Saturday 19 May 2012

ظالمو جلدی کرو. November 06, 2011


سوچتے سوچتے ایک خوشگوار واقعہ ذہن کی کھڑکی پر دستک دینے لگا۔ یہ دس اپریل1986ء کی بات ہے۔اس روز محترمہ بینظیر بھٹو ایک طویل اور درد ناک جلا وطنی کے بعد لاہور کے ائیر پورٹ پر اتری تھیں۔ سیاست نے جہاں ان کا والد اور ملک کا سابق وزیر اعظم چھین لیا تھا وہاں انہیں بھی قید و بند کی صعوبتوں اور ذہنی عذاب سے گزرناپڑا تھا جس کے سبب پاکستانی قوم کا معتدبہ حصہ مغموم تھا اور بھٹو کی بیٹی سے جذباتی لگاؤ رکھتا تھا۔ ہماری صد سالہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ نامور، بااثر اور موروثی سیاسی گھرانے ،انگریزوں سے لے کر جنرل مشرف تک اقتدار کے حصول کے لئے آسان راستہ تلاش کرتے رہے ہیں اور وہ آسان راستہ ہے حکمرانوں کی مدد یا عوامی لہر سے کرسی حاصل کرنا اور پھر حکمرانوں کی خدمت کرنا۔ وہ اقتدار انگریز بہادر کا ہو یا کسی فوجی آمر کا ،اس سے انہیں غرض نہیں کیونکہ ان کی منزل”کرسی“ ہوتی ہے۔ نسل در نسل سیاست اور اقتدار کی فصل کاشت کرتے کرتے وہ مشہور ہوگئے ہیں، چنانچہ ہمارے دانشور، تجزیہ نگار سیاسی کارکن اور لکھاری انہیں مضبوط امیدوار یا وننگ امیدوار Winning Candidateکہتے ہیں جبکہ ان کا ماضی کھلی کتاب ہے۔ ان حضرات کی اکثریت گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض ہو کر قوم کا خون چوس رہی ہے ۔وہ ہر تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وفاداری بدلنا ان کے دائیں ہاتھ کا کرتب ہے، چنانچہ جو پارٹی ان کے دم قدم سے محروم ہو اس کے بارے میں یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جیتنے والے امیدوار نہیں۔ آج کل اسی الزام کے تیر عمران خان پر نشانے باندھ کر مارے جارہے ہیں جبکہ میں خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ اول تو ان موسمی پرندوں کی ایک بڑی تعداد ہوا کا رخ پہچان کر خود بخود عمران کے گھر کی دیواریں گرادے گی لیکن اگر یہ مضبوط اور نام نہاد جیتنے والے امیدوار عمران کے پلڑے میں اپنا وزن نہ بھی ڈالیں تو یہ تحریک انصاف کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ یہ سیاسی کشتی کے بھاری پتھر ہیں، اپنے ساتھ لوٹ مار، کرپشن، ظلم و زیادتی اور موقع پرستی کا بوجھ لاتے ہیں اور کسی انقلابی پارٹی کے لئے گھاٹے کا سامان بن جاتے ہیں۔ میں دل سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے، ہر پاکستانی اپنی آنکھوں میں انقلاب کی آرزو سجائے پھرتا ہے، نوجوان تبدیلی لانے کے لئے میدان میں اتررہے ہیں، تبدیلی کا ماحول بن رہا ہے اور اس ماحول میں موروثی، پیشہ ور، کرپٹ امیدوار چاہے وہ کتنے ہی نامور کیوں نہ ہوں پارٹی کے لئے نیک نامی کا باعث ہرگز نہیں ہوں گے اور نہ ہی ایسی دیرینہ نشانیوں کو مخلص، محنتی اور بے لوث نوجوان پسند کریں گے جو تبدیلی کے جذبے سے شعلہ جوالا بن کر عمران کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نئے اور صاف چہرے دیکھنا چاہتے ہیں، نئے نہ بھی ہوں کم از کم صاف شفاف ہوں کیونکہ قوم داغدار چہروں سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ دوسروں کے دامن میں سوراخ ڈھونڈھنے والے دیکھتے رہ جائیں گے ، وہ جوکہتے ہیں کہ عمران کے پاس سیاسی تنظیم نہیں ،اتنے لاکھ پولنگ ایجنٹ نہیں، ووٹ بھگتانے کا تجربہ اور وسائل نہیں وغیرہ وغیرہ، یہ مہربان نہیں جانتے کہ یہی الزامات کبھی قائد اعظم پر لگے تھے اور کبھی یہی باتیں بھٹو کے بارے میں کہی گئی تھیں لیکن جذبے نے خود ہی سارے سامان مہیا کردئیے۔ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اور جذبے سے مامور کارکنوں اور نوجوانوں نے مقامی سطح پر سارے انتظامات بھی کرلئے اور سیاسی بازیاں بھی الٹ دیں۔ ایک طرف خلوص اور جذبہ تھا تو دوسری طرف پیسہ، اثر و رسوخ، سرکاری مشینری اور وسائل مگر جذبہ جیت گیا اور پیسہ ہار گیا۔ یہ ہماری تاریخ میں ایک بار نہیں، دوبار ہوچکا ہے لیکن تمہیں یاد نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ تمہیں فقط ایک رٹا ، رٹایا سبق یاد ہے کہ عمران کا میدان میں اترنا سازش کا حصہ ہے۔ عمران مسلم لیگ (ن) کے ووٹ تقسیم کرے گا جس کا فائدہ پی پی پی کو ہوگا۔ لو اب میری بات بھی سن لو کہ میں کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کا عینی شاہد ہوں، جب کسی ابھرتے ہوئے سیاسی لیڈر کی اس طرح کردار کشی کی جائے اس پر مختلف نوع کے الزامات لگائے جائیں اور اس کے ابھرنے کو سازش قرار دیا جائے تو اس سے تمہارے اندرونی خوف کی عکاسی ہوتی ہے۔ عوام اس قدر تجربہ کار ہوچکے ہیں کہ وہ تمہاری چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم پر یہ الزامات کانگریس نے لگائے تھے۔ اس سے زیادہ الزامات بھٹو پر لگے تھے ۔ پیشہ ور ڈھنڈورچی اور”ماہرین پراپیگنڈہ“ تو اس کے شجرہ نسب اور ذاتی کردار تک پہنچ گئے تھے لیکن جب بھٹو نے جلسہ عام میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کہا کہ”ہاں میں پیتا ہوں لیکن غریبوں کا خون نہیں پیتا“ تو لوگوں نے جوش و خروش سے تالیاں بجائیں کیونکہ وہ تبدیلی چاہتے تھے اور بھٹو تبدیلی کی علامت بن کر ابھرا تھا۔ یہ الگ بات کہ بھٹو نے عوام کو مایوس کیا ، ان کی امیدوں پر پانی پھیر کر روایتی سیاستدان و حکمران بن گیااور 1977ء کے انتخابات میں بھٹو نے اپنے جانثار اور نظریاتی کارکنوں کو بھلا کر روایتی”وننگ“ امیدواروں کو ٹکٹ د ئیے جو اس کی پھانسی کا نظارہ کرتے رہے اور پھر ضیاء الحق کی گود میں آن پڑے۔ ان کی اکثریت آج مسلم لیگوں اور پی پی پی میں ہے مگر آج کا جذباتی نوجوان ان چہروں سے نالاں ہے۔ دوستو! کان کھول کر سن لو کہ عمران صرف اور صرف تبدیلی کے ووٹ لے گا، وہ نہ مسلم لیگوں کے ووٹ تقسیم کرے گا اور نہ ہی پی پی پی کے ووٹ چوری کرے گا۔ وہ دونوں پارٹیوں کے وہ ووٹ لے گا جو تبدیلی چاہتے ہیں اور جو آزمودہ حکمرانوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل اتفاق سے مجھے تین نوجوانوں نے گھیر لیا جو حال ہی میں ایم اے کرکے فارغ ہوئے تھے۔ کہنے لگے ہم آپ کو کتابوں اور کالموں کے ذریعے جانتے ہیں اور آپ کا دل سے احترام کرتے ہیں، مگر ہمیں بتائیے کہ سر آپ نے ہمیں کیسا پاکستان دیا ؟وہ پاکستان جوعالمی سطح پرکرپشن، غربت، دہشتگردی اور جہالت کے سبب جانا جاتا ہے؟ ہم آئندہ نسلوں کو نیا پاکستان دیں گے اور ہم پاکستان کو بدلنے کے لئے زندگیاں وقف کردیں گے۔ ان کا جذبہ دیکھ کر اور ان کی آنکھوں میں انقلاب کے شعلے دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ ایک نوجوان بولا ہم آپ کی حب الوطنی کی قدر کرتے ہیں ہمیں آپ کی فکری رہنمائی کی ضرورت ہے ، دوسرے نے پوچھا سر ہم عمران خان سے ملنا چاہتے ہیں اور قائد اعظم کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی مانند انصاف ینگ مین فیڈریشن بنانا چاہتے ہیں جو انقلاب کا پیغام لے کر سارے ملک میں پھیل جائے گی۔ میں نے دھیمے سے جواب دیا کہ میں تو عمران کو نہیں جانتا تمہارا جذبہ اسے خود ہی ڈھونڈھ لے گا۔ نوجوان چلے گئے اور میں جذبے کے سمندر میں بہتا رہا۔
بات دور نکل گئی میں کہہ رہا تھا کہ جس روز بینظیر لاہور میں اتری اس شام مجھے وزیر اعظم جونیجو کے ساتھی اور وفاقی وزیر اطلاعات قاضی عابد مرحوم کا فون آیا۔ قاضی صاحب مرحوم نہایت شریف النفس انسان تھے اور ان کا دل پی پی پی کے ساتھ تھا۔ یہ ایک حسین اتفاق ہے کہ آج کل ان کی بیٹی قومی اسمبلی کی اسپیکر ہے۔ قاضی صاحب نے مجھ سے رازدارانہ انداز سے پوچھا کہ بینظیر کا جلوس کیسا تھا؟ پھر پوچھا کہ لوگوں میں جذبہ اور جوش بھی تھا، میں نے عرض کیا کہ اس طرح کا جوش میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ کچھ ہی عرصے بعد قاضی صاحب نے مسلم لیگ چھوڑ کر پی پی پی جائن کرلی۔ یہی پیغام میرا ان مہربانوں کے لئے ہے جو تبدیلی کی ہوا سونگھنے ملکہ رکھتے ہیں اور ابن الوقتی کے ”بادشاہ“ ہیں کہ جلدی جلدی عمران خان کا بازو پکڑ لو وہ دانشور جنہیں دولت بنانے کا فن اور چسکا پڑچکا ہے ان سے بھی گزارش ہے کہ عمران کی قربت حاصل کرلو، ظالمو جلدی کرو عمران آرہا ہے۔
 

No comments:

Post a Comment