Sunday 20 May 2012

کیا تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟ February 25, 2012


یہ کتنی بدقسمتی اور ہماری نااہلی ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے پینسٹھ برس گزرے اور اس عرصے میں صرف چوبیس برس بعد ہم نے آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان گنوا دیا اور اب اس کے سانحے کے 41 برس بعد پاکستان کا رقبے کے حوالے سے بڑا صوبہ بغاوت پر مائل ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان کا مشرقی پاکستان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اول تو مشرقی پاکستان کا طویل بارڈر ہندوستان سے مشترک تھا جس کا ہندوستان نے خوب فائدہ اٹھایا اور مکتی باہنی کی آڑ میں ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان ”فتح“ کرلیا۔ دوم مشرقی پاکستان کے برعکس بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون اور دوسرے لوگ بھی بستے ہیں جن کی اکثریت ہے اور وہ نا انصافیوں اور حکومت ِ پاکستان کی زیادتیوں کے باوجود علیحدگی نہیں چاہتے۔ البتہ قدرمشترک یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اوربلوچستان دونوں میں بغاوت کی آگ بھڑکانے کی ذمہ داری فوج پر ڈالی جارہی ہے اوراسے فوجی آمریتوں کاشاخسانہ سمجھا جارہا ہے جوخاصی حد تک درست ہے۔ بلاشبہ فوجی آمریتوں نے مشرقی پاکستان کو مستقل احساس محرومی میں مبتلاکیا اوران کے مطالبات کو سیاسی اندازسے حل کرنے کی بجائے طاقت استعمال کی اور پھرمارچ 1971 میںآ رمی ایکشن کرکے مشرقی پاکستان کھو دیا۔کچھ یہی صورت بلوچستان میں بھی روارکھی گئی اور ”حقوق“ کی آواز اٹھانے والے بلوچ سرداروں اور دوسرے حریت پسند وں کو قیدو بندکی صعوبتوں کے دوران زندگی ہی سے آزاد کیا جاتا رہاحالانکہ یہ خالصتاً سیاسی مسئلہ تھا اور اسے سیاسی انداز سے حل کرنا چاہئے تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بلوچستان جس نے قائداعظم کوچاندی سونے میں تولا تھا اورشاہی جرگے اوردوسرے متعلقہ اصحاب الرائے نے خود پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اس پاکستان سے محبت کرنے والے بلوچستان میں بے چینی، نفرت اور پھربغاوت کے انگارے بھڑکنے لگے۔ وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی پر اربوں روپے لگانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن میرامشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اس ضمن میں ہماری مختلف حکومتوں سے بنیادی غلطیاں ہوئیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنا رنگ دکھایا۔ اول توشروع ہی سے بلوچستان کو سرداروں کے ذریعے چلانے کی پالیسی پرعملدرآمد کیاگیا، بلوچستان کو صرف سرداروں کی آنکھوں سے دیکھا جاتا رہا اور اس سارے عمل میں ایسی کوئی حکمت عملی وضع نہ کی گئی جس کے ذریعے عوام کو بھی اس سیاسی عمل میں آہستہ آہستہ شامل کیا جاتا۔ ہر حکمران سرداروں کو روپے اور مراعات کی رشوت دے کر خوش رکھنے کی کوشش کرتارہا حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی بڑ ی بڑی رقوم سرداروں کو دی گئیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقیاتی منصوبوں کا فائدہ عوام تک نہ پہنچ سکا اور وہ مسلسل محروم رہے۔ اسی مسئلے کادوسراپہلو یہ بھی ہے کہ رائلٹی کے نام پربلوچ سرداروں کو کروڑوں اربوں روپے دیئے گئے، کچھ سردار بھتہ بھی لیتے رہے لیکن انہوں نے اپنے علاقے کے عوام کی ترقی، تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیرپر کچھ بھی خرچ نہ کیاکیونکہ تعلیم، مواصلات اور صحت کی سہولیات آنے سے غلامی کی زنجیریں ڈھیلی ہوتی تھیں اور سرداربہرحال ان زنجیروں کو ڈھیلا ہونے کی اجازت دینے کیلئے تیارنہیں تھے۔ بہت سے بلوچ سردار، حکومت ِ پاکستان اور حکومتی اداروں سے کروڑوں روپے بھتہ لے کر اپنی عسکری قوت کی مضبوطی پر خرچ کرتے رہے۔ بیرون ملک رکھی گئی یہ رقوم آج ان بلوچ سرداروں کے صاحبزادگان کا بوجھ اٹھا رہی ہیں جو پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جلاوطنی کے پردے میں پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ مان لیا کہ بلوچستان میں ہندوستان، امریکہ اور کچھ بیرونی قوتیں ملوث ہیں اور وہ پاکستان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال کس نے پیداکی؟ جس کے نتیجے کے طور پر ان قوتوں کو مداخلت کے مواقع ملے۔ ظاہر ہے کہ ہماری حکومتوں کی غیرمنصفانہ پالیسیاں اور پے درپے نااہلی اورسردمہری نے ایسے حالات پیداکئے جن سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیرونی قوتیں اپنے وسائل کے ساتھ بلوچستان میں پہنچ گئیں اور اپنا کھیل کھیلنے لگیں کیونکہ ان کے سامنے مشرقی پاکستان کی مثال موجود تھی۔ ہم نے اگر مشرقی پاکستان کے سانحے سے سبق سیکھا ہوتا توہمارے بے بصیرت حکمران بلوچستان کی محرومیوں اور مسائل کو سیاسی انداز سے حل کرتے لیکن ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم نے بلوچستان میں بھی وہی نسخہ آزمایا جو مشرقی پاکستان میں بے اثر ثابت ہوچکا تھا۔ اس نسخے کا نقطہ عروج سرداراکبربگٹی کا قتل، حکومت کی جانب سے مرحوم کی نماز جنازہ اور پھر دفن تھا جس نے بلوچوں کے دلوں میں اتنے گہرے زخم لگائے کہ بغاوت کا خون بہہ نکلا۔ سردار اکبر بگٹی کا بہیمانہ قتل ہماری تاریخ کا بڑا سانحہ ہے جس نے جلتی پرتیل کا کام کیا ہے۔ بنیادی طور پربلوچستان میں نفرت کی آگ لگانے اور بھڑکانے کی ذمہ داری جنرل پرویزمشرف پر عائدہوتی ہے جس میں سیاسی بصیرت کا قحط تھا اور جو قومی مسائل کو سمجھنے کی اہلیت سے تہی دامن تھا۔ ملکی معاملات کو جرنیلوں اور ایجنسیوں کے سپردکرکے خود عیش و عشرت میں مصروف رہنے والا جنرل پرویز مشرف خالصتاً فوجی انداز میں ہر مسئلے کاحل طاقت کے استعمال میں سمجھتا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بے بصیرت پالیسیوں سے بلوچستان کے دل پر ایسے زخم لگا گیا جسے جنرل کیانی کی دوستانہ پالیسیاں بھی مندمل نہیں کرسکیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایک طرف جنرل کیانی بلوچ طلبہ کے لئے تعلیمی و تربیتی ادارے قائم کرکے بلوچ نوجوانوں کیلئے روزگار اور نوکریوں کے دروازے کھول رہے ہیں اوربلوچ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بلوچستان سے نوجوانوں کو اٹھانے اور ان کی نعشیں واپس کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ باغی سرداروں کے علاوہ بعض متوازن ذہن کے بلوچ لیڈران اور محترم بزنجو جیسے سیاستدا ن اس دردناک کارروائی اور رویئے کی ذمہ داری ایجنسیوں پرڈالتے ہیں جبکہ ایجنسیوں کے کرتادھرتااپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں چنانچہ ملک بھر میں ایک تاثر ابھر رہا ہے کہ آئی ایس آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیاں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں لوگوں کو اٹھانے اور ٹارچر کے ذریعے قتل کرنے کی ذمہ دار ہیں۔قوم اپنی ایجنسیوں سے ایسی کارروائی کی توقع نہیں کرتی اس لئے قوم اور ان اداروں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں جن کے سائے فوج جیسے اہم ادارے پر پڑ رہے ہیں۔ یہ صورت نہایت افسوسناک اور ملکی مفاد کے منافی ہے کیونکہ فوج اورفوجی ایجنسیوں کو قومی حمایت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے، اگر ان مجرمانہ کارروائیوں میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں تو انہیں بے نقاب کرنا بھی ہماری ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا عوام اس کا الزام اپنی ہی ایجنسیوں کو دیں گے۔ یہ پیچیدہ صورتحال جنرل کیانی کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور انہیں اس دلدل سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
کس کس بات کا رونا رویا جائے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے چاربرس گزرے اور اس عرصے میں بھی بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ نہ ہمیں صدر زرداری کے بلوچ ہونے کا فائدہ پہنچا اور نہ ان کی معافی اور ترقیاتی پیکیج نے رنگ دکھایا۔ موجودہ حکومت کی سردمہری اور نااہلی کے سبب سارا بلوچستان لاقانونیت کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور نوبت بایں جا رسید کہ کوئٹہ سے باہر نکلتے ہی بلوچستان حکومت کا نام و نشان مٹ جاتاہے اور تعلیمی اداروں پر پاکستانی پرچم لہرانے اورترانہ پاکستان پڑھنے کی بھی اجازت دی جاتی۔ سینکڑوں غیر بلوچ آبادکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے، ان گنت اغوا ہو چکے اورہرطرف وارداتیں کرنے والوں کا راج ہے۔ ایک طرف بغاوت کے انگارے سلگ رہے ہیں تو دوسری طرف لوگ احساس تحفظ سے محروم ہوچکے ہیں۔ میاں نواز شریف ٹھیک کہتے ہیں کہ ان حالات میں اے پی سی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ چارسالہ دور ِ حکومت میں موجودہ حکمرانوں نے بلوچستان کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ اس مسئلے سے ذرہ بھر بھی مخلص ہوتے تو آج نہ امریکی کانگریس میں بلوچستان کی بازگشت سنی جاتی اور نہ ہی یوں کھلم کھلا آزادی کاعلم بلندہوتا۔ میں یہ سوچ کرڈر جاتاہوں کہ ہماری تاریخ میں باربارحکمرانوں کی بداعمالیوں اور نااہلیوں کی سزا پاکستانی عوام کو ملتی رہی ہے۔ کیا ایک بار پھرتاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے!


No comments:

Post a Comment