Friday 18 May 2012

انتظار ہے؟ October 12, 2011

 آپ نے کبھی غور کیا کہ لوگ اقتدار سے نکلنے کے بعد بڑے سیانے، بہادر اور حق گو ہوجاتے ہیں۔بعض نہایت ملائم اور خوش اخلاق بھی ہوجاتے ہیں تاہم بعض کے مقدر میں اکڑپن اور غرور لکھا ہوتا ہے ،چنانچہ ا قتدار سے نکلنے کے بعد بھی ان کی اکڑفوں میں فرق نہیں پڑتا۔ دراصل اقتدار کی دیوی انسان کے ذہن اور آنکھوں پر ایک باریک سا ریشمی پردہ ڈال دیتی ہے جس سے دنیا بڑی حسین اور خوبصورت لگتی ہے۔ انسان ہوا کے دوش پر رہتا اور اقتدار کے آسمانوں کی سیر کرتا ہے، چنانچہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور عام لوگ اسے کیڑے مکوڑے کی مانند لگتے ہیں، چنانچہ آہستہ آہستہ اختیارات ،مراعات،پروٹو کول اور درباریوں کی خوشامد اسے ایسی اعلیٰ ترین مخلوق بنادیتی ہیں اور غرور اس کے ذہن میں گھر بنالیتا ہے۔ ایک بار غرور کا نشہ ذہن میں گھس جائے تو پھر وہ ہاتھوں، زبان، آنکھوں اور سوچ میں بھی سرایت کرجاتا ہے اور انسان کی ہر ادا سے ظاہر ہونے لگتا ہے ۔فقر کو چھپا یا جاسکتا ہے لیکن غرور کو نہیں، بھوک و افلاس کو چھپایا جاسکتا ہے لیکن امارت اور دولت کو نہیں اور اسی طرح منافقت کو چھپایا جاسکتا ہے لیکن حقیقت کو نہیں۔اسی حوالے سے جب سابق حکمرانوں میں سے کوئی شیخی یا بڑھک مارے کہ میں اقتدار میں آکر قوم کا مقدر بدل دوں گا، شہد اور دودھ کی نہریں جاری کردوں گا، لوڈ شیڈنگ اور غربت کا خاتمہ کردوں گا تو میں ایسے بیانات پڑھ کر سوچنے لگتا ہوں کہ حضور جب آپ ملک کے حاکم اعلیٰ تھے اور قوم کا مقدر آپ کے ہاتھوں میں تھا تو آپ کو دودھ اور شہد کی نہریں بہانے سے کس نے روکا تھا؟ اس وقت تو آپ ساتویں آسمان پر کھڑے ہو کر باتیں کرتے تھے، لوگوں کو کیڑے مکوڑے اور احمق سمجھتے تھے، اب کہتے ہیں کہ قوم کا مقدر بدل دوں گا۔ خاص طور پر جنرل پرویز مشرف کی بڑھکیں اور”پھڑیں“ سن کر میں بہت لطف اندوز ہوتا ہوں کیونکہ مشرف کو نہایت محفوظ ،پرامن اور مستحکم دور حکومت ملا لیکن ملک کو صنعت و تجارت، سائنس اور زراعت میں نہایت ترقی یافتہ بنانے کی بجائے وہ ہمیں امریکہ کی غلامی اور دہشتگردی کے حوالے کرگیا۔ مشرف کے حواری جن اعداد و شمار کے دعوے کرتے ہیں وہ اکثر قوم کو دھوکہ دینے کے لئے گھڑے اور ایجاد کئے گئے تھے۔
اب تمام سابق حکمران کرسی حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں، قوم کے کمزور حافظے کا فائدہ اٹھارہے ہیں اور قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے خواب دکھا رہے ہیں۔ درست ہے کہ اس میں موجودہ حکمرانوں کی پے در پے ناکامیوں اور نالائقیوں کا بھی عمل دخل ہے کیونکہ اگر موجودہ حکومت نے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہوتا اور لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات کئے ہوتے تو آج سابق حکمرانوں کو ہماری حالت زار پر آنسو بہانے اور قوم کو خواب دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔ موجودہ حکمران ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کی بجائے دولت کمانے اور قوم کو بھکاری بنانے کی راہ پر چل نکلے۔ بینظیر سپورٹ پروگرام سے لے کر دوسرے امدادی پروگراموں تک کا مقصد لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنا اور روزی کمانے کے قابل بنانا نہیں بلکہ انہیں سرکاری امداد کا خوگر بنا کر ووٹ حاصل کرنا ہے۔ یقین کیجئے کہ اگر نالائق سے نالائق حکمران بھی خلوص نیت اور نیک نیتی سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، صنعتوں کی ترقی اور لوگوں کو احساس تحفظ مہیا کرنے کے لئے حکمت عملی بناتا اور صرف دو نقاتی پروگرام پر فوکس کرتا تو پاکستان کو پانی،کوئلے، سورج کی روشنی اور ہوا کی شکل میں قدرت نے اتنے وسائل عطا کئے ہیں کہ تین برسوں میں پاکستان وافر بجلی پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔نتیجے کے طور پر صنعت ترقی کرتی، تجارت پھیلتی، لوگوں کو نوکریاں اور ذرائع آمدنی میسر آتے، برآمدات بڑھ کر غیر ملکی زرمبادلہ بڑھانے کا ذریعہ بنتیں اور آج پاکستان سے سرمایہ بنگلہ دیش، ملائشیاء، تھائی لینڈ یا یو اے ای جانے کی بجائے وہاں سے سرمایہ کار یہاں آرہے ہوتے۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ نالائق قیادت بدنیت قیادت سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ نیت کے کھوٹ کا کوئی علاج نہیں جبکہ نالائقی کا قابل مشیروں سے علاج کیا جاسکتا ہے۔ میں بیرون ملک امریکہ یا انگلستان جاتا ہوں تو بڑی تعداد میں ایسے پاکستانی ملتے ہیں جو وطن کی خدمت کے جذبے سے معمور ہیں، کوئی سائنس ،تعلیم، ریسرچ، معاشی منصوبہ بندی، قدرتی وسائل کی ترقی یا پانی کی قلت کے میدان میں خدمت کرنا چاہتا ہے تو کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری، صنعت اور بزنس کی آرزو رکھتا ہے لیکن سبھی اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔ اچھا وقت وہ ہوگا جب ملک کو سیاسی استحکام، ایماندار اور خدمت کرنے والی قیادت میسر آئے گی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ لوگوں کو احساس تحفظ ملے گا، بھتہ خور، لینڈ اور ڈرگ مافیاز اور اغواء برائے تاوان سے نجات ملے گی۔ میرے نزدیک اس کی پہلی شرط ایماندار، اہل اور مضبوط قیادت ہے کیونکہ ایسی قیادت ہی دوسرا سامان مہیا کرسکے گی اور مافیاز کو نیست و نابود کرکے احساس تحفظ کی چھتری فراہم کرسکے گی۔ دل جلتا ہے کہ سارے ملک میں قبضہ مافیاز سرکاری زمین اور املاک پر قابض ہیں اور اس زمین کی قیمت ہزاروں اربوں روپے میں ہے لیکن حکومت نہ اس زمین کو واپس لے سکی ہے نہ قبضہ گروپوں کو ختم کرسکی ہے۔ مسائل کا علاج دور نہیں صرف قبضہ گروپوں سے اربوں کی زمین اور پراپرٹی لے کر نہ صرف ریلوے جیسے دم توڑتے محکمے کو ڈوبنے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ اس پراپراٹی کو فروخت کرکے کھربوں روپے سرکاری خزانے میں بھرے جاسکتے ہیں جن سے ترقیاتی منصوبے تشکیل دئیے جاسکتے ہیں، چھوٹے ڈیم بنا کر اور سولر انرجی، ونڈانرجی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرکے لوڈ شیڈنگ کی اذیت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے اندر جا بجا اتنے وسائل موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے لئے بصیرت، حکومتی ارادے اور نیک نیتی کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری قیادت ان اوصاف سے محروم ہے۔ ہم نے ہی ا نہیں ووٹ دئیے تھے، اس لئے”ہور چوپو“۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ لوگ اقتدار سے نکل کر بڑے سیانے، بہادر اور محب الوطن ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اپنی سیاسی کٹیا جلاکر اور سر پر قرآن مجید رکھ کر متحدہ پر الزام لگایا۔ اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والی پارٹیوں کے خلاف ریفرنس بھیجے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں، وقت بدلنے کا انتظار کیجئے۔شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ اقتدار میں شامل حضرات دولت لوٹ کر سوئٹزر لینڈ بھجوارہے ہیں، سپریم کورٹ نے خاصا عرصہ قبل کہا تھا کہ زرداری صاحب کے کوٹیکنا اور دوسر ی کمپنیوں سے حاصل کردہ کمیشن کی رقم کو وطن واپس لایا جائے لیکن حکومت نے آج تک خط نہیں لکھا۔ اچھے وقت کا انتظار کیجئے۔
کہا جاتا ہے کہ سوئٹزر لینڈ میں پاکستان سے لوٹے گئے پانچ سو ارب ڈالر بینکوں میں پڑے ہیں۔ اس رقم کو حکومتی حکمت عملی کے تحت واپس لایا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ رقم اس سے کم یا زیادہ ہو لیکن بہرحال موجودہ حکومت اس ضمن میں نہ کوئی ا قدام کرے گی نہ اپنے آپ کو اور ساتھیوں کو بے نقاب ہونے دے گی۔ یہ رقم پوری نہ سہی نصف بھی واپس لا کر ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ مجھے اس کرامت کے ظاہر ہونے کے لئے اچھے وقت کا انتظار ہے۔ بے شمار سیاستدانوں ا ور اراکین اسمبلیوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں انہیں واپس لا کر ملک کی مردہ معیشت میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے ۔ مجھے اس کے لئے بھی اچھے وقت کا انتظار ہے لیکن اچھا وقت میں نہیں لاسکتا، وہ صرف آپ لاسکتے ہیں۔ گویا آپ کا مقدر آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ آپ چاہیں تو اپنا مقدر بدل سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment