Saturday 19 May 2012

ایک روح پرور خط. January 22, 2012


السلام علیکم !کالم بعنوان ”راز “ میں آپ نے دو مختلف افراد کے دو جملوں میں ربط ڈھونڈنے کی کوشش کا ذکر کیا ہے اس کوشش میں آپ کی مدد کرنے کی غرض سے میں نے یہ تحریر آپ کے لئے حکماء و مشاہیر کے اقوال زریں کی روشنی میں لکھی ہے ۔ کیوں؟اس لئے کہ ہمارا اور آپ کا خاموش تعلق کافی پرانا ہے اور اس کالم میں آپ نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے ۔ تصوف ہماری رگ جاں ہے۔ میں آپ کی کچھ مدد کر پایا، یا نہیں ضرور آگاہ کیجئے گا ۔
عرض ہے کہ تمام مذاہب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ حیات مسلسل ہے ۔ جب ایک مرتبہ خاکی پیراہن اوڑھ کر یہ وجود میں آ جاتی ہے تو پھر برباد نہیں ہوتی بلکہ وجود بدل بدل کر آگے بڑھتی رہتی ہے ۔ کبھی خاکی اوڑھنی، کبھی روشنی کی ردا، کبھی نورانی نقاب پہنے حیات اپنی دائمی منزل کی جانب رواں رہتی ہے ۔ تسلسل حیات کا عقیدہ نسل انسانی کا بہت بڑا سہارا ہے ہم اس زندگی میں کتنی ہی دشواریاں، ناکامیاں و رسوائیاں اس امید پر گوارا کر لیتے ہیں کہ اگلی زندگی میں انکی تلافی ہو جائے گی ۔ اگر آج ہم اس عقیدہ کو کسی طرح ختم کر دیں تو ہر طرف افراتفری پھیل جائے مضطرب الحال خودکشیاں کر لیں، بھوکے دو لتمندوں کے کپڑے نوچ لیں، امن عالم درہم برہم ہو جائے اور تمام اخلاقی و روحانی اقدار کا جنازہ نکل جائے۔
آپ کو معلوم ہے سرور کائنات کی دنیاوی متاع ایک اونٹنی، ایک لکڑی کا پیالہ، کھدر کا ایک جوڑا اور ایک چٹائی تھی۔ سات دن بھوکے رہتے، بعثت سے رحلت تک مصروفیت کا یہ عالم کہ رات کو قیام دن کو سیاسی ، تبلیغی اور انتظامی مصروفیات، سال میں دو دو تین تین جنگوں کی تیاری اور استغناء کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہ  نے فرمایا ”عائشہ میری بالیں کے نیچے دو دینار رکھے ہیں انہیں اللہ کی راہ میں دے ڈالو مباوا کہ رب محمد ۔ محمد سے بدگماں ہو کر ملے “ آپ یقیناً جانتے ہیں کہ ایک بلند مقصد کی خاطر ابراہیم آگ میں کود پڑے اور حسین نے سارا خاندان کربلا میں کٹوا دیا تھا اور آپ نے یہ بھی سنا ہو گا کہ دنیا کا فلسفی اعظم سقراط اونٹ کے بالوں کا کرتا پہنتا ، باسی ٹکڑے کھاتا اور ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے میں رہتا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ ان داناؤں نے یہ رویہ کیوں اختیار فرمایا ؟ کیا انہیں باغوں، پھولوں، خوشبو، حسن، لذت، آسائشوں سے خدا واسطے کا بیر تھا ؟ یا وہ اس زندگی کی دلفریبیوں میں الجھ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں ہونا چاہتے تھے ؟
اس دنیا میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ سے دور ، نشہ دولت میں چور ، اقدار عالیہ سے غافل، جزا و سزا کے منکر، بدمست، مغرور اور متکبر ہیں اگر موت کو انجام حیات سمجھا جائے تو قدرتاً سوال پیدا ہو گا کہ ان بدمستوں میں کیا خوبی تھی کہ اللہ نے انہیں اتنا نوازا اور مسیح و ،خلیل نے کیا قصور کیا تھا کہ انہیں دل فگار امتحانات کا ہدف بنایا ؟ اس سوال کا جواب نہایت سادہ ہے کہ دنیائیں دو ہیں۔ ایک یہ دنیا جس کی بقاء” یک شرربیش نہیں “ اور دوسری وہ دنیا جس کا کوئی کنارہ نہیں “ دانیان راز فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ پائیدار و ہمیشگی کی دنیا کے تقاضوں کو مقدم رکھا ۔ دونوں دنیائیں ریل کی پٹڑی کی طرح ساتھ ساتھ چل رہی ہیں فرق یہ ہے کہ ایک دنیا آنکھ کے سامنے موجود زندہ جاوید حقیقت ہے اور دوسری دنیا کا کوئی ظاہری نشان نہیں ۔ حقیقی دنیا ہماری اس فانی دنیا کی چکاچوند اور پرشور ماحول میں چھپی ہوئی ہے ۔ فاسق ، فاجر، منافق، صغائر و کبائر کے دلدادہ، مشرک، بدمذہب اور لادین سب کے سب دونوں جہانوں کا ایندھن ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس دنیا کے لذائذ سے متمتع ہوتے ہوئے ترقی کر رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے وہ جامد و ساکت مٹی کی مورتیاں ہیں ، سانس چلتی لاشوں سے زیادہ انکی کچھ وقعت نہیں یوں جانیے گویا بگلا ایک ٹانگ پہ کھڑا ہے۔ انہیں حقیقی دنیا کا ادراک ہی نہیں اس دنیا کے تقاضے، بے کنار وسعتیں، انعامات اور اس دنیا میں داخلے کے ذرائع سب کی سب باتیں ڈارون کے جانوروں کے لئے افسانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔جبکہ حقیقی نائب اللہ، اشرف المخلوقات کے منصب جلیلہ پر فائز اصل حضرت انسان دونوں دنیاؤں کی حقیقت، انکے تقاضوں، اعمال، انعامات و مقامات ہر شے سے آگاہ ہوتا ہے ۔ وہ حقیقی معنوں میں وہ بحر بے کنار ہے جس کی سطح پر ظاہری دنیا اپنی تمام تر خوبیوں اور حسن فطرت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے اس کی تہہ میں لا متناہی دنیا کے بیش بہا خزانوں کے انبار کے انبار ہوتے ہیں ۔ اصل حضرت انسان اس بات سے آگاہ ہے کہ خدا کو خارج میں تلاش کرنا ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں، اس لئے وہ من کی دنیا میں ڈوب کر راز ابدی کو حاصل کرتا ہے ۔ اس کا رابطہ بیک وقت دونوں دنیاؤں سے رہتا ہے ۔ پابند ظاہری حواس خمسہ کے ساتھ وہ شعوری سطح پر اس فانی دنیا اور آزاد لامحدود صلاحیت کے حامل باطنی حواس کے ساتھ جاگتے ہوئے لاشعور میں سفر کرتے ہوئے باطنی دنیا کے ساتھ وابسطہ ہو کر وہ بقدر ہمت عشق حقیقی کی فصل سے خوشہ چینی کرتا اور ابدی مسرت کی منزلوں پر فائز ہو کر امر ہو جاتا ہے۔ من کی دنیا میں ڈوبنا کیا ہے ؟اپنی سوچ کو ایک نقطے ”اللہ “ و حدہ لاشریک پر مرکوز کرنا اور اس حد تک ارتکاز توجہ حاصل کرنا کہ فرد کو اس وقت دنیا و مافیھا کی خبر نہ رہے ۔ پردے ہٹ جائیں اور پرواز شروع ہو جائے پھر وہ برہنہ رہے خواہ موٹے کپڑوں میں ملبوس ہو اسے سردی نمونیہ کرتی ہے نہ ”لک “ پگھلاتی گرمی اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے عام لوگ اس حالت کو کل وقتی جذب کا نام دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ متعلقہ شخص سردی گرمی کے اثرات محسوس کرنے، بھوک پیاس کا احساس رکھنے اور دکھ درد، صحت و بیماری کو سمجھنے سے عاری ہے اس لئے ہمیں ان کا ”گانا عجیب یا شاید معیوب“ لگتا ہے ۔ اور ہم جب انہیں بولتا، کھاتا یا گاتا دیکھتے ہیں تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ ”جو شخص بظاہر مست لگتا ہے اندر سے کس قدر باہوش اور بیدار ہے “جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی ہماری طرح جیتے جاگتے، بھوک، پیاس، سردی، گرمی، خوشی، غم درد اور راحت جیسے احساسات سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن ہم میں اور ان میں ایک بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ ہم اپنی خواہش کے غلام ہیں اور وہ رب کے دوست، اپنی کوئی مرضی نہیں رکھتے، تمام ضروریات، ہر قسم کے حالات، محسوسات اور تمام حقائق زندگی میں رب کی خوشی اور چاہت کی پابندی کرتے ہیں ۔ اس لئے جب ہم ان سے پوچھیں کہ ” آپ کیلئے کچھ لاؤں “ تو ان کا جواب ہوتا ہے ”میری حاجتوں کا رکھوالا میرا رب ہے مجھے کسی شے کی ضرورت نہیں “۔
”جس طرح موتی حاصل کرنے کے لئے سمندر میں غوطہ لگانا پڑتا ہے اسی طرح اس کائنات کو فتح کرنے کے لئے خود کائنات ہی سے برقی و جوہری توانائی کی بھیک مانگنا پڑتی ہے اور اس مقصد کے لئے تجربہ، تجزیہ اور تحقیق و طلب کی کٹھن منازل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح روحی توانائی کے لامحدود ذخائر تک پہنچنے کے لئے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ذکر و تسبیح اور تفکر و خلوت کے طویل دور سے گزرنا ہوتا ہے ۔
یکسوئی میں کمال پیدا کرنے کیلئے یہ لوگ ایک مخصوص وقت کے لئے خلوت نشین ہو جاتے ہیں اور اس دورانیہ کی تکمیل پر جب وہ دوبارہ ہماری دنیا کا حصہ بنتے ہیں تو وہ طاقت کا اتنا بڑا خزانہ ساتھ لاتے ہیں کہ جدھر نگاہ اٹھائیں دلوں میں آسمانی محبت کی مقدس آگ بھڑکا دیتے ہیں ۔ جبینیں ان کے سامنے جھکنے کے لئے بے تاب ہو جاتی ہیں وہ چاہیں تو آگ سے حرارت چھین لیں یا دریاؤں سے انکی روانی ، وہ اشارہ کریں تو عصائے شبانی ازدھا بن جائے پیکر گل میں جان پڑ جائے۔(جاری ہے )
 

No comments:

Post a Comment