برادرم عطاء الحق قاسمی سے میرے تعلقات کی عمر 35/36 برس ہو چکی ہے اور وہ میری اس کمزوری کو جانتا ہے کہ میں اس کی فرمائش عام طور پر نہیں ٹالتا۔ اب قاسمی صاحب نے فرمائش کی ہے کہ قائداعظم اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ”ڈاکٹر صاحب بھی اپنا حصہ ڈالیں“ تو میں اپنا تھوڑا سا حصہ ڈال رہا ہوں کیونکہ پورا حصہ ڈالنا کتاب کا موضوع ہے۔ اس کے بعد وہ دوسروں سے حصہ ڈالنے کی درخواست کریں گے یوں برادر عزیز قاسمی کا فرمائشی پروگرام چلتا رہے گا۔ ساڈی خیر اے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ میں نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر دیا اور میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا قارئین خود فیصلہ کر لیں کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ اب بحث دلائل کی بجائے لفظوں کا اکھاڑہ بن کر میرے دوستوں کی انا کا مسئلہ بن چکی ہے اس لئے اسے اک موڑ دے کر چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ اسی دوران منیر احمد نے اپنا خط ڈاک خانہ خاص عطاء الحق قاسمی میں ڈال دیا لیکن میں نے اسے اگنور کر دیا کیونکہ منیر صاحب نے یہی خط مجھے بھیجا تھا اور میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ چند برس قبل ڈان کے قائداعظم سپلیمنٹ 25 دسمبر میں میں نے ایک درد ناک مضمون پڑھا تھا جسے اس شخص نے لکھا تھا جو قائداعظم کے ساتھ آخری بار رتی کی قبر پر گیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ واقعہ اپریل 1947ء کا ہو جب قائداعظم بمبئی سے دلی آئے۔ انہوں نے اس مضمون کو ڈھونڈھنے کا وعدہ کیا اور وہی خط عطاء الحق قاسمی کے ڈاک خانے میں ڈال دیا۔ اچھا ہوا اس طرح ان کی کتاب کی مفت پبلسٹی ہو گئی۔ جو کام میں نے کرنا تھا وہ انہوں نے خود کر دیا۔ میں نے اس واقعہ کا ضمناً ذکر کیا تھا وگرنہ اس کا اس علمی بحث سے تعلق نہیں تھا کیونکہ یہ بحث قیام پاکستان کے بعد کے حالات سے تعلق رکھتی ہے۔ منیر صاحب کے خط میں دوسرا واقعہ ہنسوٹیا اور قائداعظم کے اے ڈی سی مظہر کے حوالے تھا جو شامی صاحب اس سے قبل اپنے کالم میں نقل کر چکے تھے۔ منیر صاحب اور شامی صاحب لاشعوری طور پر غلطی کر گئے کیونکہ یہ واقعہ تو میرے موقف کی حمایت کرتا ہے کہ قائداعظم قیام پاکستان سے قبل ہندوستان سے قریبی تعلقات (کینیڈا، امریکہ جیسے) چاہتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد جس طرح ہندوستان کی حکومت اور کانگریسی قیادت نے پاکستان کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی اس سے ان کا خواب چکنا چور ہو گیا اور ان کا ویژن بری طرح متاثر ہوا۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بحث عطاء الحق قاسمی صاحب کے ایک فقرے سے شروع ہوئی تھی اور میرا اب تک کا استدلال اسی فقرے کے گرد گھومتا ہے۔ قاسمی صاحب نے لکھا تھا کہ ان (قائداعظم) کی تو خواہش تھی کہ وہ ہر سال چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں جس کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ بات ہوائی اور انہونی لگتی ہے۔ میرے ذہن میں قیام پاکستان کے بعد سے ہندوستان کے قاتلانہ رویئے اور قائداعظم کی سوچ کا پورا پس منظر تھا اس لئے مجھے یہ بات انہونی لگی۔ یوں بھی قائداعظم اتنے فارغ کب تھے کہ ہر سال چند ہفتے گزارنے بمبئی جاتے۔ میری اس گزارش کے جواب میں شامی صاحب نے ہندوستانی سفیر کے 30/ جولائی 1948ء کے خط کا سہارا لیا جس میں قائداعظم نے مبہم سی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب کبھی حالات بہتر ہوئے تو وہ کسی دن بمبئی جانا چاہیں گے۔ اس خط سے بھی برادرم قاسمی کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی اور ابھی تک ان کے ڈاک خانے سے اس کے علاوہ کوئی اور ڈاکومنٹ برآمد نہیں ہوا۔ سیفما اور کچھ فرمائشی محققین گزشتہ کئی دنوں سے کتابیں کھنگال رہے ہیں جن کی نوید شامی صاحب نے اپنے کالم میں ”ایک اور خط“ کے الفاظ میں سنائی ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ پورا زور لگا لیں لیکن قاسمی صاحب کے اس خواب کو کہ قائداعظم ہر سال چند ہفتے بمبئی گزارنے کا ارادہ رکھتے تھے سچ ثابت نہیں کر سکیں گے اسی لئے میں نے اس بحث کو لاحاصل سمجھ کر بند کر دیا تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ قائداعظم ہندوستان پاکستان آمدورفت پر پابندی لگانا چاہتے تھے، یا وہ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا سوچ رہے تھے کیونکہ ستمبر 47 میں تو پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان ہندوستان گئے تھے، سرکاری وفود آ جا رہے تھے، متنازعہ معاملات پر بات چیت جاری تھی لیکن لاتعداد شواہد دستیاب ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم کا بھارت تعلقات کے حوالے سے ویژن سردمہری، دل شکنی اور مایوسی کا شکار ہو چکا تھا اور وہ بھارت کو گرمجوشی کا پیغام نہیں دینا چاہتے تھے۔ مشرقی پاکستان جاتے ہوئے بھارت اترنے سے انکار بھی اسی سوچ کا حصہ تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا ہمارے دشمن پاکستان کے قیام میں ناکامی کے بعد ملک کو اندرونی انتشار کا شکار کر کے ہماری ریاست کا شیرازہ بکھر دینا چاہتے ہیں… یہاں ہمارے اندر ایسے غیر ملکی ایجنٹ موجود ہیں جنہیں پیسہ باہر سے ملتا ہے، ان سے دور رہیئے وہ ملک کے دشمن ہیں۔ ہندوستانی لیڈر پاکستان ہندوستان میں جنگ کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ آج بھی صورتحال ایسی ہے کیا یہ الفاظ اس موقف کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں کہ قائداعظم کا بھارت کے ضمن میں ویژن بری طرح متاثر ہو چکا تھا جبکہ شامی صاحب نے اپنے گزشتہ کالم میں اصرار کیا ہے کہ ہندوستان کی قاتلانہ حرکتوں کے باوجود ”قائداعظم کا ویژن متاثر نہیں ہوا تھا۔“ میں پھر وضاحت کر وں کہ ویژن متاثر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے بھارت سے تعلقات ختم کرنے یا ورکنگ ریلیشن شپ کو منقطع کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس مطلب فقط اتنا سا ہے کہ بھارت کے حوالے سے ان کے رویئے پر سرد مہری، دکھ اور افسوس غالب آ گیا تھا جس کا اظہار انہوں نے متعدد بار کیا۔ قائداعظم نے برطانیہ کے وزیراعظم لارڈ اٹیلی کو یکم اکتوبر 47 کو خط میں بھی لکھا کہ ہمارے دشمن پاکستان کو ختم کرنے کے لئے اسے PARALYSE اور CRIPPLE کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ فقرے اور الفاظ وہ بعد ازاں بھی بار بار دہراتے رہے۔ اسی حوالے سے میر لائق علی خان نے لکھا ہے کہ میں جب قائداعظم سے ملا تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے ہمارے حصے کا کیش بیلنس اس لئے روکا ہے تاکہ پاکستان کو ختم کیا جا سکے۔ میر لائق علی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں قائداعظم کو کبھی اتنا جذباتی اور غمگین نہیں پایا مہاجرین کے قتل و غارت اور ان پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ دوسری طرف جب وزیراعظم لیاقت علی خان ماؤنٹ بیٹن کے مہمان خانے میں چند راتیں گزارنے کے بعد ستمبر 47 کے آخر میں لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو جنگ چھیڑنے دو پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے (بحوالہ و رپورٹ صفحہ 347) برادرم شامی صاحب نے مسرت زبیری کی کتاب سے وہ طویل اقتباس پیش کر دیا ہے جسے میں اختصار سے بیان کر چکا۔ زبیری صاحب کے الفاظ تھے کہ قائداعظم مشرقی پاکستان جاتے ہوئے ہندوستان میں رکنا نہیں چاہتے (Did not wish to land in India) میں نے گزشتہ کالم میں وضاحت کر دی تھی کہ یہ الفاظ نواب صدیق علی خان کے ہیں کہ وہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے۔ (بے تیغ سپاہی ص 364) برادرم شامی صاحب کی منطق ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے سردار عبدالرب نشتر اور نواب صدیق علی خان جیسے معتبر ثقہ راویوں کو اپنے ایک انتقامی فقرے سے اڑا دیا ہے۔ یہ دونوں حضرات حق گو، شریف النفس اور نیک فطرت انسان تھے اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ وہ نہ صرف کابینہ کی میٹنگوں میں موجود ہوتے تھے بلکہ قائداعظم کی سوچ اور ذہن کا بھی پورا ادراک رکھتے تھے۔ سردار عبدالرب نشتر تو مواصلات کے وزیر تھے اور سول ایوی ایشن کا محکمہ ان کے ماتحت تھا۔ مسرت زبیری بھی ان کے ماتحت تھے چنانچہ فائلیں انہی کے ذریعے قائداعظم کو جاتی تھیں۔
ان سے زیادہ قائداعظم کے ذہنی پس منظر کو کون جانتا ہے۔ ان کی سچائی ہمیشہ شکوک سے بالا تر رہی ہے۔ اگر کوئی سردار صاحب کے الفاظ کو زور خطابت کہہ کر رد کر دے تو کیا ایسے دوست سے علمی بحث ہو سکتی ہے؟ یہ سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گاندھی نومبر کے لگ بھگ پاکستان آنا چاہتے تھے اور جب یہ معاملہ کابینہ میں پیش ہوا تو قائداعظم جو بطور گورنر جنرل کابینہ پر صدارت کر رہے تھے نے کہا کہ اگر آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کیا تو میں اسے ویٹو کر دوں گا۔ برادرم شامی صاحب بجائے اس کے شریف المجاہد کی کتاب In Quest of Jinnah کا صفحہ نمبر 207 ملاحظہ فرماتے وہ گاندھی جی کی محبت کے گیت گاتے دور نکل گئے۔ میں تاریخی حوالہ دے کر لکھ رہا ہوں کہ قائداعظم ہندوستانی قیادت سے کس قدر دل برداشتہ ہو چکے تھے اور وہ ان کے مجسمے کا ذکر کر رہے ہیں جسے قائداعظم نے عوام کی نفرت کا نشانہ بننے سے روکنے کے لئے ہندوستانی سفارتخانہ کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ ایک مہذب انسان کا مہذب اقدام تھا۔ گاندھی جی کوئی عام شہری نہیں تھے کہ بغیر اطلاع کے تشریف لاتے۔ قائداعظم نے گاندھی جی کا راستہ کیوں روکا اس کی تفصیل Robert Payne کی گاندھی پر کتاب میں موجود ہے۔ شامی صاحب نے نہایت معصومیت سے اسے سکیورٹی کا مسئلہ قرار دے دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے گاندھی جی نے دونوں ملکوں کو متحد کرنے کے لئے لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ لاکھوں مہاجر ہندوؤں کو پاکستان واپس لا کر بسانا چاہتے تھے اور یہاں سے لاکھ مسلمان مہاجرین کو ہندوستان لے جانا چاہتے تھے۔ کیا قائداعظم کسی کو پاکستان ختم کرنے کی اجازت دے سکتے تھے؟ میں پھر عرض کر رہا ہوں کہ قائداعظم ہندوستان سے آمدورفت بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی میں نے کبھی ایسا لکھا۔ اس بحث کا مرکزی نقطہ برادرم عطاء الحق کا فقرہ تھا کہ قائداعظم سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اگر شامی صاحب اسے سچ کر دکھائیں تو میں اپنا موقف بدل لوں گا کیونکہ میں نہ ضد کا قائل ہوں اور نہ اس بحث کو طول دینا چاہتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment