Saturday 19 May 2012

سیاست کا نیا موسم اور دراڑیں. November 23, 2011


درخت کی ٹہنیوں پر بھی رنگ برنگے شگوفے کھلتے رہتے ہیں۔ یہی قدرت کی منشاء ہے اور اسی بات کو اقبال نے یوں کہا ہے
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
کل تک ہماری ”محبوب“ حکومت کرپشن، مہنگائی ، بے روزگاری اور نااہلی کی دلدل پھنسی تھی اور اپنے اقتدار کے بچاؤ کے لئے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے جائز و ناجائز مطالبات مان رہی تھی اور جوڑ توڑ کرکے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی پھر میمو گیٹ کھلا جسے واٹر گیٹ سیکنڈل کے وزن پر میمو گیٹ کہا جارہا ہے اور اتنی تیز آندھیاں چلیں کہ اقتدار کے چراغ جھلملانے لگے۔ مولن کو لکھے گئے خط نے بے پناہ سوالات کی گرد بلکہ آندھی اور جھکڑ چلا دیا اور سچی بات یہ ہے کہ ان تمام سوالات کے جوابات کسی کے بھی پاس نہیں بہرحال اس حوالے سے آج اعلیٰ سطح کی میٹنگیں ہونے والی ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک دو میٹنگوں میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ تمام تر شواہد کے باوجود مسئلہ پیچیدہ ہے۔
توقع رکھنی چاہئے کہ مکمل انکوائری کے بعد عوام کو اصل حقائق سے مطلع کیا جائے گا کیونکہ عوام بھی اس مسئلے میں ایک پارٹی ہے اور اگر انہیں اگنور کیا جائے تو پھر وحشیانہ افواہیں پھیلتی ہیں اور اپوزیشن کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں تو اپوزیشن کی تنقید اور تنقیص کا کوئی معیار ہی باقی نہیں رہا۔ یوں لگتا ہے جیسے جنگ جاری ہے اور محاورے کی زبان میں جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے بلکہ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ اس سیاسی جنگ میں سب کچھ ناجائز بھی جائز ہوچکا ہے اورایک دوسرے پر اوچھے ،ذاتی اور بعض اوقات”واہیات“ حملے کئے جاتے ہیں جن سے عوام کی نظروں میں سیاستدانوں کی رہی سہی ساکھ بھی بیوہ کی مانگ کی مانند اجڑ رہی ہے۔کیا یہی ہمارے قائدین ہیں؟۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی رانا ثناء اللہ کو رکھ چھوڑا ہے وہ کبھی پی پی پی پر الزامات کی بارش کرتے ہیں تو کبھی اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ ہمارے دوست پرویزرشید صرف قانونی و سیاسی دفاع کے لئے سامنے آتے ہیں اور پھر پس پردہ بیٹھ کر رانا ثناء اللہ کی صلاحیتوں اور قلابازیوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے معاون خصوصی ہونے کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کے ترجمان بھی ہیں جو ان کی اصل تعیناتی اور پوزیشن ہے اس لئے عائشہ احد کا مسئلہ ہو یا راجہ ریاض کا الزام پرویز رشید ذہانت سے دامن بچا جاتے ہیں۔ ایوان صدر کو مولن کے میمو نے ہلا کر رکھ دیا ہے اور عائشہ احد نے ایوان وزیر اعلیٰ کی راہداریوں میں خاک اڑا دی ہے۔ یارو نوٹ کرلو جو کچھ ہورہا ہے افسوسناک ہے اور یہ نہ ہی ملکی سیاست کے لئے اچھا ہے اور نہ ہی جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے لے کر مولن میمو تک جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ تیار ہورہی ہے اور اس میں نت نئے کرپشن سیکنڈل، رینٹل پاور ہاوسسز کی لوٹ مار اور اربوں روپوں کی واپسی، حج سیکنڈل کے وزیر اعظم ہاؤس کی جانب بڑھتے سایے اور قومی اداروں کی تباہی کی داستانیں رنگ بھررہی ہیں اور عوام کے دلوں میں نفرت کی چنگاریاں بھڑکارہی ہیں۔
ایک اور زاویے سے دیکھتا ہوں تو مجھے یہ تیزی سے بدلتا سیاسی موسم”دراڑیں“ ڈالتا دکھائی دیتا ہے ۔دراصل سیاسی موسم ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ آج کل پاکستان میں”دراڑوں“ یعنی تفریق کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ ظاہری اتحاد کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے اور ٹوٹ پھوٹ اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ مولن میمو نے فوج اور حکومت کے درمیان اتنی گہری دراڑ ڈال دی ہے جو ہزاروں ٹن سیمنٹ ڈالنے کے باوجود نہ بھری جاسکے گی اور نہ ہی مرمت ہوسکے گی۔ شکوک و شہبات اور بدظنی پہلے بھی تھی جس پر صدر صاحب اپنی روایتی ہوشیاری سے کام لے کر پردہ ڈال دیتے تھے لیکن جس بدظنی اور بداعتمادی نے اسامہ آپریشن کے بعد سنجیدگی سے سر اٹھایا وہ اب ایک تلخ خوفناک حقیقت بن کر سامنے آچکی ہے ۔اس دراڑ کے نتائج کب اور کس طرح ظاہر ہوتے ہیں یہ آپ کچھ ہی عرصے میں دیکھ لیں گے۔
ریمنڈ ڈیوس نے پی پی پی کی صفوں میں دراڑ پیدا کی تھی جس کے نتیجے کے طور پر شاہ محمود قریشی اپنے ساتھیوں سمیت پی پی پی سے الگ ہوگئے۔ وہ مسلم لیگ(ن) جوائن کریں یا تحریک انصاف لیکن بہرحال پی پی پی اپنے ایک بااثر لیڈر سے محروم ہوچکی۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے نہ صرف سندھ پی پی پی میں دراڑیں ڈال دی ہیں بلکہ اس کی لندن یاترا سندھ حکومت میں بھی دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ اندرون سندھ پی پی پی تقسیم ہوچکی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے صدر صاحب کا محبوب سندھ کا رڈ اپنا اثر کھوچکا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں یوں بھی حکومت کے خلاف ماتم جاری ہے جس نے سندھ کارڈ کو محض کاغذی کارڈ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ (ن)رورل سندھ کے عوام کے دلوں میں راستے بنا رہی ہے جو اس نقطہ نظر سے ایک صحت مند پیش رفت ہے کہ اندرون سندھ کو قومی دھارے میں لانا چاہئے اور یہ کام میاں نواز شریف کرسکتے ہیں۔ رہا اربن سندھ تو ڈاکٹر عمران کے قتل کا بھانڈہ پھوٹنے کے بعد کراچی حیدر آباد کی سیاسی فضا بھی بدلے گی اور ہاں سب سے اہم بات کہ ڈاکٹر عمران کے قتل میں ملوث خفیہ ہاتھ بے نقاب ہوتے ہی جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اہم نقطے کا اضافہ ہوجائے گا۔ دیکھئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی کوشش ناتواں کیا رنگ لاتی اور دکھاتی ہے۔ قدرت کے نظام میں مکافات عمل کا مقام نہایت اہم ہے ایک نہ ایک دن بیگناہ قتل و غارت کے پس پردہ ہاتھوں کو بے نقاب ہونا ہی ہوتا ہے اور یہی مکافات عمل ہے۔
خود پنجاب کی سیاست میں بھی دراڑیں ظاہرہورہی ہیں اور دہائیوں پر مشتمل اتحاد جھٹکے کھارہا ہے کھل کر بات کروں تو سچ یہ ہے کہ محترم میاں محمد شریف صاحب مرحوم نے ا تحاد کا جو مثالی پودا لگایا تھا وہ سیاسی موسموں کے زیر اثر خزاں کی زد میں آچکا ہے۔ مزید کھل کر بات کروں تو حقیقت یہ ہے کہ بظاہر مثالی اتحاد کے باوجود میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی سیاسی سوچ، سیاسی فلسفے ، مزاج ،انداز حکومت و سیاست اور عزائم میں ہمیشہ ایک واضح فرق رہا ہے جسے دیکھنے والے دیکھتے اور سمجھنے والے سمجھتے تھے لیکن مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ اسے پس پردہ رہنے دیا جائے۔ مشرف کی ظالم سیاست نے میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں کو سیاست سے ہمیشہ کے لئے الگ اور تائب کردیا۔ اس خلاء کے بعد حمزہ شہباز کو اس گھرانے کا سیاسی وارث سمجھا جاتا تھا۔ تفصیل میں جانا مناسب نہیں کہ میاں نواز شریف کا ادب مانع ہے۔ مختصر یہ کہ بہت سی وجوہ کی بنا پر یہ صورت گھرانے کو قبول نہیں چنانچہ سوچ و بچار کے بعد بیگم کلثوم نواز خود میدان میں اتری ہیں ۔ انہوں نے صحت کے مسائل کے باوجود کارکنوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا مقصد پرانے کارکنوں کی کشت ویراں کی آبیاری کرکے سیاسی ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ ماں کے ساتھ بیٹی مریم بھی میدان میں قدم رکھ چکی ہے اور کیپٹن صفدر تو ویسے ہی موجود ہے۔ لگتا ہے کہ مستقبل میں میاں نواز شریف کے اپنے سیاسی وارث ہوں گے اور میاں شہباز شریف کے اپنے اور اسی طرح اتفاق ٹیم بھی تقسیم ہوجائے گی۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں سیاسی حوالے سے دراڑوں کا موسم شروع ہوچکا ہے ان کا اصل رنگ اور ڈھنگ دیکھنے کے لئے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا لیکن زیادہ نہیں……!!
فی الحال تھوڑا لکھے پر اکتفا کریں۔ 
 

No comments:

Post a Comment