Sunday 20 May 2012

شاطرانہ چالیں February 08, 2012


آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ ہمارے شاطر سیاستدانوں نے اپنے عزائم کی تکمیل اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے چھوٹی چھوٹی پناہ گاہیں (Refuge) بنا رکھی ہیں۔ میں جب ان کو ان پناہ گاہوں میں پناہ لیتے دیکھتا ہوں تو بہت محظوظ ہوتا ہوں۔ اپنے کارناموں کو چھپانے کے لئے سیاستدانوں نے عوامی احتساب کی پناہ گاہ تعمیرکرلی ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے اور یہ بیچارے نیم خواندہ، نیم شعور کے مالک اور جذباتی نعروں کی رو میں بہہ جانے والے عوام ان کا کیااحتساب کریں گے۔ اگر عوام صحیح معنوں میں سیاستدانوں کا احتساب کرسکتے تو ہمارے ملک میں لوٹ مار، جمہوریت کے نام پر آمریت، اقربا پروری، دولت کی سیاست، خون کی سیاست اور لاقانونیت کا جو بازار سجا ہے یہ کب کا اجڑ گیا ہوتا اور اس کی راکھ پر سچی جمہوریت کا محل تعمیر ہوچکا ہوتا۔ بلاشبہ اس صورتحال کے پروان چڑھنے میں فوجی جرنیلوں کاحصہ بدرجہ اتم ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس غدر کے ذمہ دار سیاستدان بھی ہیں بلکہ اگر ٹھنڈے دل سے تجویز کیا جائے تو اس صورتحال کی زیادہ ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی اکثریت بے بصیرت، نالائق، کرپٹ، خودغرض، مغرور اور خزانہ چورہے۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ شاطر سیاستدانوں نے اپنے کارناموں پرپردہ ڈالنے کے لئے سیاسی بنکرز تعمیر کررکھے ہیں جن میں ایک مضبوط بنکر یامورچہ عوامی احتساب بھی ہے۔ اگر آپ سیاستدانوں کی تقریریں سنیں یا ٹی وی چینلوں پر ان کے معرکہ آرا مذاکرے سنیں تو ہر بات اور ہر الزام کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا ہے یا ایسا کریں گے تو عوام ہمارا احتساب کریں گے مثلاً اگر آپ کسی سیاستدان پر رشوت، کمیشن یا قومی وسائل کی چوری کاالزام لگائیں تو جواب ملے گا کہ عوام ہمارا احتساب کریں گے۔اس ثمثیل کی تفصیل میں کیا جاؤں کہ ہر وقت ہمارے اردگرد یہی ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور ہر ”کرتوت“ کو عوامی احتساب کے نیچے چھپایا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک منتخب رکن اسمبلی پر عورت سے زیادتی کا الزام لگا۔ میں ان کا جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ جواب تھا کہ یہ مخالفین کی کارروائی ہے۔ عوام میرا احتساب کریں گے۔ میں عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ حکمران اور سیاستدان اپنے ہر لاقانونی کارنامے کو مخالفین اور عوامی احتساب کے کھاتے میں ڈال کر سرخرو ہو جاتے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ہر جرم کے بعد مخالفین کی سازش یا عوام کے احتساب کی پناہ گاہ میں پناہ لے لیتے یں۔ اس رویئے یا تھیوری کا نقطہ عرو ج صدر زرداری کا وہ بیان تھا جو انہوں نے میموسکینڈل کے حوالے سے دیا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کی تحقیق و سفارشات کو مانیں گے نہ کہ کسی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو… عوامی احتساب کی پناہ گاہ میں کھڑے ہو کر وہ اس کمیشن کی حیثیت کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری تھے جس میں تین صوبائی چیف جسٹس شامل ہیں اور جسے سپریم کورٹ نے تشکیل دیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ان کے مخالفین کا کیا دھرا تھا اور عوام ان کا احتساب کریں گے۔ ہے نا لاجواب منطق ؟ کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلواربھی نہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں بڑی محنت اور جوش و خروش سے ایک لفظ کوپاپولر اور مقبول عام کیا گیا ہے اور اس کے اردگرداس قدر شور مچایا گیا ہے کہ لوگ اس کاصحیح مفہوم ہی بھول گئے ہیں ۔ وہ لفظ ہے ”لوٹا“… میری معلومات کے مطابق ہمارے ہاں یہ لفظ اس وقت ایجاد ہوا جب قیام پاکستان سے قبل مزنگ لاہور کے ڈاکٹر عالم نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔زندہ دلان لاہور نے ان کے گھر کے سامنے لوٹوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر عالم مسلم لیگ میں واپس آگئے۔ گویا لوٹا اسے کہتے ہیں جو کسی پارٹی کی سیٹ چرا لے جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ پارٹی کی سیٹ سے مستعفی ہوکر اسے واپس لوٹا دے تو پھر اسے کیونکر لوٹا کہیں گے؟اسمبلی کی سیٹ چھوڑنا آسان کام نہیں، یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور خاص طور پر حکمران یا اقتدار میں شامل پارٹی کو چھوڑنا نہایت مشکل ہوتاہے۔ سیاست کی شاطر چالوں نے پارٹی تبدیل کرنے کو ”لوٹاازم“ کا نام دے دیا ہے حالانکہ یہ ہر انسان کا جمہوری و سیاسی حق ہے۔ دراصل یہ اختلاف کی آواز کو دبانے اور پارٹی آمریت مسلط کرنے کی ایک چال ہے۔ مجھے بتایئے کہ اگر ایک کارکن یا سیاستدان چوروں کے ٹولے میں پھنس جائے، اس کے سامنے خزانہ لوٹا جارہا ہو، خوشامدیوں اور ذاتی وفاداروں کو ایمانداروں اور مخلص اراکین پر ترجیح دی جارہی ہو، جمہوری اصولوں کو روند کر موروثی اقتدار کو مسلط کیا جارہا ہو، پارٹی کو کسی ایک لیڈر کی جاگیر بنایا جارہا ہو یا عہدوں کے فیصلے دولت کی بنا پر کئے جارہے ہوں اور کوئی پارٹی کارکن یارکن اسمبلی ایسی پارٹی سے الگ ہوجائے تو کیا آپ اسے لوٹا کہہ کر اس کی توہین کرنے میں حق بجانب ہوں گے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا لوٹ مار، کرپشن، غیراصولی اور غیرجمہوری سیاست کا حصہ بننا قومی جرم ہے یا اسے ترک کرکے علیحدہ ہوجانا قومی جرم ہے؟اگر آپ ایمانداری اور خلوص نیت سے سمجھتے ہیں کہ آپ کی پارٹی لیڈرشپ ملک میں بہتری اور تبدیلی لانے کی اہل نہیں یا پارٹی لیڈرشپ آمرانہ ذہن رکھتی ہے اور اختلاف ِ رائے کو ذاتی دشمنی سمجھتی ہے اور آپ اس جبر کی فضا سے تنگ آ کر پارٹی چھوڑ جاتے ہیں یا ایسی پارٹی جوائن کرلیتے ہیں جس کے متعلق آ پ کو حسن ظن ہے کہ وہ ملک میں بہتر تبدیلی لاسکتی ہے تو کیا اسے لوٹاازم کہاجائے گا؟ اگر یہ لوٹا ازم ہے تو پھر اصولوں کی خاطر یا ملک کے بہتر مستقبل کی امید کے لئے ہر ایثار لوٹاازم ہی کہلائے گا۔ گویا لوٹ مار کا ساتھ دینا، نااہلی اور نالائقی کاحصہ بننا، دربارداری اورخوشامدی کا اکبری رتن بننا جمہوریت کی خدمت ہے اور ان سے بغاوت غداری اور لوٹا ازم ہے۔ یہ رشوت، بھاری رقم یا وزارت او ر عہدے کی خاطر پارٹی بدلنا بے شک لوٹا ازم ہے اور حرص و ہوس کے کھیل کا حصہ ہے لیکن اصول یا ملکی خدمت کے جذبے کے تحت پارٹی بدلنا ضمیر کا فیصلہ ہوتا ہے جوصرف زندہ ضمیر ہی کرسکتے ہیں۔ کمزور اور مفادپرست لوگ اس طرح کی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ لیڈروں اور ان کے حواریوں کی چالوں کو سمجھئے۔ لوٹا صرف وہ گھٹیا کردار ہوتا ہے جو محض مفادات کی خاطر پارٹی بدلتا ہے۔ اصولوں کی خاطر پارٹی بدلنے والا، چوروں ٹھگوں ، آمروں اور نالائقوں کو چھوڑنے والا مجاہد ہوتا ہے اور مجاہد ہی اصل میں جمہوریت کی طاقت اورروح ہوتے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہماری سیاست موروثیت کاگندہ جوہڑ بن چکی ہے، ہماری جمہوریت صرف دولت کا کھیل ہے جس میں عام کارکن صلاحیتوں کے باوجود ابھر نہیں سکتاروایتی سیاستدان صرف مزید دولت بنانے کے لئے اقتدار چاہتے ہیں، ان میں ملکی حالات بدلنے کی صلاحیت ہے نہ وژن ورنہ قدرت نے انہیں کئی مواقع دیئے اور وہ ناکام رہے۔ یقین رکھئے کہ حالات سے سمجھوتے کرنے والے کبھی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ اگر کبھی اس ملک میں کوئی بہتر تبدیلی آئی تووہ مجاہدین کا کارنامہ ہوگا نہ کہ ”اسٹیٹس کو“ کے ایجنٹوں کی کارروائی…!!
ضروری تصحیح: مورخہ 7 فروری 2012 کے شمارے میں چھپنے والے میرے کالم میں ایک ادارے کی جانب سے انتخابات پراثرانداز ہونے کے لئے چودہ کروڑ روپے کی جس تقسیم کا ذکر ہے یہ واقعہ 1990 کا ہے 1988کا نہیں۔ قارئین تصحیح فرمالیں۔
 

No comments:

Post a Comment