Saturday 19 May 2012

چراغوں میں روشنی نہ رہی. October 28, 2011



میرے رائٹنگ ٹیبل پر رکھا ہوا کیلنڈر مجھے اکتوبر کے مہینے میں بار بار نوابزادہ لیاقت علی خان کی یاد دلاتا رہتا ہے حالانکہ جس سال ان کا انتقال ہوا میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا اور مجھے نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت کا صرف اتنا ہی پتہ ہے کہ اس روز میرے والد مرحوم اور گاؤں والے نہایت افسردہ اور اداس تھے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صدمے کے باوجود نہ ان کے حوصلے پست تھے اور نہ ہی وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار تھے۔ اکتوبر کا مہینہ مجھے اس لئے نوابزادہ لیاقت علی خان کی یاد دلاتا ہے کہ ضلع کرنال کے ایک بڑے جاگیردار رکن الدولہ شمشیر جنگ نواب رستم علی خان کا یہ فرزند اکتوبر ہی میں پیدا ہوا اور اکتوبر ہی میں شہید ہو گیا۔ مجھے اپنی تاریخ کا یہ اہم سیاسی کردار لیاقت علی خان اس لئے پسند ہے کہ یہ ہمارے چند لیڈروں کی اس صف میں شامل تھا جن سے ملک و قوم کے لئے ایثار کی روشن داستانیں وابستہ ہیں اور جن کے لئے سیاست عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ اس صف اول کے لیڈران کے ختم ہوتے ہی وہ غدر مچا کہ خدا پناہ… ان کی کرسیوں اور گدیوں پر بیٹھنے والوں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور اندرون بیرون ملک دولت کے ڈھیر لگا دیئے جبکہ تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل قائد اعظم کے یہ ساتھی سب کچھ ملک و قوم کو دے کر تہی دامن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ قائد اعظم کی ذات میں کچھ ایسا جادو یا کرشمہ ضرور تھا جو لوہے کو سونا اور پلاٹینم بنا دیتا تھا اور دل میں قوم سے محبت اور ایثار کے چراغ جلا دیتا تھا… ورنہ اتنا بڑا تضاد سمجھ میں نہیں آتا۔ قائد اعظم سے لے کر ایوبی مارشل لاء سے قبل آخری جمہوری وزیر اعظم ملک فیروز خان نون تک کسی بھی وزیر اعظم کے دامن پر کرپشن، لوٹ مار ، عہدے کا ناجائز استعمال وغیرہ کے الزامات نہیں لگے لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی اور جنرل ایوب خان سے لے کر آج تک کسی بھی وزیر اعظم کا دامن ان الزامات سے صاف نہیں۔ لوٹ مار کی پانچ دہائیوں پر پھیلی ہوئی واردات نے ملک کو اَن گنت مسائل میں مبتلا کر دیا ہے اور ان میں ایک خوفناک مسئلہ کرپشن ہے جو اوپر سے سفر کرتی ہوئی نیچے تک پہنچ گئی ہے۔ اب تو لوگوں نے کرپشن سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور اسے اپنی زندگی کی ایک قدر تسلیم کر لیا ہے۔ میرے نزدیک یہ خطرناک ترین پیشرفت ہے کہ لوگوں کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو کہ جنرل ایوب خان نے تحریک پاکستان کے لیڈروں اور قائد اعظم کے سپاہیوں کو سیاسی زندگی سے عاق کر کے جرنیلوں اور ایسے سیاستدانوں کو شریک اقتدار کیا جن کا نہ سیاسی پس منظر تھا اور نہ ہی وہ تحریک پاکستان میں شامل تھے کہ ان کے دلوں میں پاکستان کے لئے وہ جذبہ ہوتا جو قائد اعظم کے ساتھیوں کے دلوں میں تھا۔ مارشل لاء کا پہلا تحفہ بے لگام اختیار، بے پناہ اقتدار اور انتقام کا نشہ ہوتا ہے۔ احتساب کے فقدان کے سبب یہ سارے نشے سہ آتشہ ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ پریس آزاد ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا احتساب کرے اور نہ ہی رائے عامہ کا خوف ہوتا ہے۔ رہا خدا کا خوف تو وہ سارے دلوں میں نہیں ہوتا۔ چنانچہ مارشل لاء نے حکمرانوں کو خوب کھل کر کھیلنے کا موقع دیا اور جنرل ایوب خان ، ان کا خاندان اور دوسرے حکمران جرنیل دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی ہو گئے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جب حکمران دولت لوٹنے کی شہرت رکھتے ہوں تو پھر یہ پیغام ساری حکومتی مشینری میں نیچے تک پھیل جاتا ہے اور اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان شاید تیس گاؤں کے مالک تھے لیکن پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے نہ ہی کوئی کلیم داخل کیا اور نہ ہی زمین الاٹ کرائی حتیٰ کہ جب انہیں شہید کیا گیا تو پاکستان میں ان کے پاس سر چھپانے کو چھت بھی موجود نہ تھی۔ بے تیغ سپاہی کے مصنف اور وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری نواب صدیق علی خان کے بقول ان کا بنک بیلنس پچیس تیس روپے تھا اور ان کے پاس کپڑوں کے محض چند جوڑے تھے۔ غور کیجئے کہ لیاقت علی خان ملک کے چار سال تک وزیر اعظم رہے اور تقسیم سے قبل بہت سے گاؤں کے مالک تھے۔ شاید آج کے دور میں آپ کو ان باتوں پر یقین نہ آئے کیونکہ آپ نے وہ وزرائے اعظم دیکھے ہیں جن کے زرق برق لباس قوم کو لاکھوں روپوں میں پڑتے ہیں اور جن کا خرچہ کروڑوں میں ہے۔ لیاقت علی خان سے قبل قائد اعظم نے بھی اپنی جائیداد سے چھوٹا سا حصہ قریبی رشتے داروں کو دینے کے بعد اس کا معتدبہ حصہ قوم کو دے دیا تھا اور انہیں لیاقت علی خان پر اس قدر اعتماد تھا کہ انہوں نے اپنی وصیت کے حوالے سے قائم کردہ ٹرسٹ میں لیاقت علی خان کو ٹرسٹی نامزد کیا تھا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد ان کی بیگم رعنا لیاقت علی جو ڈبل ایم اے تھیں انہیں ہالینڈ میں سفیر مقرر کیا گیا۔ میں ہالینڈ کے مرکز ڈن ہاگ میں تھا تو پاکستانی سفیر نے اپنے محل نما گھر کا پس منظر بتاتے ہوئے راز فاش کیا کہ یہ گھر ہالینڈ کی ملکہ کی ملکیت تھا۔ ملکہ کی رعنا لیاقت علی سے گہری دوستی ہو گئی تھی اور وہ رعنا کے ساتھ چیس کھیلا کرتی تھیں۔ ایک روز چیس کی گیم اتنی جذباتی ہو گئی کہ ملکہ نے کہا اگر تم یہ بازی جیت جاؤ تو یہ گھر تمہارا … پاکستان کی خوش قسمتی رعنا بازی جیت گئیں اور انہوں نے یہ گھر حکومت پاکستان کو دے دیا۔ ایک بار سرکاری ریکارڈ دیکھتے ہوئے مجھے علم ہوا کہ مدینہ منورہ میں پاکستان ہاؤس دراصل اس دور کے سعوی فرمانروا نے تحفے کے طور پر پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو دیا تھا جنہوں نے اسے حاجیوں اور زائرین کی خدمت کے لئے وقف کر کے حکومت کے حوالے کر دیا۔ چند ایک اور ممالک میں بھی سفارت خانوں کے لئے جائیدادیں پاکستان سے محبت کرنے والوں نے خرید کر حکومت کو دیں۔ بلاشبہ غلام محمد پر کئی غیر جمہوری اقدامات کا الزام ہے جنہوں نے پاکستان کو سیاسی پٹڑی سے اتار دیا لیکن ان کا دامن ہر قسم کے مالی الزام سے صاف ہے۔ میں پھر وہی بات دہرا رہا ہوں کہ قائد اعظم سے لے کر اکتوبر 1958ء کے ایوبی مارشل لاء تک کسی گورنر جنرل، وزیر اعظم یا اہم سیاستدان پر لوٹ مار کا الزام نہیں جن میں اسکندر مرزا بھی شامل تھے۔ اسکندر مرزا کو لندن کی جلا وطنی کے دوران زندہ رہنے کے لئے ایک ہوٹل کی ملازمت کرنا پڑی لیکن اس کے بعد اور آج تک ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جس نے ملک و قوم کے لئے تھوڑا سا ایثار بھی کیا ہو اور جس نے اقتدار کا فائدہ اٹھا کر دوست نوازی، اقربا پروری اور عیش و عشرت نہ کی ہو یا اندرون بیرون ملک دولت کے ڈھیر نہ لگائے ہوں۔ ان کی ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی اور یہ اقتدار میں صرف فائدے اٹھانے اور دولت بنانے تشریف لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلا دور 1947ء سے لے کر اکتوبر 1958ء تک کا ہے جب ملک پر ”دینے والے“ حکمران تھے اور دوسرا دور 1958ء سے لے کر 2011ء تک کا ہے جب ملک پر لینے والے یا لوٹنے والے حکمران تھے۔ پہلا دور صرف گیارہ برس پر محیط ہے جبکہ دوسرا دور 53 برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں لیکن آپ پھر بھی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں اور میرے نزدیک ہمارا اصل سانحہ یہی ہے۔

No comments:

Post a Comment