کرتے ہیں اور جنہیں مضبوط ترین شے سمجھتے ہیں دراصل انتہائی نازک، خستہ (BRITTLE) اور ناپائیدار شے ہوتے ہیں اور دہائیوں پرانے تعلقات کے شیشے میں بال آتے یا لکیر ابھرتے صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں۔ میں نے زندگی سے یہ بھی سیکھا ہے کہ انسان کا ”من“ یعنی قلب بقول اقبال پرانا پاپی ہوتا ہے اور اسے پاپ سے صاف کرنا مشکل ترین مجاہدہ ہے۔ ہمارے باطن میں غصہ، حسد، بغض، ہوس، لالچ، کدورت، نفرت، غرور، اپنے سے عشق وغیرہ جیسے دشمن گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور ہم ان پر خود فریبی کی چادر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے من کو سفلی جذبات سے پاک کر لیا ہے لیکن ذرا موقع ملتے ہی جب یہ دشمن ہم پر حملہ آور ہوتا ہے تو انسان وقتی جذبات میں بہہ جاتا ہے لیکن بعد ازاں اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے تو پچھتاوے سے ہاتھ ملنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو لعن طعن کرنے لگتا ہے۔ اس پچھتاوے اور لعن طعن میں خیر کا پہلو مضمر ہے کہ یہ اپنی اصلاح کا راستہ ہے لیکن افسوس تو ان پر ہوتا ہے جو سفلی جذبات میں بہہ کر پچھتاوے کی بجائے اپنے کارناموں پر اتراتے ہیں۔ ایسے حضرات کو کسی کی توہین کر کے، کسی کے خلاف سازش کر کے، کسی کو دھوکہ دے کر، کسی سے بے پناہ منافع حاصل کر کے اور کسی سے جھوٹ بول کر اسے بیوقوف بنانے میں لذت حاصل ہوتی ہے جس پر انسانی باطن میں چھپے ہوئے دشمن مزید طاقتور ہوتے ہیں اور اصلاح یا فلاح کی قوتیں مزید کمزور ہو جاتی ہیں۔
غلطی کر کے پچھتانا اور اس سے سیکھنا انسانی کردار کی عظمت ہے بلکہ غلطی کر کے اس پر اکڑنا انسانی پستی اور ذلت ہے۔ میں نے کہا کہ ناں غصے پر قابو پانا، بغض و حسد سے بچنا، اور بہتان کے پتھر کھا کر برداشت کا مظاہرہ کرنا یعنی صبر کرنا بہت بڑا مجاہدہ ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
فرشتے کو تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے معصوم پیدا کیا ہے، وہ گناہ اور غلطی کرنے کا اہل ہی نہیں جبکہ انسان گناہ اور غلطی کے حوالے سے کمزور پیدا کیا گیا ہے اس لئے اگر وہ محنت کر کے اپنے آپ کو پاک و صاف کر لے تو فرشتوں سے بہتر مقام پا سکتا ہے۔ زندگی سیکھنے کے عمل کا نام ہے اور میں نے یہ بھی سیکھا کہ سنی سنائی پر یقین نہیں کرنا چاہئے لیکن بعض اوقات سنی سنائی اتنی معتبر ہوتی ہے کہ انسان اس پر یقین کر جاتا ہے اور فریب نظر کا شکار ہو جاتا ہے۔ میں نے گزشتہ ایک کالم میں یونس حبیب کے انکشافات کے حوالے سے جنرل رفاقت کا ذکر کیا تو مجھے ایک بریگیڈیئر صاحب نے بتایا کہ وہ اللہ کو پیارے ہو چکے۔ چنانچہ اگلے کالم میں میں نے اُن کے نام کے ساتھ مرحوم لکھ دیا۔
آج ان کے اسٹاف کا فون آیا تو میں شرمندگی سے پانی پانی ہو گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ جنرل رفاقت ماشاء اللہ نہ صرف بقید حیات ہیں بلکہ روزانہ دو گھنٹے فاسٹ یونیورسٹی کو بھی دیتے ہیں۔ میں نے سید قاسم محمود انسائیکلو پیڈیا پاکستانی کا (صفحہ 633) پر پڑھ کر مولانا شبیر احمد عثمانی کو مولانا ظفر عثمانی کا بھائی اور مولانا اشرف علی تھانوی کا بھانجا لکھ دیا۔
کراچی سے ایک اسکالر عبداللہ صاحب کا فون آیا کہ مولانا شبیر عثمانی مولانا تھانوی کے بھانجے نہیں تھے۔ مجھے ان کی اطلاع درست لگی کس کا اعتبار کیجئے اور کس کا نہ کیجئے۔ اسی لئے تو عرض کرتا ہوں کہ انسان ساری زندگی سیکھتا ہی رہتا ہے اور اگر حصول علم کی آرزو سچی ہو تو زندگی بھر طالب علم ہی رہتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں عقل کل اور علم و فضل کے غرور سے بچائے کہ یہ دراصل فریب نظر ہے۔ 
 

No comments:

Post a Comment