Saturday 19 May 2012

ہم دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں؟ November 30, 2011


کیا خطہ ارضی پر اس وقت ہم سے زیادہ کوئی مظلوم قوم ہوگی؟ میں اس سوال پر غور کرتا ہوں اور دنیا کے نقشے پر نظر دوڑاتا ہوں تو یہی جواب ملتا ہے کہ ہم دنیا بھر میں سب سے زیادہ مظلوم اور بے بس قوم ہیں ۔فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود گزشتہ سات دہائیوں سے لڑ رہے ہیں، ایک طاقتور ملک اور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک نازک سی چند ہڈیوں پر مشتمل فلسطینی لڑکی سے یونیسکو میں تعارف ہوا تو اس نے بتایا کہ میں ڈالروں میں تنخواہ لے کر نہایت تنگ دستی اور عزلت میں گزارہ کرتی ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم اپنے وطن کی آزادی کے فنڈ میں بھجو اسکوں۔ کہنے لگی ہم پاکستانی بھائیوں کی حد درجہ عزت کرتے ہیں ۔پاکستان نے روز ِ اول ہی سے ہماری کھل کر حمایت کی ہے۔ ہم آپ کے احسان مند ہیں۔ میں بظاہر ایک کمزورسی لڑکی ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ اگر مجھے اسرائیلی گولی سے ہی شہادت ملنی ہے تو میں موت سے قبل دو چار اسرئیلی فوجیوں کے پتھروں سے منہ لہولہان کرکے اللہ کے پاس جاؤں۔
دوسری مظلوم قوم مقبوضہ کشمیر کے کشمیری ہیں جنہیں بھارت نے آزادی کے موجودہ دور میں بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے لیکن وہ روز ِ اول ہی سے ان زنجیروں کو توڑنے کے لئے جدوجہدکر رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اب تک ہندوستانی فوج ،پولیس اور ایجنسیاں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں، لاکھوں لاپتہ ہیں جن کے والدین نہ زندہ نہ مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے ظلم و ستم اور قتل و غارت کے باوجود کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک ِ آزادی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ اسے ہندوستان کی پوری طرح مسلح سات لاکھ فوج بھی دبا نہیں سکی اور نہ دبا سکے گی کیونکہ اگر جذبہ ٴ حریت کو دبایا جاسکتا تو ہندوستان آزاد ہوتا نہ پاکستان معرض وجود میں آتا۔ آزادی، حریت، قوم پرستی ، عزت نفس اور خودمختاری ایسے جذبے ہیں جنہیں دبایا جاسکتا ہے نہ پوری قوت سے کچلا جاسکتا ہے۔ مجھے انگلستان میں کتنے ہی کشمیری ڈاکٹر اور کارکن ملے جو اپنی آمدنی کا نصف کشمیر کی تحریک ِ آزادی کے لئے بطور ہدیہ بھجواتے ہیں اور جب بھی موقعہ ”پیدا“ ہوتا ہے جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کشمیر پر بنائی گئی فلمیں دیکھیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کس طرح کشمیری عورت ،مرد اور جوان ہاتھوں پرلہو کے چراغ جلا کر نکلتے ہیں اور استبدادی قوتوں سے ٹکراتے ہیں۔ غائب کئے گئے نوجوانوں کی ہزاروں میں تعداد اورگمنام قبروں کی لاکھوں میں تعداد بھی کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔ ایسے میں کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دینا یا اسے وراثت میں اگلی نسلو ں کے حوالے کردینے کی حکمت عملی آزادی کشمیر کے کاز سے غداری نہیں تو اور کیاہے؟ حریت پسند کشمیری شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہیں تو اور کیاہے؟ منزل اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اسے حاصل کرنے کی آرزو اور جدوجہدزندہ رہے۔ جب جدوجہد کو ملتوی کردیا جائے اور آرزو کو سردخانے میں ڈال دیا جائے تو منزل کا نشان خودبخود مٹ جاتا ہے۔ پاکستانی لیڈران جو کشمیر کے مسئلے کو سردخانے میں ڈالنے کی بات کرتے ہیں نہ تاریخ کا شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی کشمیریوں سے وفاداری کے سزاوار ہیں۔ ہندوستان سے تجارت کیجئے، تعلقات قائم رکھئے، بات چیت کا دروازہ کھلا رکھئے لیکن نہ اسے نہایت پسندیدہ قوم کا درجہ دیجئے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کودس سال کے لئے ملتوی کرنے کا اعلان کیجئے کہ اس سے پاکستان کا اصولی موقف وقت کی دھول میں دب کر رہ جائے گا۔ موقف پہ قائم رہیں گے تو نہ صرف کشمیریوں سے آپ کا قلبی رشتہ قائم رہے گا بلکہ آزادی کشمیر ایک منزل کے طور پر بھی زندہ رہے گی۔ دنیا بھر میں اختلاف کے باوجود تجارت جاری رہتی ہے اس لئے تجارت کو بہانہ بنا کر کشمیرکاز کی ”تجارت‘ ‘نہ کریں کیونکہ کاز نہایت اعلیٰ و ارفع شے ہوتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بہت تفصیل میں نہ جاؤں اور سطحی نظر سے مطالعہ کریں تو دنیا کے نقشے پر دو مظلوم قومیں نظر آتی ہیں۔ ایک فلسطینی دوسرے کشمیری لیکن اگر غور سے دیکھیں، حالات کا تجزیہ کریں اور موازنہ کریں تو مجھے پاکستانی قوم سب سے زیادہ مظلوم نظر آتی ہے۔ بھلا کیوں؟ کشمیری ہوں یا فلسطینی وہ کم وسائل اور کسمپرسی کے باوجود استبدادی، طاغوتی اور ظالم طاقتوں کا ڈٹ کا مقابلہ کر رہی ہیں جبکہ ہم مضبوط قوم، مضبوط ملک، مضبوط عسکری نظام، بہترین فوج اور ماڈرن ہتھیاروں کے باوجود چپ چاپ مزاحمت کئے بغیر اپنے نوجوانوں، جوانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو شہید کر وا رہے ہیں۔ 1998میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو قوم کو نہ صرف ذہنی، قلبی اور جذباتی تقویت ملی بلکہ قوم کو احساس تفاخر اور احساس افتخار بھی حاصل ہوا۔ ہم نے سمجھا کہ اب ہم ایٹمی قوتوں کے طاقتور کلب کا رکن بن گئے ہیں۔ اب دنیا ہمارا وزن محسوس کرے گی اور دشمن ہم سے خوفزدہ رہے گا۔ یہ درست کہ ایٹمی ہتھیار چلانے کے لئے بلکہ ڈرانے کے لئے ہوتے ہیں لیکن ان کا ایک اپنا خوف، اپنی ”ٹوہر“ اور اپنی شان ہوتی ہے۔ جس سے قوم کے حوصلے، جذبے اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہماری بے بسی، کمزوری او رغلامی کا ماتم کیجئے کہ ہم ہر روز امریکی اور نیٹو افواج کے مظالم کا نشانہ بنتے ہیں، چپ چاپ مزاحمت کئے بغیر لہو بہاتے اور شہادت کا لباس اوڑھ کر خاموشی سے قبروں میں چلے جاتے ہیں۔ ہم امریکہ سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اُف بھی نہیں کرتے اور جب ان کے ہیلی کاپٹرگولیاں برسانے آتے ہیں تو ہم جوابی گولی بھی نہیں چلاتے کہ کہیں آقا کے ماتھے پر شکن نہ پڑ جائے۔ کشمیری اور فلسطینی بے انتہا کمزور بے وسیلہ سہی لیکن کم سے کم مزاحمت تو کرتے ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ نیٹو کے ہیلی کاپٹر آئے، مہمند ایجنسی پر گولے کوئی دو گھنٹے برساتے رہے۔ ہمارے عسکری ذمہ داران انہیں ہاٹ لائن پر منع کرتے رہے بلکہ منتیں کرتے رہے اور وہ نہایت آرام اور آسانی سے ہمارے خوبصورت جوانوں کو شہید کرکے چلے گئے۔ یہ جوان ہماری فصیل ہیں، ہماری دیوار چین ہیں اور افسوس کہ ہم ہر روز انہیں امریکی یا نیٹو افواج اور دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنتے دیکھ رہے ہیں۔
جو بات میری سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ جب نیٹو ہیلی کاپٹر ہماری فضا میں آئے اور جارحانہ ارادوں کے ساتھ داخل ہوئے تو ہماری ایئرفورس کہا ں تھی؟ ہم نے انہیں ڈرا کر بھگانے کی کوشش کیوں نہ کی؟ جب وہ اندھا دھند گولیاں برسا رہے تو ہم نے جوابی کارروائی کیوں نہ کی؟ کوئی ایک آدھ ہیلی کاپٹر کیوں نہ گرایا؟یہ تو وہی بات ہوئی کہ وہ دو مئی کو ایبٹ آباد آئے، آپریشن کرکے چلے گئے اور ہم سوتے رہے گئے۔ میں فوجی نہیں نہ ہی عسکری تجزیہ نگار ہوں لیکن میں پاکستانی ہوں اور ایسے حملوں کی توضیح یا تجزیہ کرنے کی بجائے لہولہان ہو جاتا ہوں۔ اب تک ڈرون حملوں، دہشت گردی، نیٹو حملوں میں تیس ہزار سے زیادہ پاکستانی اور ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فوجی اور دوسرے سرکاری اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ ہم مزاحمت کئے بغیر چپ چاپ مر رہے ہیں۔ ہمارا ایٹمی قوت کا احساس تفاخر چور چور ہو چکا ہے۔ مسلمان ملت کی سردمہری ملاحظہ ہو کہ یو اے ای سے وزیر خارجہ شمسی ایئربیس کو خالی ہونے سے بچانے کے لئے پہنچ گیا ہے۔ ترکی پر ہمیں ناز ہے اور ترکی نیٹو کا حصہ ہے۔ اگر ترکی کی جگہ پاکستان ہوتا تو ہم کہتے کہ اپنی فوج افغانستان میں موجودنیٹو سے نکال لو ویسے بے شک نیٹو کا حصہ رہو۔ خدا کے لئے اہل وطن سوچو تمہارا خون اس قدر ارزاں کیوں ہے؟ تم کس جرم کی سزا کے طور پر چپ چاپ غلام بنے موت کو سینے سے لگا رہے ہو۔ نیٹو سپلائی بند اور سڑکوں پراحتجاج ظالموں کے ہاتھ نہیں روک سکے گا۔ میں ذہنی طورپر لہولہان ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میں ان معصوم شہیدوں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کروں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں ، مظلوم ترین۔
 

No comments:

Post a Comment