Sunday 20 May 2012

زندہ کتاب کا ایک ورق April 22, 2012


عادت کے ہاتھوں انسان مجبور ہوتاہے۔ میری عادت ہے کہ کبھی کبھی حضرت شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب ”کشف المحجوب“ کھولتا ہوں اور اس صفحے پر جو بھی کھلا ہو اس پر غور کرتاہوں۔ اس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ اول تو کشف المحجوب ان کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہیں گی اور جو صدیوں کا طویل سفر کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔ زندہ کتاب وہ ہوتی ہے جو صدیوں تک لوگوں کی توجہ، مطالعے اور رہنمائی کا باعث بنی رہے اورصدیوں تک لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں اس طرح زندہ رہے کہ ان کی زندگیوں کو متاثر کرتی رہے۔ تصوف کی دنیا میں کشف المحجوب کا یہی مقام ہے۔ 400ء ہجری میں غزنی شہر سے متصل ہجویر میں پیدا ہونے والے شیخ ابوالحسن علی ہجویری محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے اور پھر لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے کہ اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے ان کے مقدر میں اس علاقے کے لاتعدادغیرمسلموں کا ان کے مبارک ہاتھوں پرمسلمان ہونا لکھا تھا۔ صدیاں گزر گئیں لیکن سید علی ہجویری کا مزار دن رات اسی طرح آباد رہتا ہے جس طرح ان کی زندگی میں ان کی مجلس آباد رہتی تھی۔ہندوستان میں کفر کی تاریکی کو گھٹانے اور اسلام کا چراغ روشن کرنے میں آپ کا کردار نہایت اہم ہے اور ان کی اسی روحانیت کا یہ چھوٹا سا ”انعام الٰہی“ ہے کہ سید علی ہجویری کے بعد آنے والے سینکڑوں بادشاہوں ، حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام تو لوگ بھول گئے لیکن داتا گنج بخش کو نہیں بھولے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی  عرف خواجہ غریب نواز آف اجمیر شریف نے ہی حضرت سید علی ہجویری کو داتا گنج بخش کا خطاب دیا تھا اور یہ خطاب آپ نے سید علی ہجویری کے قدموں میں چالیس دن تک چلہ کشی کے بعد دیا تھا۔ ذرا سوچئے کہ کیاحضرت معین الدین چشتی  جیسے عالی مرتبت ولی اللہ اورشہنشائے روحاینت کسی کوایسا خطاب بلاوجہ دے کر ”جھوٹ“ کے مرتکب ہوسکتے تھے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بزرگ منشائے الٰہی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ اگر ان بزرگوں کی معصوم ذاتی زندگیاں تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھل کر مکمل طور پر منشائے الٰہی کے تابع نہ ہوتیں تو وہ کبھی یہ مقام اور انعام نہ پاسکتے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ ”پھر میں (اللہ) ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان بن جاتا ہوں۔“
کشف المحجوب کوکبھی کبھار اور بار بارپڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خود حضرت سید علی ہجویری کا فرمان ہے کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اگر وہ اس کتاب کو ”دل کی آنکھ“ سے پڑھے تو یہ کمی پوری ہو جائے گی گویااس پر عمل کرکے کشف المحجوب سے مرشد کا کام لیا جاسکتاہے بشرطیکہ آپ کو اس کی طلب ہو، آرزو ہو اور اس آرزو میں استقامت ہو۔ میں توبہرحال گناہگار، دنیادار، کمزور انسان ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ حضرت سید علی ہجویری کے یہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں اور جوحضرات خلوص نیت، یکسوئی اور حسن طلب کے جذبے سے اس کتاب کو پڑھیں او ر اس پر عمل کریں وہ اپنی روحانی منزل پاسکتے ہیں۔ حضرت سید علی ہجویری نے اس کتاب میں بہت سے اولیا اکرام اور عظیم روحانی ہستیوں کا ذکر کیاہے اور ان کی کرامات کا احوال بھی لکھا ہے جنہیں پڑھ کر مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور روح کو تقویت ملتی ہے جبکہ کچھ حضرات ان کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان عظیم ہستیوں کی کرامات افسانے ہیں اور تصوف کمزور ایمان کی علامت ہے حالانکہ تصوف اسلام کا ناگزیر پہلو اور حضور نبی کریم کی سیرت حسنہ کا اہم حصہ ہے۔ یقین رکھئے کہ اگر حضرت سید علی ہجویری، حضرت معین الدین چشتی ، بابا فرید گنج شکر، حضرت نظام الدین اولیا جیسی ہستیاں ہندوستان میں نہ ہوتیں تو یہاں کبھی بھی کفر کی تاریکی نہ ہٹتی اور اگر ان ہستیوں کو اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے چھوٹی چھوٹی کرامات کا انعام نہ دیا ہوتا تو وہ کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں غیرمسلموں کو اسلام کے حلقے میں شامل نہ کرسکتیں۔ یہ بھی ایک کرامت سے کم نہیں کہ صدیوں کے فاصلے ان کی عقیدت و محبت میں کمی نہیں کرسکے بلکہ سیکولر تعلیم میں اضافے کے باوجود اور ہندوستان میں سرکاری سطح پر سیکولرازم کے پرچار کے باوجود ان ہستیوں کے عقیدت مندوں میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ ان کے عقیدت مندوں میں غیرمسلمان بھی شامل ہیں اوربڑی تعداد میں شامل ہیں۔ کیا یہ بذات خود ایک کرامت نہیں؟ رہے ان کرامات کا طریقے طریقے سے تمسخر اڑانے والے تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جومعجزات ِ نبوی میں یقین نہیں رکھتے اور ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں ۔
جنہیں خود مشاہدات سے نوازا گیا ہے۔ میں گوشہ نشین فقیروں کی بات نہیں کرتا۔ آپ نے تحریک پاکستان اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے حوالے سے مولانا عبدالستار نیازی کا نام سنا ہوگا۔ مولانا نیازی ایک عاشق رسول اور فقیر منش انسان تھے۔ ان کا انتقال ہوئے عرصہ گزرا۔میں نے 1987 میں تحریک ِ پاکستان کے کارکنوں کے لئے طلائی تمغوں ، مالی امداد ، عزت افزائی وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا نیازی صاحب مجھ پر مہربان ہوئے۔ غالباً 1988 کا واقعہ ہے کہ ایک روز ان کا فون آیا۔ نہ جانے کس طرح بات اس طرف کیسے چلی گئی اور مولانا نیازی صاحب نے مجھے بتایاکہ میں جب عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ گیا تو نوافل پڑھنے مسجد قبا بھی گیا۔آپ کو علم ہے کہ مسجد قبا مدینہ منورہ کے راستے میں واقع ہے۔ ہجرت کے بعد اس کی بنیاد خود حضور نبی کریم نے رکھی تھی اور تعمیر میں حصہ لی تھا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق مسجد قبا میں نوافل ا دا کرنے کا ثواب عمرے کے برابر ہے۔ مولاناعبدالستار نیازی نے بتایا کہ میں جب مسجد قبا کے باہر گاڑی سے اترا تو فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ نہ جانے حضور نبی کریم اس کٹھن دور میں یہاں کیسے اور کس طرف سے آئے ہونگے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ میں سوچ میں گم تھاکہ میں نے جاگتی آنکھوں سے مکہ مکرمہ کی جانب سے ایک اونٹ آتے دیکھا، وہ اونٹ میرے دیکھتے دیکھتے زمین پربیٹھااور میں نے بیدار آنکھوں سے حضور نبی کریم کو اونٹ سے اترتے دیکھا۔ یہ مشاہدہ چند سیکنڈوں پر تھا لیکن صدیوں کی روشنی دے گیا۔ لگتا ہے کہ یہ روحانی تجربہ سچے عاشق رسول کے عشق کا چھوٹاسااعجاز اور معمولی سا انعام تھا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں ہرگز اس قابل نہیں۔کبھی کبھی بات دور نکل جاتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی کہ میں کبھی کبھار عاد تاً کشف المحجوب کھول لیتا ہوں او رجس صفحے پر نظر پڑے اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں۔ آ ج کشف المحجوب کھولی تو اس عبارت پر نظر پڑی اور میرا جی چاہا کہ اسے آپ کی خدمت میں پیش کروں …
”ایک شیخ کابیان ہے کہ میں نے جس گناہ سے توبہ کی بار بار مجھ سے ارتکاب ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ 70 مرتبہ میری توبہ ٹوٹی اور اکہترویں مرتبہ استقامت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے نبی! میری یہ بات بندوں تک پہنچا دو کہ میرے وہ بندے جنہوں نے گناہ اور سرکشی کی کوئی حد نہ چھوڑی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ جب بندہ اخلاص کے ساتھ توبہ کرکے رجوع کرے تو وہ گناہ معاف کردیتاہے۔ (53:39) حضرت ابوعمر جنید فرماتے ہیں میں نے ابتدا میں حضرت ابوعثمان حیری کی مجلس میں توبہ کی۔ تھوڑے دن گزرے توبہ توڑ دی۔ پھر اپنے پیر کی محبت سے روگردانی کرنے لگا۔ ایک دن اچانک ملاقات ہوئی تو فرمایا بیٹا اپنے دشمنوں سے محبت نہ رکھ۔ جب تو عیب کرتا ہے وہ خوش ہوتے ہیں۔ تو میرے پاس آ کہ میں تیری بلائیں اٹھاؤں اور تو دشمن کے مقصد کو پورا کرنے سے بچ جائے۔ جنید فرماتے ہیں اس کے بعد میری توبہ پختہ ہوگئی“ زیادہ نہیں صرف تین باتوں پرغور کریں۔ (۱) اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو (۲) گناہ کی ترغیب دینے والے دشمن ہوتے ہیں (۳) صرف توبہ نہیں بلکہ سچی توبہ انسان کو پھر سے معصوم بنا دیتی ہے۔


No comments:

Post a Comment