Tuesday 29 May 2012

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو May 29, 2012

چند برس قبل مجھے جاپان کی حکومت نے سرکاری دورے پر بلایا۔ میں ان دنوں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا منتخب رکن تھا اور یہ دعوت نامہ اسی حیثیت میں دیا گیا تھا۔ ذہن میں رہے کہ جاپان بنیادی طورپر مشرق کاحصہ ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی یلغار کے باوجود یہاں اب بھی آپ کو کہیں کہیں مشرقی روایات کاحسن نظرآئے گا۔ اس کے برعکس گزشتہ پچاس ساٹھ برس میں مغرب کی یلغار نے پاکستان سے یا تو وہ مشرقی اقدارمٹا دی ہیں یا اس کا دائرہ کار بہت محدود ہو کر رہ گیاہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انگریز کی صدسالہ غلامی مسلمان معاشرے سے وہ اقدار نہ مٹا سکی جنہیں امریکہ کی پچاس سالہ یلغار نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ غور کیجئے تو آج نوجوانوں سے لے کر بڑے نوجوانوں تک متوسط طبقے سے لے کر قدرے امیر طبقے تک اور سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہماری فضا، سو چ اور انداز ِ زندگی پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات واضح طور پر نظرآتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب، معاشرتی اقدار اور قومی فکر کے حوالے سے برطانوی غلامی نے ہم پر اتنے اثرات مرتب نہیں کئے جتنے امریکی دوستی نے گزشتہ پچاس برسوں میں کئے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ میں جب جاپان گیا تو میرا ایجنڈا ان کے صنعتی مراکز اور تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے علاوہ ان کی معاشرتی زندگی پر نظر ڈالنا بھی تھا۔ میری خواہش پر مجھے ایک ممتاز جاپانی سائنسدان کے گھر لے جایاگیا جو پاکستان کے لئے نرم گوش. رکھتا تھاکیونکہ وہ کبھی اچھے دور میں چند برس ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں رہا تھا۔ عام طور پر رسم یہی ہے کہ جاپانی گھر سے باہر ایک مخصوص جگہ پر جوتے اتار کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ میں اس سائنس دان کے گھر پہنچا تومیاں بیوی نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ جوتے اتار کر اندر داخل ہوا تو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا گیا۔ بنیادی طور پر چند کمروں پرمشتمل یہ چھوٹا ساگھر تھاجبکہ ہمارے سائنس دان ماشا اللہ بڑے گھرو ں میں رہتے اور رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کے خوگر ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ٹوکیو میں زمین مہنگی ہے لیکن میں نے جاپان کے ہر شہر میں بودوباش کا یہی انداز دیکھا۔ مسئلہ انداز ِ فکر اور انداز ِ زیست کاہے ورنہ جہاں زمین مہنگی ہوتی ہے وہاں آمدنی بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان تاریخی طور پر فیوڈل فکر کے اسیر رہے ہیں، بڑے گھر، رئیسانہ ٹاٹھ باٹھ، نوکرچاکر اور اثر و رسوخ کی آوازان کے خواب رہے ہیں۔ یہ دراصل فیوڈل ازم کے مرض کی نشانیاں ہیں ورنہ میں نے کتنے ہی مسلمان معاشروں کو دیکھا ہے وہاں عام طور پر اس مرض کو اس قدر عام نہیں پایا جتنا پاکستان میں ہے۔ جاپانی سائنس دان اگرچہ رئیس انسان تھا لیکن اس کی ہر ادا اورگھر کی ہر شے سے سادگی ببانگ دہل ٹپکتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم چائے کے لئے اس کے ڈائننگ روم میں گئے تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چھوٹے سے کمرے میں نہ میز نہ کرسی اور نہ ہی نمودو نمائش کا سامان، جاپانی سائنسدان کی بیگم نے میرے لئے پاکستانی چائے بنائی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کیک اور کچھ بسکٹ رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا گھڑا تھا جس میں ایک چھوٹا سا گھومنے والا میز نصب تھا۔ کھانا کھانے کے لئے اس تندرو نماگھڑے میں ٹانگیں لٹکا کر فرش پربیٹھاجاتا تھا اور سامنے میز پر رکھی خورونوش کی اشیا سے انصاف کیا جاتا تھا۔ اگر آپ کو چائے کی دوسری پیالی پینی ہے تو مانگنے کی ضرورت نہیں، ذراسامیز کو گھماکر چائے دانی اپنے سامنے کرلیں اور چائے ڈال کر میز کو پھر گھما دیں۔ جب ہم ٹانگیں لٹکا کر میز کے ادگرد بیٹھے تو سائنسدان نے مجھے بتایا کہ سارے جاپان میں کم و بیش ڈائننگ روم اسی طرح کاہوتاہے۔ ہم مغربی میز کرسیاں عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس انداز کی خوبی یہ ہے کہ ساری فیملی ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھتی ہے، باپ بیٹے ماں بیٹیوں اور بچوں کی ٹانگیں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔ یوں خاندان میں قربت اور محبت بڑھتی ہے۔ اس کے بعد مجھے جاپان کے کئی اعلیٰ افسران کی دعوتوں پر جانے کا اتفاق ہواوہاں بھی اسی طرح زمین پربیٹھ کر اورٹانگیں اندر لٹکا کر کھاناکھانے اور قربت کا لمس محسوس کرنے کا موقع ملا تو مجھے یادآیا کہ آج سے چالیس پچاس سال قبل پاکستان کے متوسط اور قدرے امیر طبقوں میں یہی رواج تھا کہ سرشام خاندان ماں کے چولہے کے پاس یا اردگرد چھوٹی چھوٹی ”تپیاں“ رکھ کر ”پیڑوں“ پر بیٹھ جاتے تھے۔ ماں ہر ایک کو ہانڈی سے سالن ڈال کر دیتی اور پھر ”توے“ سے گرما گرم روٹیاں آنا شروع ہوجاتیں۔ اگرروٹیاں تندور سے پک کر آتیں تو کپڑوں میں لپیٹ کر گرم رکھی جاتیں اور ماں سالن کے ساتھ ایک ایک روٹی بھی دے دیتی جسے کھجور کی بنی ”چنگیر“ میں رکھ لیا جاتا۔ جس کا سالن ختم ہوتا یا روٹی کی ضرورت پڑتی اسے مزید مل جاتی۔ ساتھ ساتھ بات چیت اور تربیت کا عمل بھی جاری رہتا۔ یوں سارا خاندان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھانا کھاتا اور محبت سے سرشار ہو کر اٹھتا۔ ریفریجریٹر نہیں ہوتے تھے۔ سب کو تازہ پکا کھانا ملتا تھا اور شام کو بچے رہنے والا کھانا کسی ضرورت مند کے گھر بھجوا دیا جاتا تھا۔ بقول میرے مرحوم دوست مولوی سعید کہ ریفریجریٹر نے ہمیں ”کمینہ“ بنا دیااور انگریز فیشن کے میز کرسیوں نے خاندان کو باہمی محبت اور قربت سے محروم کر دیا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ماں یا بیوی یا بہو کا پکایا ہوا کھانا ایک نعمت ہوتی تھی اور گھریلو نظام میں ماں بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی جو اپنے ہاتھوں سے کھانا دیتے ہوئے محبت بھی تقسیم کرتی تھی اب اس کی جگہ باورچی نے لے لی یا کسی اور کے ہاتھ لگ گئی اس طرح مرکزی حیثیت والے ادارے تھوڑے کمزور ہوگئے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ جو ہمارا روایتی انداز ِ زندگی تھا اس میں غریب امیر سبھی شامل تھے۔ میں رؤسا، جاگیرداروں اور نوابوں کی بات ہرگز نہیں کر رہا، وہ ہمیشہ سے ایک الگ کلاس رہے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق مغرب کی تقلید اور سائنس کی کرامات نے ان غریب، متوسط اور خوشحال گھرانوں کے درمیان فرق بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جبکہ چالیس پچاس برس قبل یہ فرق اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اس قدر واضح اور نمایاں نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہے۔ امن اور چین کا دور دورہ تھا، بڑے کا ادب اور چھوٹے سے شفقت ہماری تربیت کا حصہ تھا اور باہمی محبت ، سادگی اور سکون ہمارے معاشرے کی نمایاں اقدار تھیں۔اس زمانے میں بھی بے پناہ غربت تھی لیکن خودکشیا ں تقریباً ناپید تھیں اوررویوں پر قناعت کا رنگ غالب تھا۔ آج کی غربت اور اس غربت میں خاصا فرق ہے۔ میں ہائی سکول کا طالب علم تھا تو اپنے ایک کلاس فیلو کے گھر گیا جس کاتعلق مقابلتاً غریب گھرانے سے تھا۔ ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو مٹی اور گارے سے تعمیر کئے گئے تھے۔ جون کی گرمی اور پنکھا نہ ہونے کے باوجود دیواریں اور فرش ٹھنڈا تھا، تھوڑی سی ہوا کھڑکی سے آتی تھی باقی کا انتظام ہاتھ میں پکڑی ”پنکھیوں“ سے کیاجاتا تھا۔ میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو گھرانہ فرش پر گول دائرے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ دیسی گندم کی تنور کی تازہ روٹیاں، آم کا اچار، پودینے کی چٹنی، خربوزے کی کاشیں اور چاٹی کی لسی درمیا ن میں رکھی تھی۔ چٹنی اچار کے ساتھ ساتھ خربوزے کا ملاپ اور لسی کاگھونٹ یہ وٹامن کے حوالے سے مکمل غذا تھی جو موجودہ دور کے غربا کو نصیب نہیں۔ میں بھی اس دعوت شیراز میں شامل ہوا اور مجھے یہ کھانا اتنا مزیدار، لذیذاور محبت بھرا لگا کہ پھر فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹلوں کی دعوتیں اور شاہی محلات کی مہمان نوازی بھی اس کی یاد نہ بھلا سکیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ بلاشبہ ہمیں بہت سی سائنسی نعمتیں میسر آئی ہیں لیکن ہم نے بہت سی نعمتوں کو گنوا بھی دیا ہے۔ مادی نعمتوں نے ہمیں بہت سی روحانی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔

No comments:

Post a Comment