Sunday 20 May 2012

قبر جناں دی جیوے March 11, 2012


میں آج کچھ اداس بھی ہوں اور غم زدہ بھی لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس کی وجہ لکھوں یا نہ لکھوں کیونکہ مجھے ذاتی صدمات پر لکھنے کی عادت نہیں اگرچہ ان سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتاہے۔ بات تو فقط اتنی سی ہے کہ آپ کا لاہور چارسُو پھیل رہا ہے اور اس کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن میرا لاہور سکڑ رہا ہے اور آہستہ آہستہ ویران ہو رہا ہے۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ لاہور اور لاہور کی مانند ہر شہر ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے کیونکہ وہ دوستوں اور شناسا چہروں سے آباد رہتا ہے اور دوستوں کی رخصتی سے ویران ہوتا ہے۔ نوجوانی میں انسان دوست بناتا، محبتیں پروان چڑھاتا، قہقہے لگاتا اور دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن ایک عمر ایسی آتی ہے جب انسان جنازے اٹھا اٹھا کر زندہ ہونے کے باوجود قبرستان کا حصہ بن جاتا ہے۔ شہر لاہور میں میری محبت اور روحانی غذا کی ایک اہم نشانی اور مقدس ہستی بابا مست اقبال شاہ صاحب تھے جو اللہ کو پیارے ہو گئے اور آج ان کا چالیسواں ہے۔ عجب درویش، مرد آزاد، نیم مجذوب اور سچے عاشق رسول تھے۔ ان کا باطن ہمہ وقت روشن رہتا تھا اور آنکھوں میں ہمہ وقت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سجے رہتے تھے۔ دنیاوی معاملات سے کنارہ کش ایک سچے صوفی تھے جن کا دل دنیا کی ہر قسم کی آلائش، کشش اور سفلی جذبات سے پاک و صاف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ان پر کرم کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بابا جی نے تقریباً 69یا 70سال عمر پائی اور تقریباً 49 حج کئے، جہاں تک ”عمرے“ کا تعلق ہے ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ خود مجھے نوے کی دہائی میں دو بار ان کے ساتھ عمرہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اور اس سفر کی یادیں آج بھی میری سانسوں میں مہک رہی ہیں۔
میں اپنے بارے میں تھوڑا سا جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے اندر ایک عدد باغی موجود ہے جو پیری مریدی، دربار داری، خوشامدی ماحول، خانقاہی ماحول اور فضول معاشرتی رسومات کے خلاف بغاوت کرتا رہتا ہے اس لئے میں کبھی بھی ”مرید “ٹائپ نہیں رہا لیکن اس کے باوجود اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے زندگی میں تین کامل اولیاء کرام کی محفلوں میں بیٹھنے، جوتیاں سیدھی کرنے اور ان سے محبت کے رشتے میں منسلک ہونے کا موقعہ ملا۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اولیاء اللہ صرف سچی جستجو اور مخلصانہ کوشش سے ملتے ہیں اور ان سے تعلق اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے۔ یوں تو مجھے بہت سی نیک اور عبادت گزار ہستیوں سے تعلق کا شرف حاصل رہا لیکن یہ تین اللہ والے ایسے کامل مرشد تھے جو احوال پر نظر رکھتے، اشاروں کنایوں میں ایسی باتیں کر جاتے جو سچ بن کر میرے سامنے آ جاتیں اور بعض اوقات مجھ پر وہ بات منکشف کر جاتے جس کا حال صرف میں ہی جانتا تھا۔ میں کہ مزاجاً تحقیق اور بقول ایک صاحب باطن مغربی علوم زدہ ثبوت کے بغیر کسی بات پر اعتبار اور اعتماد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی محفلوں میں ایسے روحانی تجربات ہوئے کہ میں پہلی بار روحانیت کا قائل ہوا۔ اس لئے جب کوئی روحانیت کے بارے میں تشکیک یا شک کا اظہار کرتا یا تمسخر اڑاتا ہے تو سوچنے لگتا ہوں کہ ”کالیے مجّے تُوں کی جانیں انارکلی دیاں شاناں“ (اے کالی بھینس تم انار کلی کی شان نہیں سمجھ سکتی) ۔ میں جن بزرگوں کا ذکر کر رہا ہوں ان سے میرا رشتہ قلبی محبت کا تھا اور وہ تینوں اللہ کو پیارے ہو چکے لیکن میرے قلب و ذہن میں آج بھی زندہ ہیں حالانکہ ان میں سے دو ہستیوں کے انتقال کو تین اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرا۔ ان کے حوالے سے قلبی وارداتوں کا ذکر کروں تو داستان طویل ہو جائے گی لیکن روایت یہی ہے کہ ایسی باتوں کو پردے ہی میں رہنے دیا جائے۔
بابا مست اقبال شاہ صاحب سے میرا پہلا تعارف 1989ء میں ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد میاں برادران سے قریبی تعلق کا الزام لگا کر مجھے او ایس ڈی بنا دیا اور ہر قسم کی ٹارچر دی۔ بابا جی سے ایک دوست کے گھر ملاقات ہوئی میں ان کے نام تک سے غیر مانوس تھا ہاتھ ملاتے ہی کہنے لگے ”بابا گھبرانا نہیں۔ تم اپنی تقرری کا آرڈر خود ٹائپ کرو گے“۔ بے نظیر حکومت ڈسمس ہوئی تو مجھے چیف سیکرٹری نے بلا کر کہا ”ڈاکٹر صاحب بتایئے کس پوسٹ پر جانا چاہتے ہیں“۔ اس کے بعد بابا جی سے دوستی ہو گئی اور ملاقاتیں ہونے لگیں تو پتہ چلا کہ بابا جی بچپن سے لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل تک جذب کی حالت میں رہے، لنگوٹی میں موٹے ڈنڈے کے ساتھ لاہور کی سڑکوں سے پھرتے اور بازار حسن کے راستے مغرب کی اذان تک داتا دربار پہنچتے تھے۔ یہ ”ڈرل“ طویل عرصے تک جاری رہی پھر بقول بابا جی کپڑے پہننے کا حکم ہوا، پھر شادی کا حکم ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں گھر بار اور اولاد سے نوازا۔ اس مجاہدے کا انعام تھا کہ ان کا دل حسد، رشک، لالچ ، کدورت، نفرت اور ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے پاک تھا اور ان کے قلب میں ہر وقت محبت کا زمزمہ بہتا رہتا تھا جس میں نیک اور گناہگار سبھی فیض یاب ہوتے تھے۔ ان کے بقول انہیں حضرت سیّد علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش سے فیض حاصل ہوا تھا۔ وہ مجھے اکثر یاد دلاتے رہتے تھے کہ ”میری باگ حضرت داتا کے ہاتھ میں ہے، میں آزاد نہیں“۔
میرا محترم نسیم انور بیگ صاحب اسلام آباد والے سے گہرا قلبی تعلق ہے۔ کوئی اٹھارہ سال قبل وہ لاہور آئے تو بابا جی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نسیم انور بیگ صاحب نے زندگی کا معتدبہ حصہ پیرس اور یونیسکو میں گزارا لیکن مغرب کی آندھیاں ان کے قلب میں روشن چراغ کو بجھا نہ سکیں۔ میں نے بیگ صاحب سے عرض کیا کہ چانس لے لیتے ہیں مجھے اندازہ نہیں اس وقت بابا جی گھر پر ہوں گے یا نہیں۔ یہ ان کی بابا جی سے پہلی ملاقات تھی۔ ہم بابا جی کے گھر گئے، ملازم نے مجھے دیکھا تو اوپر والی منزل پر بابا جی کو اطلاع دینے بھاگا۔ بابا جی سیڑھیاں اترتے آتے اور کہتے جاتے تھے ”آج پیرس والا بابا آیا اے“ انہیں کیسے خبر ہوئی، صرف میرا رب جانتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد بیگ صاحب دوبارہ لاہور آئے۔ بابا جی میرے گھر فرش پر بیٹھے تھے ۔ بیگ صاحب آ گئے اور پھر اس وقت وفاقی سیکرٹری اطلاعات حاجی اکرم صاحب مرحوم بھی تشریف لے آئے۔ چائے پیتے ہوئے اچانک بابا جی بولے ”ڈاکٹر بابا تم حاجی کی جگہ پر۔ ڈاکٹر بابا تم حاجی کی جگہ پر…“ یہ بات سُن کر میں پریشان ہو گیا کیونکہ حاجی صاحب کچھ عرصہ قبل مجھے بتا چکے تھے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مجھے کہا ہے کہ میں کسی صورت بھی ڈاکٹر صفدر کو نہیں لوں گا“۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد مجھے حاجی اکرم مرحوم کی جگہ پر لگا دیا گیا اور بابا جی کے مبارک منہ سے نکلی ہوئی بات سچ ثابت ہو گئی۔ تین چار بار ایسا ہوا کہ کہنے لگے ”بابا تم رزق حلال کھاتے ہو۔ یہ نوٹ اپنی جیب میں محفوظ رکھنا، خرچ نہ کرنا اللہ تمہارے رزق میں برکت ڈالے گا۔ “ پھر سچ مچ رزق میں برکت پیدا ہونے لگی۔ ایک بار میں نے بابا جی سے کہا کہ حضور آپ نے مجھے جو دس روپے کا نوٹ دیا تھا وہ گم ہو گیا ہے فوراً بولے وہ میرے پاس واپس آ گیا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا ”یہ ہے وہ نوٹ سنبھال کر رکھنا“۔ ہزاروں باتیں ہیں کس کس کا ذکر کروں۔ میری بیٹی کی شادی ہوئے چند ماہ گزرے تھے۔ حسب معمول بابا جی آئے تو بیٹی کی تصویر پر نظر پڑی، کہنے لگے ”بابا ، اللہ بیٹی کو ہیرے ورگا بیٹا دے گا“ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا تو اچانک تشریف لے آئے اور کہا کاغذ پین دو۔ پھر کاغذ پر کچھ لکھا اور کاغذ مجھے تھما دیا۔ لکھا تھا بابا تمہارا 22 گریڈ کا ٹھپہ لگ گیا۔ میں نے کاغذ بریف کیس میں رکھ لیا جہاں بابا جی کے لکھے کئی اور خطوط بھی رکھے تھے۔ چند برسوں بعد اللہ تعالیٰ نے ترقی کر دی۔ جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں آئے دو تین ماہ گزرے تھے تو بابا جی مجھے کہنے لگے ”بابا تم ظالموں کے ہتھے چڑھ گئے ہو حضرت یونس علیہ السلام والی دعا پڑھا کرو“۔ میں بات سمجھ نہ سکا اور ایک ماہ بعد او ایس ڈی بنا دیا گیا۔
چند ماہ قبل استنبول سے میری بڑی بیٹی اور داماد آئے۔ میں ان کو لے کر بابا جی کے ہاں گیا۔ کہنے لگے ”بہن تمہارا رزق بندروں والے شہر میں ہے، تیاری کر لو“۔ بابا جی لندن کو ”باندروں“ والا شہر کہتے ہیں۔ چار ماہ قبل داماد کو لندن میں پوسٹنگ مل گئی اور وہ لندن منتقل ہو گئے۔بابا جی مجھے تنہائی میں کہا کرتے تھے کہ بابا میں نے مدینہ شریف چلے جانا ہے اور پھر وہیں سرکار ﷺکے قدموں میں رہنا ہے۔ کبھی کبھی میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے جو میرے سینے میں بابا جی کی امانت ہیں۔ 8فروری کو صبح قلم پکڑا اور اخبار پر لکھا ”مجھے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں بلا رہی ہیں۔ مجھے مدینہ طیبہ کی ہوائیں بلا رہی ہیں“۔ اسی شام طبیعت معمولی سی خراب ہوئی اور ہسپتال لے جاتے ہوئے اچانک بگڑ گئی۔ ہسپتال سے چند منٹ کے فاصلے پر تھے ، بیٹے کا ہاتھ پکڑا ، آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا ”بیلی مجھے لینے آ گئے ہیں“۔ قرآنی آیات پڑھیں اور دنیا سے پردہ کر گئے۔ ہر جمعرات شام داتا دربار جانا ان کا طے شدہ معمول تھا۔ 9فروری بروز جمعرات نماز عصر کے بعد ان کی نماز جنازہ حضرت سیّد علی ہجویری کے قدموں کی جانب ادا کی گئی اور شام کو میانی قبرستان میں دفن کر دیا گیا کہ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا اور دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ بابا جی میرے پیارے مخلص دوست تھے، یار تھے اور ہمراز تھے۔ ان کے جانے کے بعد مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں تنہا ہو گیا ہوں لیکن یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتا ہوں کہ یہ چار دن کی جدائی کوئی بات نہیں انشاء اللہ جلد اکٹھے ہوں گے۔ یاروں کے طوفان نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ کالم کا دامن تنگ ہے انشاء اللہ پھر کبھی۔ 


No comments:

Post a Comment