Sunday 20 May 2012

ناشکرے! April 07, 2012


شیوسینا بھارت کی انتہاپسند تنظیم ہے اور اس کے سربراہ بال ٹھاکرے مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی میں تمام حدود کو عبور کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت آپ کو یادہوگی۔ بال ٹھاکرے نے آج صدر زرداری کو ”محبت بھرا“ پیغام دیاتو مجھے اپنی تاریخ کے چند اوراق یادآگئے۔ بال ٹھاکرے نے صدر زرداری سے ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اجمیر شریف درگاہ پر حاضری کے ارادے پر نظرثانی کریں کیونکہ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے بھی اجمیرشریف کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہیں نہ صرف اقتدارچھوڑنا پڑا بلکہ ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ شاید ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اجمیرشریف والے ہر جھولی میں محبت کے پھول نہیں ڈالتے یا پھر بال ٹھاکرے کا مقصد ”طنز“ بھی ہوسکتا ہے لیکن مجھے بال ٹھاکرے کا بیان پڑھ کر ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا۔ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ کوئی ہزار سال قبل ہندوستان کامہاراجہ اور طاقتور ترین بادشاہ پرتھوی راج ہوا کرتا تھا جس کے ماتحت بہت سے ہندو راجے اور حکمران پائے جاتے تھے۔ 1190 ء میں پرتھوی راج اور شہاب الدین غوری کے درمیان جنگ ہوئی تو شہاب الدین غوری شکست کھا گئے۔ پرتھوی راج مزید مغرور اور طاقتور ہوگیا۔ اسے پتہ چلا کہ اس کی راجدھانی میں اجمیر کے مقام پر ایک مسلمان فقیر ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے جس کی مقبولیت اورزائرین میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ لوگ اس سے متاثر ہو کر مذہب بھی بدل رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے حضرت معین الدین چشتی  کو پیغام بھیجا کہ وہ اس کی راجدھانی سے نکل جائیں۔ حضرت  کو جب یہ حکم پہنچایا گیا تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اسے کہو اپنی فکر کرے، ہم تو انشاء اللہ یہیں رہیں گے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد 1192 ء میں شہاب الدین غوری دوبارہ حملہ آور ہوا، جنگ ترائن یا جنگ تھانیسر کا معرکہ برپا ہوا اور پرتھوی راج چوہان شکست کھا کر بھاگا مگراسے پکڑ کر اس کاسر تن سے جداکردیا گیا۔
مقصدبال ٹھاکرے کے بیان کا آپ کو اجمیرشریف کے حوالے سے ایک واقعہ سنانا تھا جو تاریخ فرشتہ میں درج ہے اور تاریخ فرشتہ ایک مستند کتاب ہے۔ ہمارے روشن خیال، سیکولر اور نیم لادین دانشورکہتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے تاریخ اپنی مرضی اور پسند سے لکھوائی اور وہ اس کرامت پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حضرت معین الدین چشتی  جیسے اولیا اللہ کو یہ واقعہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ وہ بادشاہ نہیں تھے صرف دلوں پر بادشاہی کرتے تھے اور پھر یہ کہ تاریخ فرشتہ بہت بعد میں لکھی گئی جبکہ غوری اقتدار قطب الدین ایبک کو سونپ کر چلاگیا تھا۔ دین بیزار ان روشن خیال دانشوروں کامیڈیا میں خاصا اثر و رسوخ ہے چنانچہ وہ طریقے طریقے سے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتے رہتے ہیں کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی کیا ضرورت تھی۔ مسلمان تقسیم نہ ہوتے تو ہندوستان میں ایک بڑی قوت ہوتے اوریہ کہ ہندوستان نے بہت ترقی کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے اکثریت کو تو یہ چبھن ہے کہ پاکستان میں کھل کھیلنے، پینے پلانے اور ایسی ہی دوسری لذتوں کی آزادی نہیں اور انہیں یہ کام چھپ چھپا کر کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان عناصر کے پس پردہ وہ بھاری رقمیں بولتی ہیں جو انہیں پاکستانیت کی بنیادیں کمزور کرنے کے لئے ملتی ہیں۔ ایک تجربہ کار ایڈیٹر کاکہنا ہے کہ کیری لوگر بل کے تحت 12ملین ڈالرز کی رقم میڈیا کے لئے مختص کی گئی تھی جومیڈیا میں تقسیم ہوئی ہے۔ بہرحال میں دانشوروں کو دیکھتا اور سنتا ہوں توسوچنے لگتا ہوں کہ یہ سارے حضرات پاکستان میں شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ہر ایک کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے لیکن اس کے باوجود یہ ناشکرے اللہ سبحانہ  وتعالیٰ اور قائداعظم کا شکریہ ادا نہیں کرتے اور یہ نہیں سوچتے کہ انہیں پاکستان کی شکل میں کتنی بڑی نعمت عطا ہوئی ہے۔ ہندوستان میں وہ زیادہ سے زیادہ کلرک اور کاپی جوڑنے والے ہوتے جبکہ پاکستان نے انہیں شہرت ، عزت اور دولت کے پہاڑ پر بٹھارکھا ہے۔ یہ ناشکرے پھر بھی قیام پاکستان کے مخالف ہیں، تقسیم کی سرحدوں کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کاخواب دیکھتے ہیں۔
ہمارے اکثر اینکرپرسن ، تجزیہ نگار اور دانشور بلاتحقیق فرماتے رہتے ہیں کہ پاکستان سے زیادہ مسلمان تو ہندوستان میں رہتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں لیکن میں نے کل جو اپنی تسلی کے لئے گوگل کی سیر کی اور ہندوستان کی 2011 کی مردم شماری کی تفصیل دیکھی تو راز کھلا کہ ہندوستان کی آبادی ایک ارب اکیس کروڑ ہے جس میں مسلمان 13.4فیصد ، ہندو 80 فیصد ہیں باقی سکھ عیسائی وغیرہ ہیں۔ اس حساب سے ہندوؤں کی آبادی 96کروڑ سے زیادہ اور مسلمانوں کی آبادی 16 کروڑ سے کم بنتی ہے جبکہ پاکستان میں اندازے کے مطابق 20,19 کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ ذرا 65 برس بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی ملاحظہ فرمایئے۔ مسلمانوں کو ہندوستانی بیوروکریسی میں صرف دو فیصد حصہ ملا ہے جس میں 1.5(ڈیڑھ فیصد) کلرک ہیں۔ فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی دو فیصد ہے، تقریباً 95 فیصدمسلمان غربت کے خط سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ساٹھ فیصد کے پاس کوئی زمین نہیں، امتیازی سلوک کی بنا پر دیہاتی علاقوں میں صرف 3.2 فیصد مسلمانوں کو قرضہ اور سہولت ملتی ہے اور صرف دو فیصد کے پاس ٹریکٹر ہیں۔ صرف ساڑھے تین فیصد مسلمان گریجوایٹ ہیں، 54.6 فیصد دیہاتوں او رساٹھ فیصد شہروں میں رہنے والے مسلمان بچوں نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ حکومت کی مقرر کردہ سچر کمیٹی کے مطابق مسلمان اکثریتی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی شدید قلت ہے۔ میں محض نمونے کے طور پر کچھ اعداد و شمار لکھ رہا ہوں ورنہ ہندوستان میں مسلمان جس طرح ہندو اکثریت کی چکی میں پس رہے ہیں وہ نہایت دردناک اور قابل رحم کہانی ہے۔ ان ناشکروں کو علم ہونا چاہئے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو پچاس کروڑ مسلمانوں کا بھی یہی حشر اور انجام ہونا تھا۔ آج تم آزادی سے مالامال اپنے وطن میں اپنے مقدر کے مالک ہو اور زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کرو اور قائداعظم کو دعائیں دو۔ بقول اقبال
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
نوٹ…آخر میں مجھے مخیر اور دردمند حضرات کی توجہ دلانی ہے۔ مظفرگڑھ میں غوثیہ گرلز کالج میں 150 یتیم اور غریب بچوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم مفت دی جارہی ہے۔ کھانا، رہائش، یونیفارم ، کتابیں اور علاج سب مفت ہے۔ کراچی سے حاجی رزاق ان کاخرچ برداشت کرتے تھے جو وفات پا چکے۔ ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔ جو حضرات اس کارخیر میں شریک ہونا چاہیں وہ کالج کے پرنسپل طارق چشتی سے ان نمبروں پر رابطہ کریں۔            0345-5491104      اور             0300-3312052      
 

No comments:

Post a Comment