Saturday 19 May 2012

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا. December 10, 2011


ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ بیماری سے جسم کی زکوٰة نکلتی ہے۔ میں ہمیشہ اپنے رب سے دعا مانگتا رہا ہوں کہ بس بیماری زکوٰة کی حد تک ہی رہے یعنی ڈھائی فیصد تک کیونکہ اگر جسم سے زیادہ زکوٰة نکل جائے تو پھر نہ جانے کیا ہو۔ حضرت عمر کا قول ہے کہ موت کو ہمیشہ یاد کرتے رہو لیکن موت کی آرزو کبھی نہ کرو۔ حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ہسپتال میں ہیں تو میں ان کی صحت یابی کے لئے دعا کرتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب ہمارا قومی اثاثہ اور ہمارا پرائیڈ یعنی قومی افتخار ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے۔ شاید اب وہ ہسپتال سے گھر واپس آ چکے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ جسمانی زکوة ادا کر کے جسم کو پاک صاف کر چکے ہیں۔ ایک یہ بیماری ہے کہ چپکے سے آتی اور چپکے سے چلی جاتی ہے اور دوسری طرف وہ بیماری ہے کہ آتی ہے تو افواہوں کی آندھی چلا دیتی ہے، سٹے بازوں کو متحرک کر دیتی ہے اور ہر محفل میں موضوع بحث بن جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل میاں محمد نواز شریف صاحب اچانک بیمار ہوئے اور لندن ہسپتال میں سرجری کے بعد مزید جوان ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ نہ کسی افواہ نے جنم لیا نہ ہی اندیشوں کے جھکڑ چلے۔ سکول کی کتابوں میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ سکندر اعظم آندھی کی طرح آیا اور بگولے کی مانند واپس چلا گیا۔ بالکل اسی طرح میاں شہباز شریف علاج کے لئے لندن آندھی کی مانند جاتے ہیں اور بگولے کی مانند واپس آ جاتے ہیں۔ وہ جہاں سرکاری میٹنگوں کو چھوڑ جاتے ہیں وہاں سے آ کر دھاگہ پھر پکڑ لیتے ہیں لیکن نہ جانے اس میں کیا راز ہے کہ ہمارے صدر صاحب بیمار ہوئے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے بھونچال آ گیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہر کوئی ان کی بیماری کو اپنی اپنی پسند کے معانی پہنا رہا ہے۔ ایسا بیمار ہونے سے تو بیمار نہ ہونا ہی بہتر ہے کہ لوگ جسمانی بیماری کو سیاسی رنگ دینے لگیں اور صحت یابی کی دعاؤں کے ساتھ سیاسی پیشن گوئیاں کرنے لگیں۔ صدر صاحب ہماری فیڈریشن کی علامت ہیں اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں اگرچہ ان کے اپنے اثاثے بھی ماشاء اللہ نہایت قیمتی ہیں۔ گوگل تو ماشاء اللہ انہیں پاکستان کا دوسرا امیر ترین شخص قرار دیتا ہے اور اس کا اندازہ ہے کہ نظر بد دور ماشاء اللہ صدر صاحب کے اثاثے کم سے کم دو تین ارب ڈالر کے ہیں۔ بہرحال ان باتوں سے قطع نظر صدر صاحب ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور ہم برا وقت آنے پر ان سے ایک دو ارب ڈالر ادھار بھی لے سکتے ہیں اگرچہ ان کے مخالف بضد ہیں کہ وہ کبھی بھی ایک دھیلا یعنی پنس بھی نہیں دیں گے چاہے اس کے لئے انہیں بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے کیونکہ انہوں نے یہ اثاثے دن رات محنت کر کے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کمائے ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر مجھ جیسا کند ذہن قلمکار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ صدر صاحب کی بیماری اور اچانک دبئی رخصتی نے انہیں افواہوں کا نشانہ کیوں بنا دیا ہے۔ لوگ بیمار ہوتے رہتے ہیں اور پھر ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان کا مالی معالج ڈاکٹر رحمان ملک یوں بار بار یہ کہہ کر جیالوں کو تسلی دے رہا ہے کہ صدر صاحب بچوں کے اصرار پر دبئی گئے ہیں گویا ان کی بیماری کا علاج پاکستان میں ناممکن تھا۔ اگر ڈاکٹر رحمان ملک صحیح تشخیص کر رہے ہیں تو پھر ان کا جانشین اور واحد نرینہ اولاد عزیزی بلاول بھٹو کیوں ٹوپی پہنے اور چادر اوڑھے اسلام آباد میں گھوم رہا ہے اور وزیراعظم سے بریفنگ لے رہا ہے۔ ایسے وقت میں تو بیٹا باپ کی خدمت میں موجود رہتا ہے۔ امیر اور رئیس باپوں کے بیٹے تو بیماری میں خدمت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے ایک امیر ترین آدمی کے بیٹے کو باپ کی شدید بیماری اور تکلیف کے دوران سادہ چیکوں پر دستخط کرواتے دیکھا تو مجھے شدید احساس ہوا کہ مال کتنا بڑا فتنہ ہے اور مال سے وفا کے تقاضے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔ عزیزم بلاول کہ مجھے بہت عزیز ہے نہ جانے کیوں آکسفورڈ کالج سے چھٹی لے کر آ گیا ہے حالانکہ یہ دن نہایت اہم ہوتے ہیں، ان دنوں امتحانات بھی ہوتے ہیں اور پھر کرسمس کی لمبی چھٹی ملتی ہے۔ نہ جانے اسے بلایا گیا ہے یا خود ہی والد گرامی کو دبئی جانے کا مشورہ دے کر آپ اسلام آباد میں لینڈ کر گیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بلاول بہت پیارا لگتا ہے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی اولاد ہیں اس کی شکل سب سے زیادہ اپنی ماں سے ملتی ہے۔ مجھے جیالوں کا وہ نعرہ یاد آ رہا ہے بھٹو کی تصویر بے نظیر بے نظیر اسی طرح اب بے نظیر کی تصویر بلاول ہے۔ وزن کو ذہن میں رکھوں تو تصویر کا تقریباً ہم وزن لفظ وزیر ہے لیکن میں بلاول کو وزیر نہیں بلکہ وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جس آسانی سے جیالوں نے بھٹو کی تصویر۔ بے نظیر کا نعرہ ایجاد کر لیا تھا اب اس آسانی سے وہ بلاول کا نعرہ ایجاد نہیں کر سکیں گے اس لئے اب انہیں یہ نعرہ لگانے کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ بلاول زرداری سب پہ بھاری۔ بلاول زرداری۔ قسمت ہماری۔
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ بات کے اسی سفر میں مجھے یہ ہمہ وقت ایک خیال ستاتا رہا کہ پاکستان کی تاریخ میں وعدہ معاف گواہان اور بے وفاؤں کا ذکر اس قدر ہے کہ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ جن پر تکیہ کرتے ہیں مشکل وقت آنے پر وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر ہماری تاریخ بے وفاؤں اور وعدہ معاف گواہوں کو بے نقاب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ فی الحال اس موضوع کو التواء میں رہنے دیتے ہیں کیونکہ جب چاند نکلے گا تو سبھی دیکھیں گے۔ فی الحال تو سوچنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ ہمارے صدر صاحب کی بیماری نے افواہوں اور اندیشوں کا روپ دھار کر آندھی بن جاتی ہے۔ صدر صاحب نے فوجی ہسپتال برائے امراض قلب میں معائنہ کرایا لیکن ان کے میڈیا منیجر نے اس کی تردید کر کے جھوٹ بولا۔ اس سے شک اور سوالات کا سلسلہ چل نکلا۔ ویسے بھی معمولی مرض کے لئے ملک کے ماہرین پر بداعتمادی کر کے باہر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل یہ سب کچھ اوپر تلے ہونے والی تین چار وارداتوں کا کیا دھرا ہے۔ اول تو این آر او پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر صدر صاحب کو مشکل میں ڈال دیا۔ پھر میمو گیٹ کے سیکنڈل نے ان کے لئے بے پناہ خطرات پیدا کر دیئے حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں آئین کی شق چھ کی بازگشت سنی گئی۔ ابھی اس خطرے کے سیکنڈل نے ان کے لئے بے پناہ خطرات پیدا کر دیئے حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں آئین کی شق چھ کی باز گشت سنی گئی۔ ابھی اس خطرے کی مٹی بیٹھی نہ تھی کہ اسامہ آپریشن کے حوالے سے یہ انکشاف پھٹ پڑا کہ صدر صاحب کو اس کا علم تھا۔ اس کی تصدیق خود ان کے وفا دار جیالے اور دوست واجد شمس الحسن ہائی کمشنر لندن نے کر دی۔ ظاہر ہے کہ ان تمام وارداتوں نے صدر صاحب کی نیند، چین اور سکون کو حرام کر دیا جس کا براہ راست اثر ان کے دل پر پڑا۔ صدر اوبامہ کے حوالے سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس صورتحال نے ان کی ذہنی کیفیت کو بھی متاثر کیا ہوا تھا۔ یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ اسامہ آپریشن اور میمو گیٹ سکینڈل نے فوج میں حد درجہ ناراضگی اور ردعمل پیدا کیا۔ اسی لئے تجزیاتی حلقوں میں جنرل وحید کاکڑ فارمولے کا ذکر کیا جا رہا تھا جس کے تحت صدر اور وزیراعظم کو خاموشی سے استعفے دینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اسی گرم حمام سے یہ افواہیں نکلیں اور ملک بھر میں پھیل گئیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں صفائی ہو گی پھر حالات سدھریں گے۔ لگتا ہے کہ رحمان ملک نے طالبان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے آج کل اثاثوں کا بھی بڑا چرچا ہے۔ کہیں صفائی کا موسم تو قریب نہیں آ رہا؟ 
 

No comments:

Post a Comment