Sunday 20 May 2012

خاکم بدہن May 11, 2012


ملکی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو دل دُکھتا اور کڑھتا ہے۔ پھراپنی بے بسی پر دل ہی دل میں آنسو بہا کر صبر کرلیتا ہوں کہ اللہ صابرین کے ساتھ ہے اور کمزور لوگوں کا آخری سہارا صبر ہی ہوتا ہے۔ ذرا گہری نظر سے دیکھئے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم کس طر ف اورکہاں جارہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے اور اگر ہم یونہی بڑھتے رہے، پھیلتے ہوئے طوفان کو روکنے کی کوشش نہ کی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
سچی بات یہ ہے کہ میں جب ملک کے منظرنامے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب یا طوفان قوم کے دروازے پر دستک دیتا نظر آتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لاقانونیت اور انارکی کی آگ سارے نظام کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے اور انارکی کے مرض میں مبتلا قومیں ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے تنزل کی راہ پر چلتی اور بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ چاروں طرف نگاہ دوڑایئے کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیسی کیسی انہونی باتیں اور وارداتیں رونما ہو رہی ہیں۔ ان انہونی وارداتوں کی جڑوں پر نگاہ ڈالیں تو اس کا سبب صرف لاقانونیت کا تیزی سے بڑھتا ہوارجحان نظر آتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایک چوتھائی قوم سڑکوں پر احتجا ج کر رہی ہے، سرکاری بسیں جن پر صرف عام سفر کرتے ہیں جلائی جارہی ہیں اور شہریوں کی کاروں اور نجی املاک کو جلایا جارہا ہے، چوریاں ڈاکے عام ہیں، طلبہ نقل کی مزاحمت کرنے والے اساتذہ کو مار پیٹ رہے ہیں، وکیل ججوں پر جوتے بھی پھینکتے ہیں اور کبھی کبھی خلاف ِ مرضی فیصلہ آنے پر ججوں سے دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ پولیس علاقوں میں جاتی ہے تو وکیل حضرات اپنے ملزمان چھڑانے کے لئے پولیس کو نشانہ بناتے ہیں۔ پولیس ہر روز بیگناہ شہریوں کو ٹارچر کرکے رشوت لیتی ہے اور اگر لواحقین رشوت نہ دیں تو ٹارچر کرکے ملزم ہی کو اگلے جہان پہنچا دیتی ہے۔ کسی دفتر میں چلے جائیں رشوت کے بغیر جائز سے جائز کام نہیں ہوتا اور رشوت دے کر ناجائز سے ناجائز کام ہو جاتاہے۔ شہروں قصبوں میں قبضہ گروپ اور طاقتور مافیاز پروان چڑھ رہے ہیں جو غریب، بے اثر لوگوں، بیواؤں اوریتیم بچوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور پولیس ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ وزراء، حکمرانوں اور سیاستدانوں پر دن رات پیسے بنانے اور جائیدادیں بنانے کے الزامات کی بارش برس رہی ہے۔ بااثر طبقے دن رات ملک کو لوٹ کر دولت بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی پارٹیاں کسی کو اسمبلی کا ٹکٹ دینے یا وفاداری تبدیل کرکے آنے پر پہلے اس کی جیب ٹٹولتی اور پھر فیصلہ کرتی ہیں۔ پارٹی چندے کے نام پر قوم کو لوٹنے والے، لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے اور فراڈ کے ذریعے راتوں رات امیر ہونے والے بڑے بڑے چندے دے کر بڑی پارٹیوں پر چھا گئے ہیں اور حکمران یا مستقبل کے حکمران اُن کی دولت یا شہرت کے سامنے بچھے جارہے ہیں۔ ان ”اصول پرستوں“ کو ایسے سیاستدانوں کے ماضی کی پرواہ ہے نہ ان کے حال سے غرض ہے انہیں فقط چندے سے غرض ہے۔ نام کی حکومتیں بھی موجود ہیں اور ان حکومتوں کے ناک تلے مارکیٹ میں جعلی دوائیاں بھی بک رہی ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں جعلی اور اکثر اوقات ایکسپائرڈ (Expired) دوائیاں دے کر غربا کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہے کہ خدا کی پناہ۔ کل ہی ایک صاحب انکشاف کر رہے تھے کہ پولٹری کے چوزوں کو جلد جوان کرنے کے لئے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، زیادہ انڈے حاصل کرنے کے لئے مرغیوں کو مخصوص غذا کھلائی جاتی ہے۔ پولٹری کے اس گوشت اور ان انڈوں میں ایسے اجزا موجود ہیں جن سے کھانے والوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں حتیٰ کہ بچے اور نوجوان بھی خطرناک بیماریوں کے شکنجے میں جکڑے جارہے ہیں لیکن منافع خوروں کو دولت بنانے سے غرض ہے۔ وہ خود دیسی مرغیاں کھاتے اور درآمد شدہ غذائی اشیاء سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن قوم کو ملاوٹ شدہ غذا کھلا کر آہستہ آہستہ مار رہے ہیں۔ کچھ یہی حال ان کھادوں اور سپرے کا ہے جو گندم اور سبزیاں اگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت نہ جانے کن کاموں میں مصروف ہے جبکہ حکومت کے سائے تلے عوام کی صحت عامہ کابیڑہ غرق کیا جارہا ہے اور عوام میں ان مسائل کا شعور ہی موجود نہیں۔ یہاں اربوں روپے کے اشتہار حکمرانوں کی ذاتی پبلسٹی یا پارٹی لیڈروں کی پبلسٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ رقم عو ام میں بیماریوں اور دیگر مسائل کے بارے شعور پیدا کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔ ملاوٹ، جعلسازی، نمبر 2 دوائیوں اور اس قسم کے دوسرے جرائم سے نپٹنے کے لئے قوانین موجود ہیں، ادارے بھی موجود ہیں اور ان کے اوپر حکومتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن رشوت، لاقانونیت اور بے عملی نے ان تمام کو عضو معطل بنا رکھا ہے۔ مسائل کی اس چکی میں پس کون رہا ہے؟ عوام… وہی عوام جن کے غم میں حکمران گھلے جاتے ہیں اور وہی عوام جو اچھے برے کی تمیز کرنے کے اہل نہیں اور ان سیاستدانوں کے مکر و فریب میں آ کر پھر انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں۔
ذرا اوپر نظر ڈالئے۔ ملک کے وزیراعظم سپریم کورٹ کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے سارے اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے انگلستان تشریف لے گئے ہیں۔ انہوں نے طنز کا تیر چلاتے ہوئے لندن پہنچتے ہی یہ بھی فرما دیا کہ انہیں علم تھا ان کے غیرملکی دورے کے آغاز پر ہی تفصیلی فیصلہ آئے گا۔ گویا ان کی ملک میں موجودگی سے سپریم کورٹ تفصیلی فیصلہ دینے سے گریزاں تھی۔ اس ایک فقرے سے انہوں نے نہ صرف عدلیہ پر ”بدنیتی“ کا الزام لگا دیا ہے بلکہ عدلیہ کی جانبداری کا تاثر بھی ابھارا ہے۔ عدلیہ کی غیرجانبداری پر حملوں کا آغا ز جناب صدر مملکت نے کیا تھا اب تو خیر سے ساری پیپلزپارٹی دن رات یہی مہم چلارہی ہے اور عدلیہ کو شریف کورٹس ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مقصد صرف عدلیہ سے انتقام لینا نہیں بلکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی بنیادوں کو کمزور کرنا بھی ہے۔ ماشاء اللہ اب تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بھی عدلیہ کا مالی احتساب کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دیکھئے یہ سلسلہ کہاں پر رکتا ہے؟ لاقانونیت کے پھیلتے رجحان میں آئین کی تشریح و توضیح بھی اپنے اپنے مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے کی جارہی ہے اور اس توضیح میں جلد ہی وہ مقام آنے والا ہے جب عدلیہ اور پارلیمینٹ ایک دوسرے کے سامنے یوں کھڑے ہوں گے جیسے دشمن ملک کی فوجیں… ظاہر ہے جب سپیکر قومی اسمبلی صدر صاحب اور پی پی پی کے دباؤ کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کو دبا دیں گی تو دوسری طرف اس پر عمل کرنے کے لئے کارروائی شروع ہوگی۔ نتیجہ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں، منظر خوفناک لگتا ہے۔ عدالتوں، پارلیمینٹ اور بااثر محلات سے نکل کر دونوں بڑی پارٹیاں سڑکوں پر دست و گریباں ہو کر ”گھمسان کا رن“ ڈالنے والی ہیں اور اس گھمسان کے رن میں رہا سہا قانون بھی کچلا جائے گا جس سے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب مزید پھیلے گا۔
ملک کے جس بھی منظر پر نظر ڈالتا ہوں لاقانونیت اور انارکی کا طوفان ابھرتا نظر آتا ہے، ریاستی اور حکومتی ادارے تنزل کا شکار ہو کر گرتے نظر آتے ہیں، غریب عوام حالات کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں، لوڈشیڈنگ ، غربت ، بیروزگاری، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ بے قابو نظر آتا ہے، بے انصافی بڑھتی نظر آتی ہے۔ آخر کب تک حالات اس نہج پر چلتے رہیں گے؟ آخر کب تک حکمران اور سیاستدان اپنے ڈھول پیٹتے رہیں گے شاید چند ماہ میں وہ لمحہ آجائے گا جب ”عزیز ہم وطنو“ مجبوری بن جائے گا اور قوم اور عدلیہ اسے مجبوری سمجھ کر قبول کرلیں گے کہ ملک بچانے کے لئے کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ میری یہ د عا اور تمنا ہے لیکن میں حالات کا رخ موڑنے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتا۔ خاکم بدہن…!!
(نوٹ: دوستو! میں کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک جارہا ہوں انشاء اللہ پھر ملاقات ہوگی)
 

No comments:

Post a Comment