Saturday 19 May 2012

بہتی گنگا کا رخ کون موڑے گا؟ December 13, 2011


اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار اور ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہماری بدنیتی، بے ایمانی اور ناشکری ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہے۔اللہ نے جہاں پاکستان کو ہر قسم کے موسم، ہر قسم کی زمین، سمندر، دریا اور پہاڑوں سے نوازا ہے وہاں اس قدر قدرتی وسائل بھی دئیے ہیں جنہیں ایمانداری سے استعمال کرکے ہم دنیا کے امیر ملکوں کی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن قول فیصل ہے جو قوم بدنیت، جھوٹی، دھوکے باز اور ہر کام میں ڈنڈی مارنے والی ہو وہ تمام تر نعمتوں کے باوجود غربت، کسمپرسی اور بے بسی کا شکار رہتی ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ حضرت شعیب کی قوم کو صرف اس لئے تباہ کردیا گیا کہ وہ کم تولتی تھی۔ ہم مغرب کو گالیاں تو بہت دیتے ہیں کہ ہمیں گالیاں دینے کا بہت شوق ہے لیکن اگر آپ ان ممالک میں جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ وہاں کم تول، کم ناپ اور ملاوٹ کا تصور ہی نہیں ہے۔ جھوٹ بہت کم بولا جاتا ہے اور دھوکہ دہی کا رواج بھی کم کم ہے جبکہ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے نہ صرف خوراک اور دوائیوں میں ملاوٹ کرکے انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں بلکہ صاف پانی اور منرل واٹر کے نام پر بھی عام نلکوں کا پانی بیچ کر چند دنوں میں امیر بننے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔اوپر سے لے کر نیچے تک دن رات جھوٹ کابازار گرم ہے اور پھر اللہ کی رحمتوں کی امید بھی رکھتے ہیں۔ گویا ہم کانٹے بوکر پھولوں کی توقع رکھتے ہیں جو قدرت کے قوانین کے منافی ہے کیونکہ کانٹے بونے والے کانٹے ہی کاٹتے ہیں۔
یہ تو خیر تمہید تھی اسی لئے میں نے قدرتی وسائل کی تفصیل نہیں لکھی، نہ سونے اور کاپر کی کانوں کا ذکر کیا اور نہ کوئلے کی کانوں کا، میں آج جس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ قدرت نے ہمیں فراخدلی سے ذہانت اور محنت کے تحائف دئیے ہیں لیکن اس ذہانت کو صحیح راہ پر استعمال کرنے کی بجائے ہم دھوکہ دہی اور فراڈ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ذہانت کا غلط استعمال کرنے والے اقلیت میں ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور لوگوں کے لئے پریشانیاں اور مسا ئل پیدا کرتے ہیں۔ ہم ہر روز اغواء برائے تاوان، ہسپتالوں سے نومولود بچوں کے اغواء یا بچے کو بچی سے بدلنے کی خبریں پڑھتے ہیں، اگر آپ ان وارداتوں کے پس پردہ جھانکیں تو پتہ چلے گا کہ ان وارداتوں کی منصوبہ بندی نہایت ذہانت اور ہوشیاری سے کی جاتی ہے۔ صرف وہ وارداتیں پکڑی جاتی ہیں جن کی منصوبہ بندی ناقص ہوتی ہے۔ ہمارے لوگوں کی ذہانت کا یہ حال ہے کہ وہ نقلی ڈالر اس قدر ذہانت سے تیار کرتے ہیں کہ خود امریکی انہیں پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں، ہزار پابندیوں ،مشینوں اور”تلاشیوں“ کے باوجود ہمارے لوگ ہیروئن اسمگل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نقلی دوائیں اور نقلی خوراک اور خوراک میں ملاوٹ اس طرح کرتے ہیں کہ انسان ان کی ذہانت اور طریقہ واردات کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دھوکہ دہی اور جھوٹ میں شاید ہی ہمارا کوئی ہم پلہ اور ہمسرہو، میر اڈرائیور عیسائی نوجوان ہے، چند روز قبل وہ کرسمس کے لئے انارکلی سے کپڑے اور جوتے خریدنے گیا۔ اگلے دن ڈیوٹی پر آیا تو منہ لٹکا ہوا تھا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا وہ کپڑے اور جوتے ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر شاہراہ قائد اعظم کے بس سٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کررہا تھا کہ اتنے میں ایک موٹرسائیکل سوار آیا اور اس سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے، اس نے اپنی منزل کا نام بتایا تو کہنے لگا میں بھی اسی طرف جارہا ہوں میرے پیچھے بیٹھ جاؤ، موٹر سائیکل والے نے ایک ڈبہ اپنے پیٹ کے سامنے ٹانگوں میں رکھا ہوا تھا جب یہ پیچھے بیٹھ گیا تو اسے کہا کہ تم میرا یہ ڈبہ پکڑ لو اور اپنا شاپنگ بیگ مجھے دو میں اسے ہینڈل کے ساتھ لٹکا دیتا ہوں۔ دو تین میل کے سفر کے بعد موٹر سائیکل اچانک بند ہوگیا۔ موٹر سائیکل والے نے پچھلی سواری سے کہا کہ ذرا اتر کر اسے دھکا دو اس نے اتر کر دھکا دیا تو وہ موٹر سائیکل دوڑا کر غائب ہوگیا اور میرا ڈرائیور ڈبہ ہاتھ میں پکڑے دیکھتا رہ گیا۔ ڈبہ کھول کر دیکھا تو اس میں ردی کے کاغذات بھرے ہوئے تھے۔ اندازہ کیجئے کہ یہ شخض گھر سے پوری تیاری کرکے واردات کرنے نکلا تھا اور اس نے نہایت ہوشیاری سے ایک مسافر کو لوٹ لیا۔ ہمیں ہر روز موبائل پر اس طرح کے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ میں ہسپتال میں مررہی ہوں یا کسی مشکل میں پھنسی ہوئی ہوں اور مجھے فون کرکے اطلاع دینی ہے براہ کرم مجھے بیس روپے کا بیلنس ٹرانسفر کردیں ۔بعد میں واپس کردوں گی۔ یہ سب چھوٹے وارداتیئے ہیں جن میں فون پر انعام نکالنے والے بھی شامل ہیں لیکن یہ لوگ نہایت ذہانت سے بے وقوف بناتے اور اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ خود میرے ساتھ کئی وارداتیں ہوئیں لیکن ایک طریقہ انوکھا اور قدرے مختلف تھا۔ بتایا گیا کہ بھائی وفات پاگیا ہے اور اس کی میت گاؤں لے جانے کے لئے اور کفن دفن کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ فون پر خواتین کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں پھر یہ کہہ کر موبائل ایمبولینس کے ڈرائیور کو دے دیا گیا کہ اس سے تصدیق کرلیں مختصر یہ کہ وہ وارداتیا انسانی ہمدردی کے نام پر کامیاب ہوگیا۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کارنامے ہر روز اور ہرطرف ہورہے ہیں جنہیں عملی جامہ پہنانے والے لوگ ذہین اور ہوشیار ہیں۔ دواؤں ،ہسپتالوں اور مریضوں کے نام پو لوٹنے والے نہایت کاریگر لوگ ہیں جنہیں میں موجودہ دور کے جیب کترے سمجھتا ہوں۔ وارداتیئوں کی دوسری قسم وہ ہے جو نہایت منظم انداز سے بنک لوٹتی، گھروں پر ڈاکے ڈالتی، رشوت لیتی، بیرون ملک سے آنے والوں کی نگرانی کرتی اور پھر انہیں ڈالروں سے محروم کرتی ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جو کھلے عام واردات کرتی اور بیک وقت ہزاروں لوگوں کی جمع پونجی صاف کرجاتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں اسلام آباد میں ایک جعلی سوسائٹی کے نام سے ایک گروہ نے ہزاروں لوگوں کو جعلی پلاٹ اور فائلیں بیچ کر اربوں روپے لوٹ لئے۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، مجرمان گرفتار ہوئے ،نیب نے انکوائری کی اور پھر آج تک اس کا ذکر نہیں سنا۔ لٹنے والے انتظار کرتے کرتے صابر وشاکر بندے بن گئے اور کسی کو ایک روپیہ بھی واپس نہ ملا۔ آج کل اخبارات میں لاہور میں ایک ایسی ہی سوسائٹی کے بڑے بڑے اشتہارات دیکھ کر مجھے یاد آتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے وزیر نے اس سوسائٹی میں سینکڑوں ایسے پلاٹ الاٹ کئے جن کا زمین پر وجود ہی نہیں تھا۔ ڈھٹائی یہ کہ ان کے لئے ترقیاتی اخراجات اور ایڈیشنل ترقیاتی اخراجات بھی وصول کرلئے اور پھر یہ سوسائٹی ڈی ایچ اے کو فروخت کرکے چلے گئے۔ ڈی ایچ اے لاہور نے بھی ابھی تک ان الاٹیوں کے دکھ کا مداوہ نہیں کیا جن کے ساتھ وزیر صاحب نے وزارت کے زور پر دھوکہ کیا تھا۔ میں نے اس سوسائٹی میں ا س خیال کے ساتھ پلاٹ خریدا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں گھر بناؤں گا۔ اس حادثے کو ساڑھے آٹھ برس ہوگئے اور اب اسی سابقہ وزیرنے ایک اور سوسائٹی کی اشتہاری مہم شروع کر رکھی ہے اور شنید ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے لاہور کے جلسے کے لئیبڑی رقم کا چندہ دیا تھا، کسی دن وہ ماشاء اللہ پھر وزیر بن جائیں گے۔
یہ ساری رام کہانی لکھنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہماری قوم کو بے پناہ ذہانت سے نوازا ہے لیکن ہم اس کا صحیح استعمال نہیں کررہے ، اگر ذہانت کی اس بہتی گنگا کا رخ قومی تعمیر کی جانب موڑ دیا جائے تو ہمارا قومی مقدر سنور سکتا ہے۔ اس رخ کو موڑنے کے لئے ایک مضبوط نظام اور اعلیٰ درجے کی قیادت کی ضرورت ہے یہ مسئلہ صرف خوف خدا سے حل نہیں ہونا اس لئے لاقانونیت، بدنیتی اور بددیانتی کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت قوانین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اللہ کرے ہمیں وہ دن دیکھنا نصیب ہو۔
نوٹ:۔میں نے دس تاریخ کے کالم میں لکھا تھا کہ صدر صاحب نےAFICمیں معائنہ کروایا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ خبر اخبارات میں معتبر سینئر رپورٹوں کے حوالے سے چھپی تھی۔ اب صدر مملکت کے ترجمان جناب فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی ہے کہ یہ خبر بے بنیاد ہے اور صدر صاحب ہرگزAFICنہیں گئے۔قارئین نوٹ فرمالیں۔
 

No comments:

Post a Comment