Saturday 19 May 2012

حقیقت؟ January 31, 2012


سچ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے اور جھوٹ بھی اپنا اپنا…ایک ہی موضوع پر بہت سے لوگ بات کرتے ہیں، ان میں تضاد بھی ہوتا ہے اور مختلف انداز فکر بھی لیکن ان میں ہر ایک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ گویا سچ اپنا اپنا، خیال اپنا اپنا، پسند اپنی اپنی اور مختصر یہ کہ زندگی بھی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ شاعر حضرات کہتے ہیں کہ زندگی میری تھی جس کو بسر”اس“ نے کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی اسی کی ہوتی ہے جو اسے بسر کرتا ہے، وہی اپنی زندگی کا درد محسوس کرتا ہے، وہی تڑپتا ہے جب اسے چوٹ لگتی ہے اور وہی خوشی سے پاگل ہوجاتا ہے جب اس کی تمنا پوری ہوتی ہے یا کوئی بڑی کامیابی ملتی ہے۔ اسی لئے میں عرض کررہا ہوں کہ زندگی بھی اپنی اپنی ہی ہوتی ہے اور انسان آخری سانس تک زندگی کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ اسے آپ یوں بھی کہہ لیجئے کہ زندگی آخری سانس تک انسان کا پیچھا کرتی رہتی ہے اور پھر آخری سانس کے ساتھ اسے داغ مفارقت دے جاتی ہے۔ داغ مفارقت وہی چیز یا شے دیتی ہے جسے ہم بے وفا کہتے ہیں۔ وفادار تو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔ گویا زندگی بھی ایک بے وفا شے ہے اور سچ یہ ہے کہ ہر وہ شے جو عارضی ہوتی ہے وہ اپنی فطرت میں بے وفا ہوتی ہے۔ جب زندگی بے وفا ہے تو پھر زندگی سے وابستہ ہر شے کیسے وفادار ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ز ندگی ہر موڑ پر دھوکہ دے جاتی ہے اور اپنا رنگ حتیٰ کہ آہنگ بھی بدل لیتی ہے۔زندگی میں بے وفا لوگ بھی ملتے ہیں اور وفادار بھی لیکن سبھی کسی نہ کسی موڑ پر جدا ہوجاتے ہیں۔ کسی کو زندگی ہم سے جدا کردیتی ہے اور کوئی روزی، بہتر مواقع اور زندگی کی دوڑ میں ہم سے جدا ہوجاتا ہے۔ تب سمجھ آتی ہے کہ درخت پر سرسبز وشاداب کونپلیں اگتی ہیں پھر یہ کونپلیں ہر ٹہنی کو اپنے حسن اور لباس میں ڈھانپ لیتی ہیں۔ جب درخت اپنے باطنی حسن کو بے نقاب کرتا ہے تو اس کی ٹہنیوں پر کلیاں نمودار ہوتی ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے پھول بن جاتی ہیں۔ پھول ہر شخص کی نگاہ کا مرکز بن جاتا ہے اور ہر آنکھ اس سے لطف اندوز ہوتی ہے بلکہ متاثر ہوتی ہے۔ ایک دن پھول مرجھا جاتا ہے اس کی پتیاں خزاں رسیدہ ہو کر زمین پر آگرتی ہیں یعنی ہر چیز اپنے مرکز کی طرف لوٹتی ہے پھول نے زندگی کا آغاز مٹی ہی سے کیا تھا اور بالآخر اسے مٹی ہی میں مل کر مٹی ہونا ہوتا ہے۔ وہی لوگ جن کی نظر یں اور آنکھیں ان پھولوں کے حسن پر فدا ہوتی تھیں اور انہیں ان میں قدرت کی شان نظر آتی تھی وہی لوگ ان پھولوں اور رنگین پتیوں کو پاؤں تلے مسلتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ جوانی کا اپنا حسن ہوتا ہے، اپنا نشہ اور اپنی کشش ہوتی ہے، اپنے ولولے اور اپنے جذبے ہوتے ہیں جبکہ بڑھاپا گزرے ہوئے وقت کی بازگشت، عہد رفتہ کی نشانی اور مرجھائے ہوئے پھولوں کی کہانی ہوتا ہے۔ اسی لئے تو نبی کریم نے بھی بڑھاپے کے عجز سے پناہ مانگی تھی۔ حضور اکرم کا فرمان ہے کہ میں اپنے رب سے پناہ مانگتا ہوں دل کے بخل اور بڑھاپے کے عجز سے، سبحان اللہ، ان چند لفظوں میں معافی کا سمندر پوشیدہ ہے۔دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ ڈاکٹر اسے گوشت کا لوتھڑا اور اہل نظر یا اہل باطن اسے روح کا مسکن قرار دیتے ہیں جبکہ ہم جیسے کتابی لوگ دل کو ایک کائنات سمجھتے ہیں جس میں نہ جانے کیا کیا آباد ہوتا ہے۔ کسی کے دل میں بتوں کی تصویریں یا بت موجود ہوتے ہیں تو کسی کے دل میں خواہشات اور ارادوں کا جہان آباد ہوتا ہے، کسی کے دل میں نفرتیں اور کدورتیں موجزن ہوتی ہیں تو کسی کے دل میں محبت کا زمزمہ بہتا ہے، کسی کے دل میں دنیا کا سومنات سجا ہوتا ہے تو کسی کے دل میں حب الٰہی کا کعبہ نور افروز ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے سے دل میں گویا ایک جہان اور کائنات آباد ہوتی ہے اور یہ جہان ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے، یہ کائنات ہر شخص کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ عمر بھر اکٹھے رہنے کے باوجود پتہ نہیں چلتا کہ دوسرے کے دل میں کیسا اور کونسا جہان آباد تھا۔ جو لوگ کسی کو پوری طرح سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں دراصل وہ وہم و گمان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ صوفی شاعر حضرت سلطان باہو نے سچ کہا تھا
دل دریا سمندروں ڈونگے
کون دلاں دیاں جانے ہو
دل کے راز صرف ہمارا خالق ہی جانتا ہے اور جب چاہتا ہے تو انسانی دل کے رازوں اور ارادوں کو بدل دیتا ہے۔ یہ اختیار صرف اور صرف ہمارے رب کے پاس ہے کہ وہ جب چاہے تو صرف ایک عمل کے انعام کے طور پر اندھیروں کو روشنی میں بدل دے اور روشنی کو تاریکی میں بدل دے۔ اس کو ہم توفیق کہتے ہیں اور یہی توفیق ہم اپنے رب سے مانگتے ہیں۔ وہ چاہے تو سرفراز کو ناکام اور ناکام کو سرفراز کردے لیکن یقین رکھیئے کہ یہ بلاوجہ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے انتظام میں کاروبارکائنات میں اور فطرت کے نظام میں کوئی بھی شے بلاوجہ، بلاعلت اور بلا ارادہ نہیں ہے کیونکہ اس کائنات کی ہر شے اور ہر حرکت کے پس پردہ کوئی نہ کوئی راز ہے ، کوئی نہ کوئی علت ہے اور کوئی نہ کوئی منطق ہے۔ ہمیں سمجھانے کے لئے کبھی کبھی کسی راز سے پردہ اٹھادیا جاتا ہے اور یہ پردہ یا تو کسی سائنسی کرشمے کے ذریعے اٹھتا ہے یا پھر قدرت خود ہی اسے بے نقاب کردیتی ہے لیکن ان گنت ایسے راز ہیں جو ہماری نگاہوں سے اور سائنس کی جو لا نگاہوں سے اوجھل ہیں اور اوجھل رہیں گے ، بے شک اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس کے لئے ہر شے مسخر کردی۔ عجیب بات ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کائنات تو مسخر کردی کہ یہ میرے رب کی رضا ،اذن اور عنایت تھی لیکن انسان تمام تر قوت اور صلاحیتوں کے باوجود اپنے آپ کو مسخر نہیں کرسکا، وہ اکثر معاملات اور شعبوں میں بے بس اور لاچار ہے۔ انسانی بے بسی کی خوفناک ترین مثال اور واضح صورت لاعلاج مرض ہے۔ دراصل صرف مرض الموت وہ مرض ہوتا ہے جو لاعلاج ہے اور ہمیشہ لاعلاج رہے گا چاہے انسان چاند، ستاروں، سورج حتیٰ کہ پوری کائنات کی ہر شے کو مسخر کرلے کیونکہ ہرلحظہ بدلتی دنیا اور ہر لمحہ رنگ بدلتی زندگی میں اگرچہ بقول اقبال”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“ لیکن پھر بھی اس بے ثبات دنیا میں کچھ حقیقتیں ابدی ہیں، دراصل وہ ابدی حقیقتیں منشائے الٰہی ہیں مثلاً زندگی و موت، عروج و زوال، بہار اور خزاں، طلوع و غروب وغیرہ۔ گویا جو چیزیں منشائے الٰہی ہیں وہ ابدی اور مستقل ہیں اور جو چیزیں منشائے انسان ہیں وہ عارضی اور تغیر پذیر ہیں سوائے نیکی کے۔ کچھ لوگ نیکی کے ساتھ بدی کا اضافہ بھی کرتے ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ نیکی بدی کو کھا جاتی ہے گویا بدی بھی عارضی شے ہے جسے نیکی سے دھویا جاسکتا ہے اور نیکی ایک ایسی ابدی شے ہے جو اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں زندہ رہتی اور ساتھ دیتی ہے۔ دراصل یہ بھی منشائے الٰہی ہی ہے کہ نیکی اول و آخر زندہ رہنے والی ہے، اگر یہ منشائے انسان ہوتی تو عارضی ہوتی۔
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
 

No comments:

Post a Comment