Sunday 20 May 2012

کیسے مان لوں؟ April 17, 2012


یہ واقعہ جنگ عظیم دوم کا ہے جب امریکہ میں صدر روز ویلیٹ کا ڈنکا بجتا تھا اور انگلستان کا وزیراعظم مشہور سیاستدان، مصنف اور دانشور ونسٹن چرچل تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے لاکھوں انسانی جانوں کو بارود کی آگ میں بھسم کردیا، لاکھوں گھراجاڑ دیئے اور یورپی ممالک کی معیشت کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان اقوام کو اپنے قدموں پرکھڑا ہونے میں دہائیاں لگ گئیں۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ امریکہ قدرے تاخیر سے جنگ کے میدان میں اترا تھا اور ان دنوں امریکہ اور برطانیہ کی گاڑھی چھنتی تھی۔ امریکی صدر روز ویلیٹ انگلستان کے سرکاری دورے پر آیا تواس نے کسی سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرنے کی بجائے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ اس کے نزدیک مقابلتاً یہ محفوظ ترین جگہ تھی۔
آج یہ تصور کرنا محال ہے کہ ان دنوں ہٹلر کے طیارے لندن کی فضاؤں میں اچانک حملہ آور ہوتے اور بم پھینک کر غائب ہو جاتے تھے۔ اس لئے احساس تحفظ پہلی ترجیح ہوتی تھی۔ مختصر یہ کہ روز ویلیٹ -10ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہی قیام پذیر ہوا۔ صبح تیار ہو کر وقت پر ناشتے کے لئے آیا تو دیکھا کہ کھانے کی میز کے اردگرد چار کرسیاں لگی تھیں اور تین افراد کے لئے پلیٹیں اور پیالیاں رکھی تھیں۔ جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا تو اس نے نوٹ کیا کہ امریکی صدر کی پلیٹ میں فقط ایک ابلا ہوا انڈا رکھا تھا جبکہ ونسٹن چرچل کی پلیٹ میں دو ابلے انڈے پڑے تھے۔ میں نے اتفاق سے چرچل اور روز ویلیٹ کی خط و کتابت پر نظر ڈالی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں حاضر جواب، وٹی (Witty)اور پڑھے لکھے سیاستدان تھے۔ چنانچہ صدر وز ویلیٹ نے طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ مسٹر وزیراعظم میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ آپ کی پلیٹ میں دو ابلے انڈے پڑے ہیں اور میری میں صرف ایک۔ چرچل جواباً مسکرایا اور کہا کہ جناب صدر یہ سوال سارہ چرچل سے پوچھیں جو کھانے کے بندوبست کی انچارج ہے۔ سارہ چرچل وزیراعظم چرچل کی بیٹی تھی اور اپنے باپ کے لئے کھانا تیار کرتی تھی۔ اتنے میں سارہ بھی آگئی۔ وہ ناشتے کی میز پر تیسری ”مہمان“ تھی بلکہ میزبان تھی۔
صدر روز ویلیٹ نے وہی سوال سارہ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ مسٹر صدر! جنگ عظیم کی وجہ سے ہمارے ملک میں راشننگ کا نظام جاری ہے۔راشننگ ہم پر اسی طرح لاگو ہے جس طرح عام شہری پر۔ راشننگ کے اصول کے تحت ایک شخص کو صرف ایک انڈا ملتا ہے۔میرا باپ دو انڈے کھانے کا عادی ہے چنانچہ میں انہیں اپنے حصے کا انڈا بھی دے دیتی ہوں۔ اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری پلیٹ میں صرف ٹوس رکھے ہیں، انڈا کوئی نہیں۔ راشننگ کے نظام کے تحت مہمان کو بھی ایک ہی انڈا ملتا ہے چنانچہ آپ کو ایک ہی انڈے پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ سارہ کا جواب سن کر روز ویلیٹ کھسیانی ہنسی ہنسا اور ناشتے میں مصروف ہوگیا۔ میں نے جب یہ واقعہ سنا تومجھے حضرت عمر کی قمیض اور دو چادروں والا واقعہ یاد آگیا۔ ان کو بھی اپنے حصے کی چادر ان کے بیٹے نے دی تھی لیکن ظاہرہے کہ اس طرح کے واقعات صرف ان ملکوں اور معاشروں میں ہوتے ہیں جہاں قانون کی حاکمیت اور انسانی برابری کے اصولوں پر خلوص نیت سے عمل کیا جاتا ہو اور جہاں حاکم یا حکمران اپنے آپ کو مخلوق خدا اور خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوں یا کم از کم اپنے ضمیر کی عدالت میں جوابدہی سے ڈرتے ہوں۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا آپ اس طرح کے طرز عمل کی توقع پاکستان میں کرسکتے ہیں جہاں حکمران تو دور کی بات ہے حکمرانوں کے کارندے، بااثر شہری، فیوڈل لارڈ، بیورو کریٹ، اسمبلیوں کے اراکین، روساء اور وزراء نہ صرف اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں بلکہ قانون کی پامالی کو طرہ امتیاز اور باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اگر آپ ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو تصور خدا سے عاری مغربی جمہوریتوں کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی، مساوات اور انصاف میں ملے گا اور اپنی تباہی کا سامان ان اقدار کی نفی میں نظر آئے گا۔
یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر میں آپ کو قانون کی حاکمیت، انسانی برابری، معاشی عدل اور انصاف کا ذکر بار بار ملے گا کیونکہ انہوں نے مغربی معاشرے کی ترقی اور نظم و ضبط کا راز ان اصولوں میں پایا تھا جبکہ انہیں علم تھا کہ ہمارے ذات پات زدہ فیوڈل معاشرے، جاگیردارانہ ذہن اور غیر اسلامی رویوں نے ہماری انسانی اور معاشرتی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ قائداعظم جب اسلامی فلاحی معاشرے یا پاکستان کے لئے ایسے جمہوری نظام کی بات کرتے تھے جو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا تو ان کے پیش نظر وہی اصول تھے جنہوں نے خلافت راشدہ کے دور کو چار چاند لگا دیئے تھے اور مسلمانوں کو ”آئیڈیل“ فراہم کر دیا تھا۔ خلافت راشدہ یا اسلامی نظام کی ایک اہم بنیاد یا اہم ستون سادگی بھی تھا جسے مغربی حکمرانوں نے کسی حد تک اپنا لیا ہے لیکن ہمارے رئیس مزاج جاگیردار اور خزانہ چور حکمران انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سچ یہی ہے کہ جب تک اقتدار روایتی سیاستدانوں اور موروثی حکمرانوں کے پاس رہے گا اس رویے، شاہانہ انداز حکومت اور قومی خزانے کو پانی کی طرح استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہاں اگر کبھی اس ملک کو قوم کا درد رکھنے والی مخلص قیادت میسر ہوگئی تو آپ قائداعظم کی سادگی کے واقعات کو اصلی روپ میں دیکھ سکیں گے۔
یاد آیا۔ ایم اے اصفہانی قائداعظم کے دیرینہ دوست اور پرانے ساتھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے امریکہ میں پہلے سفیر مقرر ہوئے۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکہ نہیں دے رہا تو میری اطلاع کے مطابق واشنگٹن میں اصفہانی صاحب نے ایک عمارت خرید کر حکومت پاکستان کو تحفہ میں دی تھی اسی لئے میں قائداعظم کے ساتھیوں کو قوم کو ”دینے والے“ کہتا ہوں کیونکہ ان کے بعد پھر ہم نے صرف ”لینے والے“ ہی دیکھے۔ اس دور میں اس طرح کے ایثار اور قومی خدمت کی کہانیاں خاصی تعداد میں ملتی ہیں اور قلب و ذہن کو گرماتی ہیں۔ میرے دوست حسین حقانی نے ایک تجربہ کار شوہر کی مانند تیسری شادی بہت سوچ سمجھ کرکی کیونکہ ان کی تیسری بیگم فرح اصفہانی ہیں جو ایم اے اصفہانی کی پوتی ہیں۔ اصفہانی صاحب نے قائداعظم پر ایک اچھی کتاب بھی لکھی ہے۔
اصفہانی صاحب کہتے ہیں کہ میں کراچی میں قائداعظم سے ملنے گورنر جنرل ہاؤس گیا۔ جب ہماری ملاقات ختم ہوئی اور قائداعظم مجھے خدا حافظ کہنے باہر نکلے تو انہوں نے برآمدے میں قدم رکھتے ہی کمرے کی بتی بجھا دی۔ ہم سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہے تھے میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”مسٹر جناح گورنر جنرل ہاؤس کی بتیاں جلتی رہنی چاہئے“۔ اتنے میں ہم سیڑھیوں کے پاس پہنچ گئے جہاں گورنر جنرل نے مجھے رخصت کرنا تھا۔ قائداعظم بولے ”آپ سیڑھیاں اتر جائیں گے تو میں یہ بتی بھی بجھا دوں گا، میرے غریب ملک کا خزانہ ایک پائی کا ضیاع بھی برداشت نہیں کرسکتا“۔
یہ الفاظ کس کے تھے؟ یہ الفاظ اس شخص کے تھے جس کے دل اور رگ و پے میں قوم کا درد موجزن تھا۔ آج کے حکمران آپ کے سامنے ہیں وہ کس طرح عیش و عشرت کے لئے قومی خزانے کو پانی کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور کس طرح بے دریغ لوٹ مار میں مصروف ہیں یہ سب کچھ آپ دیکھ رہے ہیں۔
عالمی معاشی رپورٹ کے مطابق نو کروڑ پاکستانی انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ حکمرانوں کا روزانہ خرچہ لاکھوں روپوں میں ہے۔ پھر میں یہ کیسے مان لوں کہ ان کے دلوں میں قوم کے درد کی کوئی رمق بھی باقی ہے اور وہ غریبوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں، ان غریبوں کا جن کے جذباتی استحصال کے لئے وہ دن رات نعرے لگاتے اور بڑھکیں مارتے ہیں۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ وہ غریب پھر انہی کے جھانسے اور فریب میں آجاتے ہیں؟ پھر انہیں کو ووٹ دے کر سر پر بٹھا لیتے ہیں؟


No comments:

Post a Comment