Saturday 19 May 2012

دنیا ہے تیری منتظر، روزِ مکافات October 30, 2011


یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا جتنا ماتم بھی کیا جائے کم ہے۔ وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی جان کی ذرا بھی اہمیت اور قدر و قیمت نہیں۔ ابھی تک ہمارے حکمرانوں، افسرشاہی اور بالادست طبقوں کا عوام کے بارے میں وہی رویہ، اندازِ فکر اور خیال ہے جو برطانوی حکمرانوں کا تھا۔ پینسٹھ برس گزرے ہم نے آزادی حاصل کی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ اس آزادی، جمہوریت اور قوت ِ اظہار نے ہمارے بالادست طبقوں کے ذہن کو نہیں بدلے۔ چنانچہ آج بھی عوام کو کمتر اور کیڑے مکوڑے سمجھا جاتا ہے اور حکومتیں اپنے گڈ گورننس کے دعوؤں کے باوجود شہریوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے تیارنہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں عوامی مشکلات کا احساس تک نہیں۔ ایک ریلوے پنشنر پنشن لینے کے لئے بنک کے گیٹ کے سامنے اللہ کو پیارا ہو گیا، وہ چار ہزار پنشن تو نہ لے سکا البتہ حکومت نے اپنی غفلت مٹانے کے لئے مرحوم کے خاندان کو پانچ لاکھ روپے کا چیک دے دیا۔ کیا یہ چیک انسانی زندگی کا نعم البدل ہے؟ دراصل ہماری حکومتیں انسانی جانوں کو روپوں میں تولنے کی عادی ہیں اور انہوں نے سستا نسخہ ایجاد کر رکھا ہے کہ نظام کو بہتر بنانے کی بجائے اور اپنی کمزوریوں کا علاج کرنے کی بجائے مرنے والوں کے خاندانوں کا سرکاری رقم سے منہ بند کردو۔ اصولی طور پر اگر حکومت اور ریلوے بیوروکریسی کو انسانی تکلیف کا ذرا بھی خیال ہوتا تو پنشنروں کے لئے نہات آسان طریقہ وضع کیاجاسکتا تھا لیکن یہاں صورت یہ ہے کہ میڈیا کئی روز تک خواتین اور مرد پنشنروں کی لمبی لمبی قطاریں دکھاتا رہا اور یہ بتاتا رہا کہ ان کی بڑی تعداد رات کوسوتی بھی وہاں ہے لیکن عوامی مسائل کادردرکھنے والی حکومت اور بیوروکریسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سوال ایک حادثے کانہیں سوال رویئے، سوچ اور انداز کاہے جس کا جتنا بھی ماتم کریں کم ہے۔ تیونس میں ایک گریجوایٹ ریڑھی فروش کی موت نے انقلاب برپا کردیا لیکن ہماری مقتدر پارلیمینٹ کے سامنے ایک نوجوان کئی روز احتجاج کرنے کے بعد خودسوزی کرکے مر گیا لیکن مجال ہے کہ عوامی سطح پر کہیں احتجاج ہوا ہو۔ پنجاب میں گڈگورننس کا بڑا شور اور ”رولا“ ہے لیکن کوئی دن نہیں گزرتا کہ پنجاب پولیس چھوٹے چھوٹے جرائم میں بے اثر اور غریب نوجوانوں کو ٹارچر کرکے ہلاک نہ کردیتی ہو۔ اب تو بے لگام پولیس اس قدر آگے جاچکی ہے کہ چندروز قبل ایک پولیس اہلکار نے معصوم بچوں کی ایک ماں کو صرف اس لئے گولی ماردی کہ وہ اس سے ناجائز تعلقات استوار کرنے سے انکاری تھی۔ پولیس والے اپنے پیٹی بھرا کو گرفتار کرنے کی بجائے مقتولہ کے خاندان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ بنیادی وجہ فقط یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ عزت و جان کی محافظ ہے لیکن خبریں بتاتی ہیں کہ اکثر وارداتوں میں خود پولیس والے ملوث ہوتے ہیں۔ خبریں یہ بھی بتاتی ہیں کہ پولیس مظلوم کا ساتھ نہیں دیتی حتیٰ کہ ظلم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لئے بھی رشوت مانگتی ہے۔ رشوت کے اس نظام میں بے وسیلہ اور غریب مارا جاتا ہے اور بااثر دولت مند سب کچھ کرکے چھوٹ جاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی سیاست، نعرے بازی ، تصویر بازی اور انقلابی نظمیں سنانے سے فرصت نہیں کہ وہ پولیس نظام کی بہتری کے بارے سوچ سکیں یا پھر ان کے پاس اس کی اہلیت اور ویژن ہو۔ پنجاب میں پولیس کو بہتر بنانے کے لئے تنخواہوں میں اضافہ کیاگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خزانہ بھی بھوکا ہوگیا اور پولیس پر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ گھاٹے میں کون رہا؟ عوام… سردمہری کا عالم یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہر روز ظلم کی داستانیں پڑھتے اورسنتے ہیں لیکن ان کے لئے یہ معمول کی بات بن چکی ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں کسی وجہ سے بھی انسانی جان تلف ہوجائے تو حکومت کو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ امریکہ صرف اس لئے پاکستان کی طنابیں کھینچ رہا ہے کہ اسے محض شک ہے کہ حقانی گروپ نے پاکستان کی ملی بھگت سے کابل میں امریکی سفارتخانے پرحملہ کیا تھا۔ افغانستان میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد دو تین سوبتائی جاتی ہے اور امریکہ باربار یہ اعلان کرچکا ہے کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردوں نے حملہ کرکے امریکی فوجی مارے تو و ہ بدترین انتقام لے گا۔ ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم تین ہزار سے زیادہ فوجی اور سرکاری اہلکار اور تیس ہزار سے زیادہ شہری مروا کر بھی دہشت گرد سمجھے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ ہم نے خود امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے شہریوں کے جان و مال کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ ہمارے حکمرانوں اوربالادست طبقوں کے لئے پاکستانی شہری محض کیڑے مکوڑے ہیں۔ وہ مریں یا سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے ذلیل ہوں ہمارے حکمرانوں کو رتی بھر بھی پرواہ نہیں۔ انسانی عزت اور وقت کاہم کتنااحترام کرتے ہیں اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو کسی سرکاری محکمے سے کام پڑے۔ کوئی اجازت نامہ لینا ہو یا قانونی تقاضا پورا کرنا ہو نہ صرف بے پناہ وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ عزت ِ نفس کوبھی روندا جاتا ہے۔ سرکاری طریقہ کار کو آسان اور سہل بنانا ہمارے حکمرانوں کی ترجیح ہرگز نہیں کیونکہ انہیں شہریوں کے دکھ در د کا احساس ہی نہیں۔
کسی زمانے میں، میں لوگوں کوبجلی فون کے بل اداکرنے کے لئے شام تک بنکوں کے سامنے قطاریں بناتے دیکھتا تھا تو افسوس ہوتا تھا بالاخر حکومت کو ترس آیا تو حکومت نے تقریباً سارے بنکوں کو بل وصول کرنے کی اجازت دے کر آسانی پیدا کردی لیکن بعض شعبوں میں اب بھی متروک اور پرانا طریقہ رائج ہے جو لوگوں کے لئے باعث تکلیف ہے لیکن حکومت آسانی پیدا کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ چند روز قبل میں انکم ٹیکس ادا کرنے کے لئے ڈھائی لاکھ روپے ہاتھ میں پکڑے بنک کی لمبی قطارمیں کھڑا تھا کہ گھٹنے نے درد کی لہریں پیدا کرنا شروع کردیں اور میں سوچنے لگا کہ ایک طرف یہ رونا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور دوسری طرف یہ رونا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہو۔ میں گھٹنے کو سہلا رہا تھا کہ پیچھے سے قطار میں کھڑے ایک واقف کار کی آواز آئی۔ ”ڈاکٹر صاحب! ایف بی آر کے چیئرین سلیمان صدیق کوفون کریں کہ وہ ڈیفنس کی لاکھوں کی آبادی میں نیشنل بنک کی صرف دوبرانچوں کو ٹیکس وصولی کی اجازت کی بجائے سارے بنکوں کو اجازت دیں ورنہ اسی طرح گھنٹوں برباد ہوتے رہیں گے اور گھٹنے درد سے کراہتے رہیں گے۔“
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا بات مسکراہٹوں میں اڑ گئی۔ چندماہ قبل کارکا ٹوکن ٹیکس دینا تھا تو ڈاکخانے کی طویل قطار دیکھ کر لوٹ آیا لیکن میں اس منظر سے محظوظ ہوا کہ ایک صاحب قطار میں نمازی کرسی پربیٹھے پنجاب کے حکمرانوں کو”دعائیں“ دے رہے تھے جن میں اتنی بھی عقل نہیں کہ کار ٹون اور ڈرائیونگ لائسنس ری نیول فیس وصول کرنے کی اجازت بنکوں کو بھی دے دیں یاکم سے کم پنجاب بنک کو دے دیں تاکہ ڈاکخانے کے سامنے لمبی قطاریں نہ لگیں۔ اسی جبر سے رشوت جنم لیتی ہے۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے ایک صاحب کو اپنی تین کاروں کے ٹوکن لگوانے کے لئے ایک ٹاؤٹ کو چھوٹی سی رشوت دیتے دیکھا پھروہاں ایک ہنگامہ بھی ہوتے دیکھا۔ میں پراپرٹی ٹیکس ادا کرتے ہوئے بھی اسی مصیبت سے گزرا۔ آج کل پنجاب ٹریفک پولیس کورنگ ر وڈ پرچالان کرنے کا شوق چرایا ہے۔ ڈرائیور چاہے جس آبادی کا بھی ہو اسے راوی روڈ کے بنک میں جرمانہ ادا کرنے کاحکم دیا جاتا ہے جہاں تین سوروپے جرمانہ ادا کرنے کا مطلب نصف دن ضائع کرنا ہے ورنہ رشوت دو۔ ہمارے حکمران انقلاب کے نعرے لگاتے اورعوام کے غم میں نڈھال ہوجاتے ہیں لیکن ان کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کرتے جونہایت آسان کام ہے۔ وجہ اور بنیادی وجہ فقط یہ ہے کہ حکمرانوں، بیوروکریسی اور بالادست طبقوں کو عوام کی پرواہ ہی نہیں اور وہ انہیں محض زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ان کا مائنڈ سیٹ، رویہ اوراندازِ فکر وہی ہے جو انگریز حکمرانوں کا تھا۔ دیکھ لیں ان کے محلات کا خرچہ کروڑوں میں ہے،ان کا انداز ِ زندگی مغل بادشاہوں کی یاد دلاتا ہے اور ان کا سڑک پر آنا عوام پر غضب ڈھاتا ہے پھربھی ہم اُن سے عوامی مسائل کے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کتنے سادہ، بھولے اور کم فہم ہیں ہم…!!!


No comments:

Post a Comment