Saturday 19 May 2012

روشنی. November 05, 2011


صبح سویرے ایک صاحب نگاہ کا فون آیا اور فرمایا تم نے جو کچھ لکھا سچ لکھا ہے۔ تبدیلی اس ملک کا مقدر بن چکی ہے ،لوگوں کو امید کا پیغام دیتے رہو ۔ مایوسی شیطان پھیلاتا ہے جبکہ رحمان روشنی کے دریچے کھولتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ جس تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں وہ کب تک آئے گی۔ جواب ملا، یاد رکھو میں تبدیلی کا لفظ وسیع تر معنوں میں استعمال کرتا ہوں۔ تبدیلی منشائے الٰہی ہے اور ایک بھید ہے۔ میں کیا جانوں میرا رب کیسے لائے گا۔ میں نے ان کی گفتگو سنی اور سوچ کے دریا میں ڈبکیاں کھانے لگا۔ میری سوچ کے افق پر وسوسے بھی ابھرتے تھے اور سوالات کے بادل بھی چھا جاتے تھے تاہم میرے دل کو یقین تھا کہ صاحب نگاہ نے جو کچھ کہا وہ انشاء اللہ سچ ثابت ہوگا۔ بھلا میں صاحب نگاہ کسے کہتا ہوں؟ دوستو !صاحب نظر تو ہر وہ شخص ہوتا ہے جیسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دو آنکھیں اور بینائی دی ہوتی ہے لیکن یہ آنکھیں صرف ظاہر بیں ہوتی ہیں جبکہ صاحب نگاہ وہ ہوتا ہے جس کی باطن کی آنکھیں بھی کھلی ہوں۔ وہ جب ظاہر بیں نظروں سے دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں باطن کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں چنانچہ اس کے سامنے پوشیدہ حقائق عیاں ہوجاتے ہیں۔ قدرت کے راز کھلنے لگتے ہیں اور نظر کے راستے سے دیواریں ہٹنے لگتی ہیں۔ اسی نگاہ کا ذکر آپ کو قرآن حکیم میں ملے گا اور اسی نگاہ کا چرچا علامہ اقبال کے کلام کا مرکزی نقطہ بھی ہے۔ اسی نگاہ سے تقدیریں بدلتی اور زنجیریں کٹتی ہیں۔ تقدیریں بدلنے سے مراد انسان کی قلبی و ذہنی کیفیت بدلنا ہے چونکہ جب قلب سے اندھیرے چھٹ جائیں تو انسان بدل جاتا ہے۔ انسان کے گوشت پوسٹ کو نکال دو تو اصلی انسان محض قلب اور ذہن کا مرکب ہے۔ رہی روح تو وہ بھی قلب کی کائنات کا ہی حصہ ہوتی ہے چنانچہ قلب و ذہین ہی انسان کے گوشت پوسٹ اور حرکت و عمل پر حکمرانی کرتے ہیں۔ میں نے میخانوں کی جانب اٹھنے والے قدموں کو قلبی ماہیت بدلنے کے بعد منبر و محراب سے محبت کرتے دیکھا لیکن جن کے دل دنیاوی آلائشوں اور دولت و اقتدار کی ہوس سے اندھے ہوچکے ہوں وہ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ نماز بھی ادا کریں تو سودوزیاں میں الجھے رہتے ہیں اور سوائے نماز کے اللہ کے ہر حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ میں اکثر باقاعدگی سے نماز پڑھنے والوں سے مل کر یا ان کے سنگ ریزوں کا نشانہ بن کر یہ سوچنے لگتا ہوں نماز نے تمہارے دل میں نرمی کیوں پیدا نہیں کی؟ نمازی ہونے کے باوجود تم اس قدر ”انا پرستی، سستی شہرت، جھوٹے وقار اور دولت کی ہوس “ کا شکار ہو کہ اس شہر میں تمہاری لمبی زبان اور سنگدل قلم کے کشتگان اور مجروح افراد میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ کیا تم دولت و اقتدار کی ہوس کے ساتھ اور مخلوق خدا کے دلوں کو روند کر اللہ کو راضی کرسکتے ہو؟ کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ تمہاری بظاہر پارسائی کے پیچھے چھپی ہوئی سخت دلی کو نہیں پہچانتا؟ اللہ اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ نیتوں کا حال بہترین جانتا ہے۔ اس جہاں میں تم عیش کرلو، ہر حکمران کی قربت حاصل کرکے مفادات کا کاروبار کرلو، دولت کے انبار لگالو، اپنی زبان اور قلم سے لوگوں کو ڈرا لو لیکن یاد رکھو کہ اگلے جہان میں صلہ نیتوں کا ملے گا، ان عبادات کا نہیں جو تمہاری شخصیت پر اثر انداز ہو کر تمہیں بدل نہ سکیں، تمہارے قلب و ذہن کو منور نہ کرسکیں۔ صوفی کا صرف یہی کمال ہوتا ہے اور اسے یہ طاقت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عطا کی ہوتی ہے کہ وہ دل جو ہوس دنیا سے سخت ہوچکے ہوں اور جنہیں نمازوں کے سجدے بھی نرم نہ کرسکیں انہیں صوفی کی ایک نگاہ نرم کردیتی ہے اور جب دل نرم ہوجاتے ہیں تو ذہنوں میں روشنی اور نور کی کرنیں پھوٹنے لگتی ہیں اور انسان مکمل طور پر بدل جاتا ہے۔ میں جاہل ہونے کے باوجود یہ سمجھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ سجدہ اور اپنے رب کے حضور سچا سجدہ انسان کی انا ،غرور اور احساس برتری کو ختم کرتا ہے۔ اور اسے جھوٹ ،خوشامد، کدورت اور شیطانی حربوں سے بچاتا ہے جو سجدہ ا نسان کو ان آلائشوں سے پاک نہیں کرتا انسان کی انا، غرور، احساس برتری اور ہوس کا راستہ نہیں روکتا کیا آپ اسے سچا سجدہ کہیں گے؟ میں بار بار انا کا ذکر کیوں کررہا ہوں؟ دراصل انسانی انا روحانیت کی ان معنوں میں دشمن ہوتی ہے کہ انا انسان میں غرور، رعب و دبدبہ اور شان و شوکت کی خواہش پیدا کرتی ہے چنانچہ اس سے ا یک طرف تو انسان میں سخت دلی پیدا ہوتی ہے تو دوسری شدید نرگسیت غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ نرگسیت کیا ہے؟ نرگسیت انسان کو عقل کل کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے اور پھر انسان نہ اختلاف رائے برداشت کرسکتا ہے نہ دوسرے انسانوں کو انسانی محبت کے لائق سمجھتا ہے۔ جبکہ رضائے الٰہی اور حب الٰہی کا پہلا تقاضا ہی اپنی ذات سے باہر نکل کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف پوری توجہ اور یکسوئی سے دیکھنا ہے جو حضرات زندگی بھر اپنی ذات کے گنبد میں بند رہتے ہیں، انا کے قیدی بنے تفاخر کی زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں وہ کبھی حب الٰہی کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے اور انہیں کبھی بھی وہ روشنی حاصل نہیں ہوتی جو قلب و نگاہ کو منور کرتی اور زندگی کی تاریک راہوں کو روشن کرتی ہے۔ اسی صورت کو صوفی اپنی ذات کی نفی کہتے ہیں کیونکہ اپنی ذات کو خدائی رحمتوں کے سمندر میں جذب کئے بغیر اور اپنے نفس کو مسخر اور فتح کئے بغیر نہ قدرت انسان کی طرف توجہ دیتی ہے اور نہ باطن روشن ہوتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ حاصل کرنے کیلئے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں،”میں“ اور نفس کو روندنا پڑتا ہے ،خلق خدا کا سچا احترام اور بے لوث خدمت کرنی پڑتی ہے، ہر وقت زبان چلانے کی بجائے غور و خوض کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ سچی نماز انسان کو یہی سکھاتی ہے۔ آپ پہلے دروازے سے داخل ہوں گے تو دوسرے دروازے کھلیں گے ورنہ وہ ہمیشہ بند رہیں گے ۔ اقبال نے سچ کہا تھا
زباں سے کہہ بھی دیا لااللہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں


No comments:

Post a Comment