Saturday 19 May 2012

کل اور آج. November 16, 2011


یہ آپ سے کس نے کہہ دیا ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب ممکن نہیں۔ احتساب ہوسکتا ہے اور صرف ایک ماہ میں ہو سکتا ہے۔ مسئلہ نیت اور ارادے کا ہے۔ میں نے ملک میں پھیلے ہوئے کرپشن کے ناسور پر ذرا سا نشتر لگایا توبہت سے مہربانوں نے سرد آہیں بھر کر کہا تمہارا درد ِ دل سمجھ میں آتاہے لیکن احتساب ایک طویل عمل ہے اور اتنا عرصہ ہماری حکومتوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ میری گزارش فقط اتنی سی ہے کہ جتنا عرصہ جنرل پرویز مشرف کو ملا اتنا وقت تو کسی امریکی صدر کو بھی نہیں ملا۔ مسئلہ وقت یا طوالت کا نہیں، مسئلہ نیت اور ارادے کا ہے۔ کل ہی دو نوجوان مجھے ”سر سر“ بھی کہہ رہے تھے اور الجھ بھی رہے تھے اور میں ان کی گفتگو سے محسوس کر رہا تھا کہ وہ گومگو ، شش و پنج اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ان کاالجھنا اور کندھے اچکنا غصے کی نشانی تھی اور ان کے سواات میں غیریقینی ان کے شش و پنج کا راز فاش کرتی تھی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں مجھے لاتعداد نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کا غصہ ملک سے مایوسی کا ردعمل ہے کیونکہ انہیں یہاں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اور وہ حکومت اورسیاستدانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں چھوٹا سا طبقہ ملک سے باہر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ وہ بیرون ملک جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جبکہ اکثریت کے پاس یہ آپشن موجود نہیں ہے چنانچہ وہ ملک کے حالات بدلنے کے لئے میدان میں اترنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ غصے کی آگ میں بھی سلگ رہے ہیں۔ میں انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی جوانی کا زمانہ یاد آتا ہے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سال تھے۔ نوجوان ایوب خان کی آمریت، کنبہ پروری، دولت کے بائیس خاندانوں میں ارتکاز اور پابندیوں سے تنگ آچکے تھے اور وہ روشنی کی تلاش میں تھے۔ایسے میں بھٹو نے آستینیں چڑھا کر ایوبی آمریت کو للکارا تو نوجوانوں نے اسے روشنی کی کرن سمجھ کر کندھوں پر اٹھا لیا۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے شاہراہ ِ قائداعظم لاہور پر ایسے ایسے مناظر دیکھے جوبغاوت، غصے اور تبدیلی کی خواہش کے قطب مینار تھے۔ شاہراہ ِ قائداعظم پر ہی میں نے نوجوانوں کوبھٹو کو کندھوں پر اٹھائے دیوانہ وار نعرے لگاتے دیکھا اور اسی سڑک پر میں نے نوجوانوں کو بھٹو کی کار کے بونٹ پر چڑھ کر ناچتے، باغیانہ نعرے لگاتے اور ایوبی آمریت کو للکارتے دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب آگ پھیلی اور بے چینی کی وبا گورنمنٹ کالج لاہور پہنچی توہمارے گرم خون نے بھی جوش مارا۔ ہم کئی دنوں تک جلوس نکالتے اورپولیس کی لاٹھیاں کھاتے رہے۔ فیروز سنز شاہراہ ِ قائداعظم لاہور کے سامنے جلوس کے ہراول دستے پر لاٹھی چارج کیاگیا کیونکہ یہ جلوس گورنر ہاؤس تک جانا چاہتا تھا تو ایک عدد لاٹھی میری کمر پربھی لگی جو کئی روز تک درد کی لہر یں چھوڑتی رہی۔ ہمارے اس جلوس میں احتجاج کی بلند آواز معروف کمیونسٹ لیڈر اور لکھار ی طارق علی خان کی تھی جو گزشتہ چار دہائیوں سے لندن میں مقیم ہے، بہت سی کتابوں کا مصنف ہے اور مغرب میں اپنا نام معتبر لکھاریوں کی فہرست میں لکھوا چکاہے۔ برسبیل تذکرہ 1963کے گورنمنٹ کالج لاہور کے کانووکیشن میں اردو کے بہترین رائٹر (لکھاری) کا انعام مجھے ملا تھا اور بہترین انگریزی رائٹر کا انعام طارق علی خان کو ملا تھا۔ وہ سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ جب انعام کے لئے اس کا نام پکارا گیا تو اس نے میرے کانوں میں سرگوشی کی ”صفدر! یقین رکھو میں طلبہ کو مشتعل نہیں کر رہا“ اس کاپس منظر یہ تھا کہ میں اکثر اسے کہتا تھا کہ وہ طلبہ کو اشتعال دلاتا ہے۔ طارق علی خان پکا کمیونسٹ تھا۔ ایجی ٹیشن کا دلدادہ اور اشتعال انگیز ہتھکنڈوں کا فن جانتا تھا۔ بات دور نکل گئی۔ لوگ جب سیاسی حوالے سے موجودہ نسل کے غصے، بدتمیزی اور دھمکی آمیز رویئے کی بات کرتے ہیں تومجھے ایوبی آمریت اور ساٹھ کی دہائی کے وہ آخری سال یاد آتے ہیں جب نوجوانوں کی اکثریت انقلاب کے معانی سمجھے بغیر انقلاب کا خواب آنکھوں میں سجائے کسی انقلابی کی تلاش میں سڑکوں پر پھرتے اور جبیب جالب کی باغیانہ نظمیں اور اشعار لاہور کی خاموش اور اداس عمارتوں کو یوں سناتے تھے جیسے وہ ان کے دلوں کی دھڑکنیں سمجھتی ہوں اور ان کی رازداں ہوں۔ انہی دنوں حبیب جالب کی یہ نظم اتنی مقبول ہوئی تھی کہ ہر نوجوان کے لبوں پر تڑپتی تھی۔
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
گزشتہ دنوں یہی اشعار میں نے خادم اعلیٰ پنجاب کو اپنے لاہور کے جلسے میں لہک لہک کر پڑھتے سنا تو مجھے اپنے کالج کا زمانہ یاد آگیا جب ہم رات کی شدید خاموشی کو ان اشعار سے توڑ ا کرتے تھے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتے تھے جیسے ہم ایوبی آمریت کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔ محترم میاں شہباز شریف کی زبانی یہ اشعار سنے تو راز کھلا کہ ماشاء اللہ میاں صاحبان کی آواز رسیلی ہے، وہ گانے کا جادو جگا سکتے ہیں اور جاگتی آنکھوں کو سلا سکتے ہیں۔ رسیلی اور مدھر آواز کا یہ اعجاز اور جادو ہوتا ہے کہ وہ نیند کا غلبہ طاری کردیتی ہے جبکہ ہم اپنی نوجوانی کے گرم دور میں انہی اشعار کو اس قدر بھونڈی اورپھٹی ہوئی آواز میں پڑھتے تھے کہ سوئے ہوئے بھی جاگ جاتے تھے، مردہ دل بھی دھڑکنے لگتے تھے اور کتے بھی بھونکنے لگتے تھے۔ میں جس دور کی بات کر رہا ہوں اس زمانے میں خادم اعلیٰ سکول کے طالب علم رہے ہوں گے کیونکہ میں جب ایم اے کرنے کے فوراً بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار تعینات ہوا تو انہوں نے وہاں گیارہویں جماعت میں داخلہ لے کر کالج کینٹین کی رونق میں اضافہ کیا تھا۔ ان کی نہایت خوش قسمتی کہ وہ میرے شاگرد ہونے سے بال بال بچ گئے اور میں بھی دو سال کے بعد گورنمنٹ کالج چھوڑ کر سی ایس ایس کے لئے رحلت فرما گیا۔ اسے میں میاں صاحب کی خوش قسمتی کیوں سمجھتا ہوں؟ عرصہ ہوا ملک کے سینئر تجزیہ نگار جناب نجم سیٹھی سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کالج میں مجھ سے چندبرس جونیئر تھے۔ میں جب لیکچرار بنا تو وہ بی اے کے طالب علم تھے۔ میں نے گفتگو کے دوران ان سے گلہ کیا کہ آپ لیکچرار رومز میں میرے پڑوس والے کمرے میں پروفیسر جوجو کے پاس ہر وقت پائے جاتے تھے۔ جہاں خالد احمد لیکچرار انگلش بھی ہوتا تھا لیکن اس سے دو کمرے آگے میرے کمرے میں نہیں آتے تھے۔ نجم سیٹھی کا جواب وہی تھا جو ہر رئیس گھرانے کے چشم و چراغ کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! اول تو وہاں خوبصورت لڑکیا ں ہوتی تھیں۔ دوم میں آپ کے پاس آتا تو آپ میری برین واشنگ کردیتے۔ میں نے جواباً قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں آپ کی برین واشنگ ہرگز نہیں کرسکتا تھا کیونکہ آپ پہلے ہی برین واشنگ کروا چکے تھے۔ چنانچہ میں میاں شہباز شریف کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ میرا شاگرد ہونے سے بال بال بچے البتہ انہیں عوامی جلسے کی لہر پر سوار حبیب جالب کے اشعار پڑھتے ہوئے دیکھ کر مجھے سرگودھا کا ایک مشاعرہ یاد آگیا۔ محترم غلام رسول شوق شاعر بھی تھے اور تھوڑے صوفی بھی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ کسی بات کی بھی داد زور سے ”حق“ کہہ کر دیتے تھے۔ مشاعرے کے سٹیج پرفرشی نشست پر بیٹھے وہ شعروں کی داد زور سے حق حق کا نعرہ لگا کر دے رہے تھے۔ وہاں الطاف مشہدی بھی تشریف فرما تھے جو قدرے مدہوشی کے عالم میں تھے۔ ایک شعر پرشوق صاحب نے زور سے حق حق کہا تو مشہدی صاحب نے بھی ہلکے سے حق کہہ دیا۔ شوق صاحب غصے میں آگئے۔ اٹھے اور اپنے جوتے سے مشہدی صاحب کی مرمت کرتے ہوئے گرجنے لگے میرے حق اور تمہارے حق میں بڑا فرق ہے تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟
اس موضوع پر تو پھر لکھوں گا کہ احتساب کیونکر ممکن ہے فی الحال غصے سے بھرے اور انقلاب کے دیوانے نوجوانوں نے سار کالم لوٹ لیاہے۔ ان نوجوانوں سے بزرگوں کو بدتمیزی، گالی گلوچ اور ہاتھا پائی کی شکایت ہے جبکہ ان نوجوانوں کوبزرگوں سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے ہمیں کرپشن سے چور، غربت اور مہنگائی سے ”معمور“ اور بیروزگاری، بدنامی اور بے انصافی سے ”مغمور“ پاکستان دیا ہے۔ چند روز قبل یوم اقبال کے حوالے سے ایک فنکشن میں مجھے نوجوانوں نے گھیر لیا۔ ایک نوجوان نے پوچھا ”آپ نے لکھا تھا کہ بھٹو نوجوانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اور تبدیلی کا وعدہ کرکے اقتدار میں آیا تھا لیکن اس نے قوم کو مایوس کیا۔ کیا عمران تبدیلی لائے گا؟ “ میں نے جواباً کہا کہ اس کا جواب تو طویل ہے لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ اگر وہ تبدیلی نہیں لائے گا، آپ کی توقعات پوری نہیں کرے گا تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا۔“ میرا جواب سن کر نوجوان فضا میں گھورنے لگے۔
 

No comments:

Post a Comment