Saturday 19 May 2012

آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر January 13, 2012


حالات کا گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا ہے اور دور دور تک کوئی ایسا شہسوار نظر نہیں آتا جو اس بگٹٹ گھوڑے کو لگام دے سکے۔ اگلے لمحے یا اگلے دن کیا ہو گا یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ ناسمجھ اور کم فہم حکمرانوں نے پے در پے غلطیاں کر کے اور جذبات کے انگاروں کو بھڑکا کر نہ صرف حالات پر بے یقینی کا غلاف چڑھا دیا ہے بلکہ ایسی آگ بھی جلا دی ہے جس کے بجھنے کی امید نظر نہیں آتی۔ کچھ عرصے سے حکومتی نمائندے اور پی پی پی کے نوخیز جیالے محاذ کھولنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ وہ کبھی سپریم کورٹ اور عدلیہ پر بے انصافی اور جھکاؤ کے الزامات لگاتے اور کبھی فوج پر طنزیں کرتے تھے۔ بالآخر یہ کم فہم جیالے اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش میں دونوں محاذ گرم کر دیئے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف فوج کو گھورا جا رہا ہے۔ ان جیالوں کا گرم لہو اور انگارے برساتی زبانیں بالآخرقوم و ملک کو بحران میں مبتلا کر دیں گی۔ انہیں زنداں کی سیر کا شوق چرایا ہے اور وہ جلد از جلد شہید بن کر ہمدردی کی لہر پر سوار ہونا چاہتے ہیں اور سیر زنداں کر کے اپنی بہادری اور وفاداری پر مہر تصدیق لگوانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم مجھ جیسے کم نظروں کو ان کی اچھلی کودتی پریس کانفرنسوں اور فلمی اداکاری میں اس کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا یا محرک نظر نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے آستینوں کے نیچے کچھ اور بھی چھپا کر رکھا گیا ہو اور اس کھیل کے پیچھے اور کوئی مقصد بھی ہو جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ حکمران پارٹی ایسے سمجھدار، بالغ ذہن اور بابصیرت حضرات سے محروم ہے جو ایسے مواقع پر بھڑکتی آگ پر قابو پاتے، جیالے سیاسی اداکاروں کی زبانوں کو لگام دیتے اور حالات کا رخ موڑتے ہیں۔ صدر صاحب بلاشبہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی چالوں سے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو رام کر کے اپنا سیاسی حلیف بنا رکھا ہے لیکن جب سے میمو سکینڈل پر تحقیق و تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس کے ڈانڈے ایوان صدارت کی طرف بڑھنا شروع ہوئے ہیں صدر صاحب بھی گھبرا کر یا خوفزدہ ہو کر جوشیلے جیالوں کی پشت پناہی کرنے لگے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محاذ آرائی، آنکھیں دکھانا اور بڑھکیں مارنا صدر صاحب اور ان کے دوستوں کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ اسے وقتی ردعمل یا سیاسی بلبلہ نہیں کہا جا سکتا۔ تصادم کی فضا پیدا کرنا اور مخالفت پیدا کر کے محاذوں کو گرم کرنا حکمرانوں کی سیاسی چال ہے جسے سیاسی اور آخری چارہ کار کے طور پر اپنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد مخالفوں پر دباؤ ڈالنا ہے اور اگر دباؤ کامیاب نہ ہو تو پھر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنا ہے۔ پارلیمنٹ میں کامیابی حلیفوں کی مرہون منت ہے اور ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی حلیف عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذوں میں شامل نہ ہوں تو پھر پی پی پی کی حکمت عملی میدان میں اترناہو گی اور اپنے جیالے کارکنوں کو سڑکوں پر لانا ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو سیاسی ٹکراؤ اور تصادم اور بالآخر بدامنی اور ہنگاموں کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس صورت میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن پی پی پی کے مقابلے میں اتریں گے اور تصادم کے امکانات کو تیز کریں گے۔ معاشی بدحالی، لوڈشیڈنگ اور عوامی بے چینی بھی اپنا حصہ ڈالے گی جس سے فضا گھمبیر ہو سکتی ہے اور صورت حال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔
اگر آپ گزشتہ دو ماہ کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ حکومت عدلیہ اور حکومت فوج میں فاصلے مسلسل بڑھتے رہے ہیں جن کی بنیادی وجہ عدلیہ کا رینٹل پاور ہاؤسز، ریلوے، این آئی ایل سی، سٹیل ملز ، پی آئی اے اور پنجاب بنک سکینڈلز یا لوٹ مار کا نوٹس لینا تھی۔ حکومت کی کرپشن اور نااہلی کا پردہ ہر روز چاک ہو رہا تھا جس سے حکمران سیخ پا ہو رہے تھے۔ اس پس منظر میں عدلیہ پر بے انصافی اور سیاسی جھکاؤ کے الزامات لگائے گئے اور عوامی سطح پر یہ پیغام دیا گیا کہ پی پی پی کو کبھی بھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا اور یہ کہ عدلیہ ایئر مارشل اصغر خان کی رٹ اور حدیبیہ پیپر ملز کا کیس تو نہیں سنتی کیونکہ ان سے میاں نواز شریف پر زد پڑتی ہے لیکن ہمارے خلاف کرپشن کے مقدمات ہر روز سنے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں طریقے طریقے سے توہین عدالت کی جاتی رہی اور عدالت عظمیٰ پر سیاسی جھکاؤ کا الزام لگایا جاتا رہا۔ پھر این آر او آ گیا جس پر عدالت دو سال قبل فیصلہ سنا چکی تھی اور حکومت کو خط لکھنے کا حکم دے چکی تھی۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو ایئر مارشل اصغر خان کی رٹ بھی سننی چاہئے تھی اور حدیبیہ پیپر ملز کے خلاف کیس بھی سننا چاہئے تھا تاکہ تاخیر سے غلط فہمیاں جنم نہ لیتیں لیکن اس سے قطع نظر عدالت کا حکم نہ ماننے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سوئٹزر لینڈ حکومت کو خط لکھنا ایسا خطرناک معاملہ بنتا جا رہا ہے جس نے پورے نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بے نظیر کی قبر کے ٹرائل کا جواز یا بہانہ محض اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے کیونکہ اگر حکمران معصوم ہیں تو انہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر انہوں نے کمیشن کے چھ کروڑ ڈالر وصول کئے تھے تو انہیں دل پر پتھر رکھ کر وطن واپس لے آتے اور خزانے میں جمع کروا کر قوم پر احسان جتا سکتے تھے۔ اس سے حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اول تو دو ارب ڈالر کے اثاثوں میں سے چھ کروڑ ڈالر نکالنا دریا میں سے چلو بھر پانی کے برابر ہے۔ دوم پی پی پی کا ووٹ بینک مضبوط ہے اس سے ان کے ووٹ بینک پر اثر نہ پڑتا اور سوم قوم پر یہ احسان کرنے کے بعد وہ دوسرے لیڈروں کو بھی بیرون وطن سے اثاثے واپس لانے کے لئے مہم چلا سکتے تھے۔ میں نے لکھا ہے کہ چھ کروڑ ڈالرز کی واپسی سے حکمرانوں پر اثر نہ پڑتا کیونکہ بی بی کے پیارے مخدوم امین فہیم کے اکاؤنٹ میں اچانک این آئی ایل سی فراڈ کے چھ کروڑ نکل آئے جوانہوں نے نہایت شرافت سے واپس کر دیئے تو اس سے ان کی سیاسی صحت پر کیا اثر پڑا؟ اگر پتہ نہ چلتا تو راز، راز ہی رہتا۔
فوج اور آئی ایس پی آر کی وضاحت محض وضاحت نہیں بلکہ وارننگ ہے۔ وضاحت یہ نہیں کہتی کہ اس سے سنگین نتائج نکلیں گے۔ اگر آئی ایس پی آر کی ریلیز کو ذرا دھیان سے پڑھا جائے تو یہ ایک طرح سے جوابی حملہ ہے اس لفظی جنگ کا جو ہمارے بھولے بھالے وزیر اعظم نے نہایت خلوص سے چھیڑی تھی۔ وہ کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے اقتدار کی بساط لپیٹی جا رہی ہے جبکہ ان کی مہم کے انجن ڈاکٹر بابر اعوان صاحب تابوت میں کیلیں ٹھونکنے کا انکشاف بھی کر چکے ہیں۔ مجھے فوج کا ردعمل قدرے سخت لگا اور وزیر اعظم کا معصوم اعتراف یاد آیا جس میں انہوں نے ریاست کے اندر ریاست کا ذکر کیا تھا۔ سارے منظر نامے اور اس کے پس منظر پر غور کریں تو یہ سارا کم فہمی، رابطوں کے فقدان، جلد بازی اور پوائنٹ سکورنگ کا کیا دھرا لگتا ہے۔ جب فوج اور آئی ایس آئی بار بار کہہ رہی تھی کہ میمو حقیقت ہے اور ہم انکوائری کرنے کے بعد یہ رائے دے رہے ہیں تو حکومت کو بار بار اسے محض کاغذ کا ٹکڑا، نان سنس اور سازش کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ میمو دال میں کچھ کالا ہے چنانچہ حکومت کی بیک وقت سپریم کورٹ اور فوج سے ٹھن گئی۔ اگر وزیر اعظم صاحب کی رائے تھی کہ فوج نے سپریم کورٹ میں جواب بھجواتے ہوئے رولز آف بزنس سے انحراف کیا ہے تو وزیر اعظم صاحب کو یہ مسئلہ پریس میں اچھالنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ یا تو آرمی چیف سے بات کرتے اور یا پھر حکومتی طریقہ کار کے مطابق وضاحت طلب کرتے۔ کل فوج کی وضاحت آئی تو ساتھ ہی ٹرپل ون بریگیڈ کی خبر آ گئی جو محض اتفاق تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے رابطوں اور بصیرت کے فقدان، جیالی ذہنیت اور کم عقلی سے فضا بگاڑی جا رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور سمجھداری سے قابو نہ پایا گیا تو اس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ میں نے گزشتہ ماہ لکھا تھا کہ دو شخصیات جن کے عہدوں کے ساتھ لفظ چیف آتا ہے مل کر ملک میں تبدیلی لائیں گے۔ علم قیافہ کے مطابق حالات اس رخ پر جا رہے ہیں لیکن ابھی اس میں کچھ وقت لگے گا۔ غیب کا علم صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہم تو اندازوں اور قیافوں کے دشت کے سیاح ہیں۔

No comments:

Post a Comment