Sunday 20 May 2012

آرزو ہے چراغ سینے کا March 31, 2012


نوجوان پوچھتے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ میرا فوری جواب ہے کہ مایوسی انسان کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے جبکہ جذبہ، آرزو اور ہمت یا کوشش انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں ۔ میرے استاد اور دوست مرزا محمدمنورمرحوم کا قطعہ ہے
آرزو سے ہے گرمئی خاطر
آرزو ہے چراغ سینے کا
آرزو خام ہی سہی اے دوست
آرزو آسرا ہے جینے کا
جن کے سینے آرزو سے خالی ہو جائیں اور دل پر مایوسی کی تاریکی قبضہ کر لے وہ اندھیروں کے مسافر بن کر ہر وقت اندھیرے ہی پھیلاتے رہتے ہیں ۔ مایوسی نہ ہی صرف انسان کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے بلکہ اسے اس قدر سنگدل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے جگر پاروں، دل کے ٹکڑوں اور اللہ سبحانہ  تعالیٰ کی نعمت پھول جیسے بچوں کو فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے یا خودکشی کر لیتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ یہی مایوسی اگر قومی یا ملکی حوالے سے ہو تو انسان نہ صرف ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے لگتا ہے بلکہ مایوسی کا پیامبر بن کر قوم کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے لگتا ہے اور قوم کی آرزوؤں اور امنگوں کے چراغ بجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ اس میں کوئی بدنیتی شامل ہو کیونکہ بعض اوقات لوگ حوصلے اور ہمت کے فقدان کا شکار ہو کر خلوص نیت سے مایوسی پھیلانے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں اور اسے حقیقت پرستی کا نام دیتے ہیں ۔ زمینی حقائق یا حقیقت پسندی کا تصور بھی ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ معروضی حالات کی خرابی یا پستی کو ماضی کی روشنی میں محض وقتی پیش رفت سمجھ کر مستقبل سے بہتر امیدیں رکھتے ہیں اور ان امیدوں اور آرزوؤں کی شمعیں جلا کر قوم کو حالات بہتر بنانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اس طرح لوگوں کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچا لیتے ہیں ۔ قرآن حکیم اور حدیثوں میں مایوسی کو کفر کہا گیا ہے کیونکہ مایوسی ایک طرح سے خدا کی رحمت سے انکار ہے بلکہ بالاخر خدا ہی سے انکار ہے اگر انسان خدا کی رحمت سے مایوس ہوا تو گویا خدا ہی سے مایوس ہو گیا۔
کتابیں بتاتی ہیں کہ جب7 185ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے اقتدار پر پوری طرح قبضہ کر لیا اور اس جرم کی پاداش میں لاکھوں مسلمانوں کو انتقام کا نشانہ بنایا تو مسلمان معاشرہ تین حصوں میں بٹ گیا ۔ ایک حصہ مایوسی کا شکار ہو کر گھروں میں بند ہوگیا یا شہروں سے بھاگ کر دور دراز دیہاتوں کی طرف ہجرت کر گیا۔ یا کسی ہمسائے ملک میں پناہ گزین ہو گیا، ایک چھوٹے سے حصے نے عسکری جدوجہد اور جہاد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر تقریباً پانچ دہائیوں تک کسی نہ کسی طرح انگریزوں کے خلاف برسرپیکار رہا ۔ تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو ریشمی رومال کی تحریک اس سلسلے کی آخری کڑی تھی ۔ معاشرے کے تیسرے طبقے نے مایوسی کا شکار ہو کر نہ ملک اور شہروں کو ترک کیا اور نہ ہی بے سروسامانی میں غیر منظم عسکری جدوجہد کا ساتھ دیا بلکہ ایک درمیانہ راستہ تلاش کیا اور اس پر چل کر قوم کو آزادی کی راہ پر ڈال دیا وہ درمیانی راستہ کیا تھا ؟ درمیانی راستے کے رہنما سرسید احمد خان تھے جنہوں نے اول تو مسلمانوں کو انگریزوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے کوششیں کیں، پھر انہیں تعلیم کا راستہ دکھا کر منظم کرنے کے لئے جدوجہد کی اور پھر انہیں آزادی کی روشنی دکھا کر آئینی جدوجہد کا درس دے کر رخصت ہو گئے۔ اسی شمع کو پہلے سر آغا خان ، وقار الملک، محسن الملک اور سرسید کے دوسرے ساتھیوں نے آگے بڑھایا اور اسی شمع کو ہاتھ میں تھام کر قائد اعظم نے جدوجہد کی اور پاکستان بنا کر تاریخی معجزہ سرانجام دے دیا ۔ آج تاریخ میں مایوسی پھیلانے والوں، مایوسی کا شکار ہو کر ہجرت کرنے والوں، گھروں میں بند ہو کر واویلا کرنے والوں اور حقیقت پسندی کی آڑ میں خودکشی کا درس دینے والوں کا کوئی ذکر موجود نہیں کیونکہ تاریخ جدوجہد کرنے والوں، حالات کو بدلنے والوں اور مایوسی کے خلاف لڑنے والوں کو یاد کرتی ہے نہ کہ امید کی شمعیں بجھانے والوں کو …یقین کیجئے خود فریبی یا دوسروں کو دھوکہ دینا قومی جرم ہے قوم پستی کی جانب رواں دواں ہو تو یہ سمجھنا اور پرچار کرنا کہ ہم ترقی کی بلندیاں طے کر رہے ہیں یقینا خود فریبی ہے ۔ اسی صورتحال میں ایک ردعمل تو یہ ہوتا ہے کہ پستی کا راستہ روکا جائے یا قوم کو خطرات سے آگاہ کیا جائے اور حالات کا رخ بدلنے کی سعی کی جائے دوسرا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ مایوسی کا درس دیکر پستی کی جانب رفتار کو مزید تیز کیا جائے ۔ گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دو، یہی وجہ ہے کہ خدا کی آخری کتاب اور خدا کے آخری رسول ﷺنے توازن پر زور دیا ہے ۔ آپ ﷺ کی زندگی اسوہ حسنہ توازن کی بہترین مثال ہے ، امید ، جدوجہد اور خدا کی رحمت پر اٹل یقین کا عملی نمونہ ہے ۔ اگر کوئی شخص غربت اور فاقہ کشی کے ہاتھوں نڈھال ہو کر آپﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے اسے مایوس ہو کر خودکشی یا بچے فروخت کرنے کے لئے کھلا نہیں چھوڑا بلکہ عملی جدوجہد اور محنت کا درس دے کر پاؤں پر کھڑے ہونے کی تلقین کی ۔ اس طرح کی بے شمار کہانیاں تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ہم ان سے روشنی حاصل نہیں کرتے اور مایوس ہو کر کفر کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں ۔
قوموں کی زندگی عروج و زوال کی کہانی ہوتی ہے جس قوم کو جاپان، چین، سنگاپور، ملائیشیا وغیرہ کی مانند اچھی قیادت میسر آتی ہے وہ غربت ،پستی اور زوال سے نکل کر ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو جاتی ہے اور جسے نالائق قیادت ملتی ہے وہ ترقی کرتے کرتے پستی کی جانب محوسفر ہو جاتی ہے ۔ پاکستان نے اگست 1947ء میں اپنے سفر کا آغاز ”بدترین“ حالات میں کیا ۔ خزانہ خالی، صنعت وحرفت نایاب، وسائل کا قحط اور اس پر مستزاد لاکھوں مہاجرین اور بے سروسامانی، اسی پاکستان نے پچاس کی دہائی میں ہندوستانی دباؤ کے باوجود کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے سے انکار کر دیا، دوسرا بجٹ سرپلس پیش کیا اور چند برسوں میں معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر لیا۔1959ء کی عالمی بنک کی رپورٹ پڑھیئے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت (اکانومی ) مستحکم اور خوشحالی کی جانب بڑھ رہی تھی جبکہ ہندوستانی اکانومی کمزور اور غربت کا شاہکار تھی ۔ اسی لئے ممتاز امریکی پروفیسر لیوروز نے 1958ء کے ایوبی مارشل لاء پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر معیشت کی بدحالی مارشل لاء کا سبب تھی تو پھر مارشل لاء ہندوستان میں لگنا چاہتے تھا نہ کہ پاکستان میں ۔ کیا آپ کو علم ہے کہ ایوبی دور حکومت میں پاکستان کو ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ترقی کے رول ماڈل کے طور پر پڑھایا جاتا تھا ۔دور نہ جائیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستانی معیشت کی ترقی کی شرح نمو آٹھ نو فیصد تھی جو موجودہ حکومت کی نالائقی کے سبب ڈھائی تین فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ ہم نے خود اپنے ملک میں عروج و زوال کی داستانیں دیکھیں اور تجربہ کی ہیں۔اسی لئے موجودہ بدحالی کو اپنا مقدر سمجھ کر مایوسی کا شکار نہ ہوں، اور نہ مایوسی پھیلائیں بلکہ قوم کو مایوسی سے نکلنے کا راستہ دکھائیں ۔ اتنی ٹھوکریں کھانے کے بعد قوم کو سمجھ لینا چاہئے کہ ملکی ترقی کا راز ایماندار اور اہل قیادت میں مضمر ہے ۔ پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے وسائل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں ، اچھی قیادت کی کمی ہے اور اچھی قیادت کا انتخاب قوم کا فرض ہے اس لئے ہم خود موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں اور خودکوشش کرکے موجودہ پستی سے نکل سکتے ہیں ۔ توازن، امید اور جدوجہد کا دامن نہ چھوڑیں اسی میں روشن مستقبل پنہاں ہے ۔
 

No comments:

Post a Comment