Saturday 19 May 2012

جو بن کھلے مرجھا گئے January 17, 2012


اس کے باوجود کہ زندگی اور دنیا عارضی اور بے ثبات چیزیں ہیں اور موت بہرحال برحق ہے پھر بھی انسان موت سے خوفزدہ رہتا ہے اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ موت کے خوف کا یہ عالم ہے کہ قصص الانبیا  کے مطابق جب موت کا فرشتہ حضرت موسیٰ  کی روح قبض کرنے آیا تو آپ  نے اسے تھپڑ مار دیا۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ملک الموت پنے رب تعالیٰ کے پاس گئے اور عرض کی ”تو نے مجھے جس بندے کی طرف بھیجا ہے وہ مرنانہیں چاہتا“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”دوبارہ ان کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ کسی بیل کی پشت پر ہاتھ رکھیں۔ ان کے ہاتھ میں جتنے بال آئیں گے اتنے سال مزید مل جائیں گے“ ملک الموت نے حضرت موسیٰ  کو اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچایا۔ آپ  نے فرمایا ”یارب! اس کے بعد کیا ہوگا؟“ جواب ملا ”پھر موت آ جائے گی“ موسیٰ  نے فرمایا ”تب ابھی موت کا حکم قبول ہے۔“ (صفحہ 486) مطلب یہ کہ موت بہرحال برحق ہے، اسے ایک نہ ایک دن آنا ہی ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اس قدر حسین اور پرکشش چیز بنائی ہے کہ انسان دنیا سے جانا نہیں چاہتا، وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ یہاں رہنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے ہر قسم کے حیلے اور علاج کرتا ہے۔ سائنس دان صدیوں سے زندگی کو طول دینے والی دوائیں ایجادکرنے میں مصروف ہیں اور ہر روز صحت مند زندگی گزارنے کے نئے نئے طریقے دریافت کئے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک دوڑ، ریس اور مقابلہ جاری ہے۔ ایک طرف انسان موت پر فتح حاصل کرنے کے تحقیق و ایجادات کی دنیا میں دن رات مصروف ہے تو دوسری طرف موت ہر انسان کا تعاقب کر رہی ہے اور وقت مقررہ پر اسے پکڑ لیتی ہے۔ اس سے نہ فرار ممکن ہے اور نہ اسے دھوکہ دیاجاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کو اسی لئے امتحان گاہ کہا جاتا ہے کیونکہ اگر دنیا میں کشش، لذت اور نشہ نہ ہوتا تو پھر یہ امتحان گاہ کیسے بنتی؟ بے لذت اور بے کشش چیز کے ذریعے امتحان تو نہیں لیا جاسکتا۔ جب میں دنیا اور زندگی کو امتحان گاہ کہتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا صرف صبر و شکر کی امتحان گاہ ہے۔ صبر برائیوں کی کشش سے، غیرشرعی لذتوں سے اور ان تمام ذائقوں سے جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے اور شکر اللہ کی نعمتوں پر اور اللہ سبحانہ  تعالیٰ کے ہر فیصلے پر… صبر و شکر انتہائی کٹھن منازل ہیں، یہ آسانی سے نہیں ملتیں اور دراصل یہی امتحان ہے جس کا اجر آخرت میں ملے گا۔طویل عرصہ قبل یہ شعر پڑھا تھا:
دنیا عجب سرا ہے کہ جس میں شام و سحر
کسی کا کوچ، کسی کا مقام ہوتا ہے
ایک طرف آمد تو دوسری طرف رخصت کا سلسلہ جاری ہے۔ میں جب اخبارات میں اس طرح کی خبریں پڑھتا ہوں کہ پاکستان کی ایک بیٹی نے بیالوجی کے او لیول میں دنیا بھر میں زیادہ نمبر لئے، ایک بچی نے او لیول میں کم ترین عمر میں زیادہ اے حاصل کئے اور گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی بچے اے، او لیول کے امتحانات میں زیادہ سے زیادہ ”اے“ حاصل کر کے عالمی ریکارڈ توڑ اور قائم کر رہے ہیں تو میرے دل کا گلاب کھل اٹھتا ہے۔ ناتواں جسم میں توانائی کی لہریں موجزن ہو جاتی ہیں اور اپنے ملک کے روشن مستقبل پر اعتماد ایمان کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ تاریخ عالم کا یہ طے شدہ اصول ہے کہ جس قوم کی نئی نسل صلاحیتوں سے مالامال ہو، جس قوم کے طلبہ عالمی سطح پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں، اس قوم کے مستقبل کو ترقی اور روشنی سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس روشنی اور ترقی کے سفر کو جاری رکھنے اور قائم و دائم رکھنے کی کچھ شرائط ہیں جنہیں پورا کئے بغیر قوم و ملک آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس حوالے سے پہلی شرط اعلیٰ معیار کی اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور ریسرچ کی شاندار سہولیات، محنت کا بہترین ا جر، اچھا معیار ِ زندگی، ریاستی استحکام، میرٹ کی سرپرستی، کرپشن کاخاتمہ اور قانون کی حاکمیت ضروری ہے۔ حالات و نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وافر صلاحیت اور بہترین انسانی سرمائے سے نوازا ہے لیکن ہم اپنی نالائقی اور نااہلی سے وہ سرمایہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہین اور اہل نوجوان بیرون ملک جاتے ہیں تو واپسی کا نام نہیں لیتے۔ اس صورتحال کی وجوہ پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان سے ہر شخص آگاہ ہے اور ہماری حکومتی مشینری کو اس کا پورا ادراک ہے لیکن یہ قومی سانحہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی ہرگز کوئی کوشش یا منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔ ہماری صلاحیت، قابلیت اور اہلیت کا ذہنی دریا یورپی ممالک اورخاص طور پر امریکہ کو سیراب کر رہا ہے لیکن ہم اس کا رخ موڑنے کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میری اکثر خوشیاں، محرومیاں اور غم و صدمے ملک کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ جب میں ملک میں قابلیت اور صلاحیت کے پھول کھلتے دیکھتا ہوں تو میرا دل کھل اٹھتا ہے اور جب اس صلاحیت کو ضائع ہوتے دیکھتا ہوں تو دل مرجھا جاتا ہے اور اپنی قومی بے حسی اور حکومتی نااہلی پر آنسو بہاتا ہے۔ اسی طرح جب قوم کا کوئی خوبصورت پھول موت کے ہاتھوں خزاں رسیدہ ہو کر بکھرجاتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور طبیعت غم سے بوجھل ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی نہایت ہونہار، ذہین، قابل اور نامور بچی ارفع کریم بیمارپڑی تھی تو میں اس کے لئے ہر لمحہ دعاگو تھا۔ جب اللہ نے دی ہوئی امانت واپس لے لی تو میں آنسو ضبط نہ کرسکا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ موت برحق ہے، اس کا وقت متعین ہے، اس نے نبیوں ، پیغمبروں اور اولیا کرام سے بھی رعایت نہیں کی لیکن بشری تقاضا ہے کہ انسان غمناک خبرسے رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ دراصل یہی صبر کا امتحان ہے کہ کیا انسان غم، صدمے، نقصان اور مصیبت میں صابر رہتا ہے یا نہیں۔ موت برحق ہے اورہر جاندارشے کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اس حقیقت کو فراموش کرکے ہوس، ظلم، بے انصافی اور لوٹ کھسوٹ کابازارگرم رکھتا ہے اور اس کی بار بار یاددہانی کو بھول جاتا ہے۔ بے شک موت کا وقت متعین ہے لیکن اس کے باوجود نوجوان موت، کلی کے پھول بننے سے قبل کی موت بے وقت لگتی ہے اور صدمے کے پہاڑ تلے دبا دیتی ہے۔ بقول شاعر ”حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے“… کھل کر مرجھانا تو متوقع ہوتا ہے لیکن بن کھلے مرجھانا بالکل غیر متوقع… متوقع اور غیرمتوقع کا امتزاج ہی زندگی ہے۔ بلاشبہ موت برحق ہے اس سے فرار ممکن نہیں لیکن مبارک ہے وہ موت جو اپنے پیچھے پر نہ ہونے والا خلا چھوڑ جائے اور اپنے نام اور کام کاایسا چراغ روشن کر جائے جو اپنے نام کی روشنی بکھیرتا رہے اور ہم عصروں کے لئے مثال بن جائے۔
ارفع کریم نے مختصر زندگی پائی کہ یہ میرے رب کا عطیہ تھا۔ وہ قادر مطلق ہے اور ہم بے بس لیکن ارفع اپنے رب کے پاس لوٹنے سے پہلے ایسا اعزاز حاصل کرکے گئی جو طلبہ کے لئے ہمیشہ ایک آئیڈیل رہے گاا ور ایسا چراغ روشن کرگئی جوعرصے تک روشنی بکھیرتا رہے گا۔ یہ بھی میرے رب کاانعام ہے جو ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا۔
 

No comments:

Post a Comment