Sunday 20 May 2012

فنا اور بقاء February 29, 2012


کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے نام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہوتے ہیں جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ زندہ رہنا اور موت کے بعد بھی زندہ رہنا ہر انسان کا خواب اور خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ دراصل فنا اور بقاء اس کائنات کے دو رنگ اور دو متضاد پہلو ہیں۔ فنا انسان کا مقدر ہے اور رب کائنات نے اس سارے نظام کی بنیاد ہی فنا پر رکھی ہے لیکن اس فنا میں ایک پہلو بقاء کا بھی ہے۔ وہ بقاء تھوڑے عرصے کے لئے ہو یا طویل عرصے کے لئے بہرحال اسے بھی ایک دن فنا ہونا ہے۔ آپ غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس روز بقاء فنا ہوگی دراصل وہ دن یوم حساب کا ہوگا اور یوم حساب تک فنا و بقاء کاسلسلہ جاری رہے گا۔ یہ بھی ایک دلچسپ اور قابل غور معمہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کائنات کی ہرشے کا مقدر فنا رکھا ہے اور انسان کو شعور کی آنکھیں کھولتے ہی علم ہوتا ہے کہ اسے بہرحال فنا ہونا ہے اور یہ زندگی فانی ہے لیکن اس کے باوجود انسان کی فطرت میں ایک جذبہ ہمہ وقت شمع بن کر روشن رہتاہے بلکہ یوں کہئے کہ انسان کو مضطرب رکھتا ہے اور وہ جذبہ ہے بقاء کا…یعنی خالق حقیقی نے انسان میں خیر وشر کے ساتھ ساتھ بقاء کی خواہش بھی رکھ دی ہے ۔انسان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح فنا کو شکست دے لیکن وہ فنا کو شکست نہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر ربی ہے چنانچہ وہ اپنی بقاء کے ذریعے فنا کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان یہ جانتے ہوئے کہ اسے ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی زندہ رہنے کی خواہش اور تدبیر کرتا ہے، یہی خواہش یا تدبیر انسان سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دلواتا ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی لوگوں کی یاداشت یا تاریخ کے صفحات پر زندہ رکھتے ہیں چنانچہ انسان مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ غائب ہو کر بھی حاضر رہتا ہے اور اس کا ذکر یا اس کے کارنامے کا ذکر زندہ لوگوں کو گرماتا رہتا ہے۔ ان کی یادوں میں رشک کا گلاب بن کر خوشبو بکھیرتا رہتا ہے اورکبھی کبھی نشان منزل یا منزل بھی بن جاتا ہے۔ میں جب انسانی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے دنیا کی عظیم ایجادات، تخلیقات، انسانیت کی عظیم خدمت، قوموں کے مقدر اور حیات ،عبادات و مجاہدات اور انسانی زندگی کی حیران کن کرامات کے پس پردہ بقاء کا جذبہ نظر آتا ہے جسے قدرت پیدائش کے وقت انسان کی فطرت میں ودیعت کردیتی ہے۔ گویا جو لوگ اس جذبے یا انسانی فطرت کو دبا کر عام سطح پر زندگی گزارتے ہیں وہ گویا اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اشرف نہیں ہوتے کیونکہ اشرف المخلوقات کی فطرت ہے فنا کو شکست دینا اور یہ شکست صرف بقاء کے ذریعے ہی دی جاسکتی ہے۔
مختصر یہ کہ بقاء انسانی جبلت کا جزو ہے لیکن بذات خود اس بقاء کے دو حصے ہیں۔ ایک دنیاوی اور دوسرا روحانی… دنیاوی بقاء کی تحریک سائنسی ایجادات، ذہنی،ادبی وغیر ادبی تخلیقات اور انسانی خدمات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور ہر تخلیقی سرگرمی کے لاشعور میں سرگرم نظر آتی ہے جبکہ روحانی بقاء رضائے الٰہی کے حصول کی خواہش کو جنم دیتی ہے اورعبادات و مجاہدات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دنیاوی بقاء غور و فکر، گہرے مطالعے، تحقیق اور حددرجہ محنت کی متقاضی ہوتی ہے جبکہ روحانی بقاء”عشق“ کی دین ہوتی ہے اور عشق کے ذریعے ہی سلوک کی منزلیں طے کرکے نصیب ہوتی ہے۔ کبھی کبھی عبادات و مجاہدات سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ کامل مرشد کی نظر کا تحفہ ہوتی ہے لیکن اس میں دو شرطیں روحانی راہ کا سنگ میل ہیں۔ اول مرشد کا کامل ہونا دوم دل و دماغ میں سچی خواہش کاروشن ہونا۔ کامل مرشد وہ ہوتا ہے جو اپنے محب ،طالب یا دنیاوی اصطلاح کے مطابق”مرید“ کے احوال پر نگاہ رکھنے کا اہل ہو، اس کے معاملات سے باخبر رہے اور سچی خواہش وہ ہوتی ہے جس کی لگن انسان کو ہمہ وقت بے تاب رکھے۔ ہروقت آنکھوں میں بسی رہے اور ذہن پر چھائی رہے جب خواہش سچی خواہش بن جائے تو مرشد اس کی آبیاری کرتا ہے، اس میں بیج بوتا اور فصل اگاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ساری منازل فقط”نظر“ کی تابع ہوتی ہیں اور نظر ہی سے طے ہوتی ہیں۔ یہی نظر کا یا پلٹتی اور تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دیتی ہے اور ہاں یہ ساری باتیں کتابی نہیں بلکہ کتاب زیست کی حقیقت ہیں لیکن یہ حقیقت اس کو ملتی ہے جو سچی لگن سے اسے تلاش کرتے ہیں۔ ایک مرشد کامل کے پاس درجن دو درجن یا اس سے بھی زیادہ چاہنے والے حلقہ بگوش رہتے ہیں لیکن مرشد کی ”نظر“ اسے ملتی ہے جس کا قلب سچی خواہش سے منور ہوتا ہے یا جس کے قلب کی زمین بیج کے لئے تیار ہوتی ہے۔ باقی محروم رہتے ہیں اور اندھیروں میں ٹامک ٹوٹیاں مارتے رہتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر رحم آتا ہے جو روحانی بقاء کو جھوٹ کہتے ہیں کیونکہ وہ پیدائشی اندھے ہیں، انہوں نے اجالا دیکھا ہی نہیں اور وہ کیا جانیں روشنی کیا شے ہوتی ہے۔
میں کہہ رہا تھا فنا اور بقاء قدرت نے انسانی فطرت میں ودیعت کردی ہے اور یہ دونوں تحریکیں پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی میں سرگرم اور متحرک رہتی ہیں۔ دنیاوی بقاء کے حوالے سے بڑے بڑے سائنس دان، بلب کی ایجاد سے لے کر ایٹمی قوت تک، ملیریا اور تپ دق سے لے کر کینسر کے علاج تک، بڑے بڑے شاعر ادیب فلاسفر ، عالمی رہنما، قوموں کا مقدر بدلنے والے اور انسانوں کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر لے جانے والے وغیرہ وغیرہ، اپنے شعبوں میں خدمت کے سبب تاریخ میں بھی زندہ ہیں، انسانی حافظے میں بھی موجود ہیں اور بڑے بڑے انعامات سے بھی فیض یاب ہوچکے ہیں۔ ان کے نام ان کے کام کی پہچان ہیں ان میں کچھ ضرب المثل تو کچھ خود مثال ہیں۔ زندہ تھے تو لوگوں نے عقیدت کے پھول نچھاور کئے ، حکمرانوں نے اعزازات بخشے ،لکھنے والوں نے قیصدے لکھے اور مر گئے تو تاریخ کاحصہ بن گئے۔
روحانی بقاء کے مسافر عام طور پر زندگی میں گمنام یا گوشہ نشین یا عوامی نظروں سے اوجھل رہے، عسرت اور غربت کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، ہر لمحہ شکر وصبر کا عملی نمونہ بنے رہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہاتھوں سختیاں بھی برداشت کیں لیکن دنیا سے پردہ کیا تو حاکم بن کر لوگوں کے دلوں اور روحوں پر حکمرانی کرنے لگے۔ ان میں بہت کم تھے جنہیں زندگی میں پذیرائی ملی اور بہت بڑی اکثریت دنیاوی پذیرائی سے کنارہ کش رہی۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ بہترین منصف اور انصاف کرنے والا اور اجر دینے والا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے جو اس کی راہ میں اور عشق میں زندگی گزاردیں یا زندگی گنوادیں وہ انہیں اجر نہ دے اور کئی گنا زیادہ انعام نہ دے۔ یہاں تک تو لکھ چکا ہوں تو ایک واقعہ میرے ذہن پر زور زور سے دستک دے رہا ہے۔ کئی برس گزرے میں نے یہ واقعہ ایک کتاب میں پڑھا تھا، پھر ایک ولی اللہ کی زبانی سنا ۔ حضرت صابر کلیر شریف والے ایک عظیم روحانی ہستی تھے کلیر شریف دہلی سے کچھ فاصلے پر واقعہ ہے۔ آپ حضرت بابا فرید کے بھانجے اور کامل ولی اللہ تھے۔ انتقال کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری میت دفنانے کے لئے تیار کرکے جنازہ گاہ میں رکھ دینا۔ ایک گھڑ سوار آئے گا اور وہ میری نماز جنازہ پڑھائے گا۔ ان کی میت نہلا کر کفن پہنا کر رکھ دی گئی ا ور حاضرین انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں انہیں دور سے ایک گھڑ سوار نظر آیا نزدیک آیا تو ان کے چہرے کو کپڑے نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ وہ گھوڑے سے اترے ،نماز جنازہ پڑھائی اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔ جب وہ گھوڑے پر سوار ہورہے تھے تو چہرے سے کپڑا ایک طرف سرکا اور قریب کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ یہ ”خود حضرت صابر تھے“جن کا انتقال ہوا تھا۔وہ ان کی فنا تھی اور یہ ان کی بقاء تھی۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں اور اسی طرح کھاتے پیتے ہیں۔
 


No comments:

Post a Comment