Saturday 19 May 2012

مجاہدہ (2) October 22, 2011

میں یہ عرض کر رہا تھا کہ حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش  کی کتاب کشف المحجوب روحانیت کا خزانہ ہے، ایک سمندر جو بہہ رہا ہے اور اگر آپ اس سے چند قطرے بھی ”پی “ لیں تو باطنی تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اصلی تبدیلی باطنی تبدیلی ہی ہوتی ہے، ظاہری تبدیلی تو دکھاوے کا نام ہے اس لئے اس کتاب کو صرف پڑھنا کافی نہیں بلکہ اسے سمجھنا، قلب و روح میں اتارنا اور حرزِجاں بنانا ضروری ہے لیکن یہ نہایت مشکل کام ہے۔ جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ توفیق دے۔ گزشتہ کالم میں میں نے مجاہدہ کے حوالے سے غصہ پر قابو پانے اور انتقام نہ لینے کا ذکر کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ غصہ پی جانا اور زیادتی برداشت کر کے انتقام کو دل سے نکال دینا مجاہدے ہی کا چھوٹا سا حصہ ہے بشرطیکہ یہ کام کسی دنیاوی مصلحت یا فائدے کی بجائے رضائے الٰہی کیلئے کیا جائے۔ ہر چیز، فیصلے اور عمل میں رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھنا ہی مسلمان کا تقاضا ہے اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ مسلمانی کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ رضائے الٰہی کے تابع ہونے کیلئے اپنے نفس کو تابع کرنا اور اس پر فتح پانا پہلا قدم ہے ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ نفس پر قابو پانے کی بہت سی جہتیں اور قسمیں ہیں لیکن اگر مرغوبات اور خواہشات سے دل کو پاک کر لیا جائے تو نفس مطیع ہو جاتا ہے۔ یہ عمل طویل ہے اور مجاہدہ مانگتا ہے کیونکہ اس میں اپنے اوپر کڑی نگاہ رکھنی پڑتی ہے اور چوکس رہنا پڑتا ہے۔ عام طو رپر نفس خدا کی نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے چنانچہ اگر آپ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے دنیاوی خواہشات و مرغوبات پر قابو پا لیں اور دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا سیکھ لیں تو گویا آپ نے رضائے الٰہی کے حصول کے سفر کا آغاز کر دیا۔ یاد رکھئے دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا نفس پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے۔ حضرت داتا گنج بخش  لکھتے ہیں ”نافع کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عمر  کو مچھلی کی خواہش ہوئی۔ میں نے سارے شہر میں تلاش کی مگر کہیں دستیاب نہ ہوئی۔ چند روز کے بعد مچھلی ملی تو آپ نے اس کے کباب تیار کرنے کا حکم دیا۔ نافع  کہتے ہیں جب میں نے کباب تیار کر کے آپ کے سامنے رکھے تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اتنے میں ایک سائل نے دروازے پر آ کر صدا دی۔ آپ نے حکم دیا کہ یہ کباب اس سائل کو دے دو۔ نافع  کہتے ہیں کہ ہم نے بہت کہا کہ اتنے روز سے آپ کو مچھلی کا شوق تھا بڑی مشکل سے ملی ہے ۔ سائل کو کوئی اور چیز دے دیتے ہیں لیکن حضرت عبداللہ بن عمر  نے فرمایا میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے، ترجمہ: ” جس کسی کو کوئی خواہش ہو اور وہ خواہش کو پا لے اور پھر اس سے اپنا ہاتھ روک کر دوسرے کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دے کر اسے وہ چیز دے دے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا“۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کر کے حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے مچھلی کی خواہش کو دل سے نکال دیا ہے اور اب اس کا کھانا مجھ پر حرام ہے۔ اسے اس سائل کو دے دو“۔ میں نے کسی معتبر کتاب میں کسی ولی کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ بازار سے گزر رہے تھے تو حلوائی جلیبیاں تیار کر رہا تھا۔ ان کے دل میں جلیبیاں کھانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی لیکن خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے چنانچہ انہوں نے سارا دن مزدوری کی اور شام کو مزدوری کے پیسوں سے گرم گرم جلیبیاں خریدیں۔ کھانے لگے تو احساس ہوا کہ یہ تو میرے نفس کی خواہش تھی چنانچہ وہ جلیبی کو منہ کے قریب لاتے اور یہ کہہ کر اسے پھینک دیتے کہ میرے نفس تو اسے کھاناچاہتا ہے ، اور کھا … خواہش کو شکست دینا نفس پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے۔ حضرت داتا گنج بخش حضرت امام حسین  کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”ایک روز ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : اے ابن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک حاجت مند آدمی ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں آج رات کی خوراک آپ سے چاہتا ہوں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جو غالباً خود بھی اسی حالت میں مبتلا تھے اس لئے آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ، میرا رزق چلا آ رہا ہے آ جائے تو آپ کو دیتا ہوں۔ کچھ دیر بعد ایک ایک ہزار سرخ دینار کی پانچ تھیلیاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک شخص لایا۔ حضرت حسین  نے وہ پانچوں تھیلیاں اس حاجت مند کو دے دیں اور ساتھ ہی معذرت کرتے ہوئے فرمایا : بھائی ہم سخت آزمائش میں مبتلا ہیں۔ ہم نے دنیا کی تمام خوشیاں ترک کر دی ہیں اور اپنی مرادیں اور ضروریات کم کر لی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو اتنی دیر انتظار کی زحمت دی اور اس سے زیادہ کچھ نہ دے سکا“۔ اپنی ضرورت اور حاجت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینے کی یہ شاندار مثالیں ہیں اور ان پر جس قدر عمل ہو سکے عمل کر کے نفس کو مطیع کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم وسیع معنوں میں کمزور لوگ ہیں اور ان بزرگوں کے نقش قدم پر پوری طرح چلنا ہمارے بس کا روگ نہیں لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر بھی ہو سکے، جتنا ہو سکے ان پر عمل کر کے اپنی ناجائز، باغی اور طاقتور خواہشات پر فتح حاصل کی جا سکتی ہے اور ہمارا وہ نفس جو دنیا کی جعلی و مصنوعی عزت، خوشامد ، تعریف، شہرت، عہدے اور حیثیت سے پرورش پا کر موٹا ہوتا رہتا ہے اور ہم پر غالب آ جاتا ہے اسے کسی حد تک ڈسپلن کیا جا سکتا ہے اور مزید طاقتور ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
یوں تو بحیثیت مسلمان ہم سب توحید پر ایمان رکھتے ہیں لیکن کبھی غور کیا کہ توحید سے مراد کیا ہے؟ حضرت داتا گنج بخش  حضرت حسین بن منصور رحمة اللہ علیہ کے فرمان کا حوالہ دیتے ہیں کہ توحید کی راہ کا سب سے پہلا قدم ہر اس کو فنا ہے جو خدا سے الگ اپنے آپ کو منوانے کا داعی ہے۔ یعنی پہلا قدم شرک کی نفی ہے۔ حضرت حضرمی  فرماتے ہیں توحید میں پانچ چیزیں بنیادی ہیں ایک حدث (ماسوا اللہ) کی نفی، دوم اللہ کا اثبات، سوم خواہشات اور مرغوباتِ نفس کا ترک ، چہارم خدا سے غافل لوگوں سے الگ ہو کر خدا کی طرف یکسو اور متوجہ ہونا، پنجم دنیا اور اس کے متعلقات کو بالکل بے وزن اور بے وقعت سمجھنا۔ حضرت داتا گنج بخش  نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ شریعت کبھی موقوف نہیں ہوتی۔ صوفیا کا ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ بندہ ترقی کرتے کرتے خدا کی دوستی میں ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اطاعت اس پر سے ساقط ہو جاتی ہے ۔ وہ نماز روزہ کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے پیروں مریدوں کی کمی نہیں۔ ان کے لئے حضرت داتا گنج بخش  فرماتے ہیں کہ یہ صریح بے دینی ہے کیونکہ اس امر پر اجماع ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کبھی منسوخ نہیں ہو گی۔ البتہ دیوانگی اور عذر شرعی کا حکم دوسرا ہے۔

نفس پر قابو پانے سے اور خلوص نیت سے رضائے الٰہی تلاش کرنے میں ہی اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا راز مضمر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ترجمہ: ”اگر تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے جیسا کہ اسے پہچاننے کا حق ہے تو تم سمندر پر چلتے اور اپنے دعا سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے“۔ حضرت مالک بن دینار  کا ارشاد ہے پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جس کی بنا اخلاص پر ہو۔ حضرت داتا گنج بخش آپکے بارے میں لکھتے ہیں ”ایک دفعہ آپ کشتی میں سوار ہوئے اس کشتی میں ایک سوداگر کا ایک موتی کھو گیا۔ آپ کی فقیرانہ صورت دیکھ کر چوری کی تہمت آپ پر لگی۔ آپ نے ملتجیانہ نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ دریا سے بے شمار مچھلیاں اپنے مونہوں میں ایک ایک موتی لئے سطح آب پر نمودار ہو گئیں۔ آپ نے ایک کے منہ سے موتی لے کر تہمت لگانے والے کو دے دیا اور خود کشتی سے نکل کر دریا میں داخل ہو گئے اور چلتے ہوئے کنارے پر پہنچ گئے“۔ سبحان اللہ سبحان اللہ ۔

No comments:

Post a Comment