Saturday 19 May 2012

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے January 24, 2012


عرصہ گزرا میں نے کسی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا جو کل سے میرے ذہن میں مہلک رہا ہے۔ سر سید احمد خان کو ہم اپنے قومی محسن اور نظریاتی تحریک کے بانی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ سرسید احمد خان کے صاحبزادے بیرسٹر محمود تھے جو نہایت ذہین، فطین اور قابل وکیل تھے۔ بعد ازاں ہائیکورٹ کے جج بنے یاد رہے کہ انگریزوں کے ابتدائی دور میں جج بننا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایک بار سید محمود بھاری فیس لے کر کسی مقدمے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے ہی کلائنٹ کے خلاف دلائل دینے لگے۔ ان کا کلائنٹ یہ واردات دیکھ کر بہت فکر مند ہوا اور گھبرا کر ان کے پاس گیا۔ سید محمود متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ حضور یہ آپ کیا کر رہے ہیں، میرے وکیل ہو کر مجھے ہی برباد کر رہے ہیں۔ بیرسٹر سید محمود فوراً سنبھلے اور عدالت سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”مائی لارڈ۔ یہ تھے وہ دلائل جو میرا مخالف وکیل دے سکتا تھا۔ اب میں ان دلائل کو ایک ایک کر کے مسمار کرتا ہوں اور اپنے مقدمے کے حق میں دلائل دیتا ہوں۔“ پھر دلائل کا دریا دوسری سمت میں بہنے لگا۔
بہت سے دوستوں کو گلہ ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن نے یو ٹرن لیا ہے۔ وہ 2007 میں مشرف کے حوالے سے کہتے تھے اور عدلیہ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ صدر کو آئین کے مطابق مکمل استثنیٰ یا کھلی چھٹی نہیں ہے لیکن اب انہوں نے اپنا موقف بدل لیا ہے اور سپریم کورٹ کو الٹی پٹی پڑھا رہے ہیں۔
بات فقط اتنی سی ہے کہ وکالت عقل کا کرشمہ ہے اور عقل ضرورت کے مطابق بھیس بدل لیتی ہے۔ یہ عشق یا دل کا معاملہ نہیں کہ انسان ایک موقف کو دل دے بیٹھے اور پھر عمر بھر اسی موقف کے مزار کا مجاور بن کر بیٹھا رہے۔ عشق تو چوہدری صاحب کا پیپلز پارٹی ہے جس سے وہ تمام تر امتحانات اور مشکلات کے باوجود وفا کر رہے ہیں اور اس عشق کی رسم وفا نبھانے وہ نوڈیرو جاتے ہیں اور اسی عشق کی آگ میں پگھل کر انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر تقریر کرتے ہوئے صدر زرداری صاحب کو راہ مدینہ کا مسافر قرار دے دیا تھا۔ یہ سارے کارنامے اور کرشمے عشق کے ہیں ورنہ اگر یہ عقل کا معرکہ ہوتا تو اعتزاز صاحب کبھی بھی زرداری صاحب کو راہ مدینہ کا مسافر قرار نہ دیتے۔ اے کاش انہوں نے مدینہ کی راہگزر کو کبھی عشق کی آنکھ سے دیکھا ہوتا اور اس راہ کے مسافروں کے قدموں کی دھول اور مہلک سونگھی ہوتی۔ بقول فیض
نا صحو پند گرو راہگزر تو دیکھو
اس راہ کے مسافر دنیا کی ہر ہوس سے پاک اور آزاد ہوتے ہیں اور صرف عشق رسول ﷺ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اس راہ کے مسافر نہ ڈالروں میں کھیلتے اور نہ عہدوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ صدر صاحب کو اعتزاز احسن سے تقریر کروانے کا مشورہ بھی صدر صاحب کے نئے اور تجربہ کار میڈیا منیجر نے دیا تھا جس نے کئی حوالوں سے شہرت حاصل کرنے کے بعد صدر کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ دیکھئے وفا کا یہ رشتہ کب تک نبھتا ہے کیونکہ اس سے قبل تو انہوں نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی سوائے اپنے مفادات کے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اعتزاز صاحب اچانک پکڑے گئے اور کچھ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے سے علم تھا۔ بہرحال انہوں نے عشق کے تقاضے نبھائے اور خوب نبھائے ظاہر ہے کہ عشق کی راہ میں اصول بھی روندنے پڑتے ہیں اور نظریات کو بھی داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کی وکالت قبول کرنا بھی اسی عشق کے کھیل کا حصہ ہے ورنہ کسی نیک نیت اور محب وطن کا دل نہیں چاہتا کہ وہ این آر او کے گند میں ہاتھ ڈالے۔ دیکھا جائے تو یہ سب این آر او کا کیا دھرا ہے جس سے 8041 لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور نو کھرب بتیس ارب روپے معاف کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک کیس میں صرف ایک ملزم نے ڈیڑھ بلین ڈالر معاف کروائے۔ سپریم کورٹ نے 2009 میں این آر او کو خلاف آئین قرار دے دیا اور قومی اسمبلی نے اسے بقول جسٹس رمدے بدبودار لوتھڑا قرار دے کر باہر پھینک دیا۔ اسی بدبو دار قانون کے حوالے سے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئٹزر لینڈ خط لکھا جسے سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر واپس لینے کا حکم دیا۔ ایک غیر قانونی خط کی واپسی کا استثنیٰ سے کیا تعلق؟ حکومت دو سال سے زیادہ عرصہ تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوئی رہی جب توہین عدالت کا سلسلہ شروع ہوا تو استثنیٰ شور مچانا شروع کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا تماشا بدنیتی پر مبنی تھا اور جناب اعتزاز سے بہتر اس تماشے کی رگ جاں کو کون سمجھتا ہے۔
میں قانون کا طالب علم نہیں البتہ پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ضرور ہوں اور آئین کو بھی تھوڑا تھوڑا سمجھتا ہوں۔ اسی لئے میں اخلاقی بنیادوں کی بات نہیں کر رہا ورنہ تو خزانے کی چوری کو قانونی چھتری فراہم کرنا تمام اخلاقی اصولوں کی نفی ہے ہاں تو ایسے بھی ہوا کہ یہ جاننے کے باوجود کہ بھٹو نواب احمد خان کا قاتل نہیں، اسے قاتل قرار دے کر پھانسی چڑھا دیا گیا اور پھر قرآن مجید پر دیئے گئے حلفوں کو توڑ کر وعدہ معاف گواہوں کو بھی لٹکا دیا گیا۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ یہ قانونی موشگافیاں عقل کی شعبدے بازی ہے اس سے اصولوں یا اخلاقیات کی توقع عبث…!!
پولیٹیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق جب سپریم کورٹ صدارتی استثنیٰ کے حوالے سے آئین کے سیکشن 248 کا جائزہ لے گی تو اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ دیکھا جائے گا کہ کیا یہ سیکشن یا استثنیٰ آئین کی روح کے مطابق ہے اور اس کا ٹکراؤ دوسری شقوں سے تو نہیں ہوتا۔ اس پس منظر میں قرار داد مقاصد، اسلامی اصول اور آئین کی اس شق کو بھی ذہن میں رکھا جائے گا کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صدارتی استثنیٰ ہمارے پہلے دستور (1956) میں موجود نہیں تھا اور صدر ایوب کی ضرورت کے پیش نظر اسے 1962 کے دستور کا حصہ بنایا گیا۔ جب اسلامی اصولوں کی بات ہو گی تو خلفائے راشدین کی مثالوں کے حوالے دیئے جائیں گے کیونکہ خلفائے راشدین اور صحابہ اکرام سے بہتر اسلامی اصولوں اور قرآنی تعلیمات کو کون سمجھتا ہے؟ ان مثالوں کے مطابق نہ ہی صرف حضرت عمر بلکہ حضرت علی بھی قاضی کی عدالت میں پیش ہوتے رہے اور انہوں نے کبھی استثنیٰ نہیں مانگا بلکہ ایک بار ایک قاضی کو صرف اس لئے معزول کر دیا گیا کہ اس نے خلیفہ کو ملزم سے زیادہ احترام دینے کی کوشش کی تھی۔ بہرحال یہ معاملہ عدالت کے حضور پیش ہے، نہ جانے فیصلہ کیا ہو لیکن میری طالب علمانہ رائے کے مطابق سیکشن 248 اور استثنیٰ خطرے میں ہیں۔
سیاسی نقشے پر نظر ڈالیں تو مطلع ابر آلود لگتا ہے۔ ایک طرف توہین عدالت اور صدارتی استثنیٰ کے مقدمات چل رہے ہیں تو دوسری طرف میمو سکینڈل بھی رنگ لا رہا ہے۔ اگر رحمان ملک کی دھمکیوں کے باوجود منصور اعجاز کمیشن کے سامنے ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا تو معاملات سنجیدہ شکل اختیار کر جائیں گے۔ اکثر اوقات سنجیدہ اور خطرناک کے درمیان فاصلے مٹ جاتے ہیں کیونکہ میمو اسکینڈل فوج کے لئے ”عزت بے عزتی“ کا معاملہ ہے اور فوج ہر قیمت پر چاہے گی کہ منصور اعجاز کمیشن کے سامنے پیش ہو اور وزیراعظم کے انتہائی مبالغہ آمیز اخراجاتی تخمینے راہ میں حائل نہ ہوں۔ دیکھئے فروری کا مہینہ کیا خبریں لاتا ہے، سیاسی نقشہ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ 


No comments:

Post a Comment