آج کے اخبارات میں جو گیلپ پول کے نتائج چھپے ہیں ان پر اعتراضات کئے جاسکتے ہیں لیکن میری دانست میں یہ پول کا من سنس اور عام مشاہدے کی بھی تصدیق کرتے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ لوگوں میں”تبدیلی“ کا رجحان دن بدن مضبوط ہورہا ہے، موجودہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اقتدار میں شامل پارٹیوں کے خلاف بداعتمادی مایوسی کی حدوں کو چھو رہی ہے، لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا، ایک طبقہ ملک کے حالات سے مایوس ہو کر ملک کے وجود اور مستقبل سے مایوس ہوچکا ہے اور وہ مایوسی سرعام پھیلا رہا ہے۔ خودمیاں نواز شریف جیسے ملکی سطح کے سیاستدان بیانات دے رہے ہیں کہ ملک کے وجود کو خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے بیانات سے مایوسی کا سلسلہ مزید پھیلتا ہے اور لوگوں کا ملک پر اعتماد ڈگمگانے لگتا ہے۔ لوگ 1971ء کے تجربے سے گزر چکے ہیں اس لئے ایسے مواقع پر1971ء کے زخموں سے خون رسنے لگتا ہے اور صدمے تازہ ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال تبدیلی، سیاسی تبدیلی اور انقلاب کی خواہش کو دوآتشہ کرتی ہے۔ عام لوگ اسے تبدیلی کہتے ہیں جبکہ نوجوان طبقہ اسے انقلاب کہتا ہے کیونکہ گرم خون انقلاب ہی کی خواہش کرتا ہے۔حالیہ گیلپ پول کے نتائج کی روشنی میں میاں نواز شریف اگرچہ 12پوائنٹس کے ساتھ مقبول ترین لیڈر ہیں،لیکن اگر رجحان کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی مقبولیت میں4پوائنٹس کی کمی آئی ہے، میاں شہباز شریف10پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں لیکن ان کی مقبولیت میں بھی خاصی کمی آئی ہے جبکہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ پانچ پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کی مقبولیت ایک پوائنٹ بڑھی ہے۔ گویا عوامی رائے عامہ کا رجحان یہ ہے کہ لوگ آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے، عوام یقیناً بنیادی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن انہیں بنیادی تبدیلی کا محرک یا نمائندہ واضح طور پر نظر نہیں آرہا ۔ عمران خان کی مقبولیت میں ایک پوائنٹ کا اضافہ فقط یہ نشاندہی کرتا ہے کہ لوگوں نے اس کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے لیکن قومی سطح پر ابھی ابھرنے کے لئے اسے طویل فاصلہ طے کرنا ہے اور اپنے آپ کو سیاستدان ثابت کرنا ہے۔ یہ بات میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ گیلپ پول کی دلچسپ سٹڈی میرے تاثر کی تصدیق کرتی ہے کہ عمران خان کا بطور قومی شخصیت مقبولیت کا گراف بہت اونچا ہے لیکن بطور سیاستدان ابھی وہ صرف پانچ پوائنٹس تک ہی پہنچا ہے۔ دراصل کسی بھی قومی ہیرو وہ کھلاڑی ہو، فلمی اداکار ہو، ادیب و شاعر ہو یاسماجی کارکن ہو اسے اپنے آپ کو سیاستدان ثابت کرنے کے اور ووٹ بنک بنانے کے لئے بے حد محنت کرنی پڑتی ہے۔ عمران اس وقت نوجوانوں کا ہیرو بن رہا ہے اور نوجوان کسی بھی تحریک کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔ میرا تحریک پاکستان کا مطالعہ یہ بناتا ہے کہ پاکستان کے تصور کو مقبول بنانے اور عوام تک پہنچانے میں نوجوانوں، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور علی گڑھ یونیورسٹی کے بے لوث اور جوشیلے نوجوانوں نے اہم ترین رول سرانجام دیا تھا اور1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کا سہرا انہی نوجوانوں کے سر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نوجوانوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور انہیں اپنافائر بریگیڈ کہتے تھے۔ عمران خان مستقبل کی امید ضرور ہے لیکن ابھی اسے طویل فاصلہ طے کرنا ہے کیونکہ پارلیمانی نظام میں دو پرانی اور مضبوط پارٹیوں میں جگہ بنانا آسان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا انحصار کافی حد تک اس فیکٹر پر ہے کہ کیا 1970-71ء کی مانند عوامی لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے؟
میں طویل عرصے سے گیلپ پول کی رپورٹوں کا مطالعہ کررہا ہوں۔ ایک بات واضح ہے کہ 1990ء کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ووٹوں کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں تھا اگرچہ1997ء میں مسلم لیگ نے دو تہائی اکثریت لی لیکن اگر دونوں بڑی پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو فرق بڑا نہیں تھا، البتہ گزشتہ چند برسوں میں مسلم لیگ کا ووٹ بنک بڑھا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں اگر دونوں مسلم لیگوں کے ووٹ جمع کئے جائیں تو ان کا تناسب پی پی پی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ گیلپ پول نے 2008ء کے انتخابات سے قبل یہی پیش گوئی کی تھی کہ عام تاثر کے برعکس مسلم لیگ(ق)بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرے گی، پی پی پی معمولی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھرے گی اور مسلم لیگ(ن)کو دوسری پوزیشن حاصل ہوگی۔ ماضی کی روشنی میں موجودہ گیلپ پول سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ وفاق سے لے کر دو تین صوبوں تک ایسا سیاستدان حکمران ہیں جن کی مقبولیت اور کریڈیبلٹی منفی پوائنٹس میں ہے، بھلا ایسے لیڈران قوم کے لئے روشنی کے مینار بن سکتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment