Saturday 19 May 2012

خدارا قائد اعظم کو معاف کردیجئے December 22, 2011


سچی بات یہ ہے کہ قائد اعظم کو اپنی ذات میں عہدوں کے ارتکاز کا الزام وہی شخص دے سکتا ہے جو نہ صحیح معنوں میں قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھتا ہے اور نہ ہی تحریک پاکستان کی روح سے آگاہی رکھتا ہے۔ جس شخص نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اور زندگی کا ایک ایک لمحہ ایک ایک سانس مسلمانوں اور پاکستان کے لئے وقف کیا ہوا تھا، جس کا مرنا جینا ہی مسلمانوں کے حقوق کے لئے تھا، جس کا نہ کوئی بیٹا اور نہ کوئی جانشین تھا، جو خود اپنے الفاظ میں صرف اور صرف اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا تھا اور جو فادر آف دی نیشن تھا یعنی بابائے قوم تھا اسے بھلا عہدوں کی کیا ضرورت ہوسکتی تھی؟ کیا بابائے قوم ہونے سے بڑا کوئی عہدہ اور بڑا کوئی اعزاز ہے؟ جو لوگ قائد اعظم کے باطن میں جھانکنا چاہتے ہیں اور ان کے ذہن اور سوچ کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ براہ کرم ان الفاظ کو غور بہت غور سے پڑھیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے اپنا ذہن اور اپنا دل کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا۔” مسلمانو! میں نے دولت ،شہرت اور عیش و عشرت بہت دیکھی، اب زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت کا فرض ادا کردیا … میرا خدا یہ کہے بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے“۔(روزنامہ انقلاب 22 اکتوبر 1939ء) قائد اعظم نے کبھی نہ اپنے خلوص کی نمائش کی اور نہ ہی عام لیڈروں کی مانند قومی خدمت کے دعوے کئے لیکن اس تقریر میں انہوں نے بے اختیار اپنے باطن اور اپنے اندر کو بے نقاب کردیا جس شخص کو اسلام کے دفاع، اسلام کا جھنڈا بلند رکھنے، مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھنے اور اپنے رب کے سامنے بہ حیثیت مسلمان سرخرو ہونے کا غم کھائے جارہا تھا اسے آج کے لبرل اور دین سے بیزار دانشور سیکولر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس شخص کی سوچ کا محور ہی قوم کی آزادی ،سربلندی اور مضبوطی تھی ،جس شخص نے اپنی زندگی صحت اور دولت قوم کے لئے قربان کردی اسے عہدوں کی ہوس کا الزام دیا جائے تو کیا میں بے غیرت ہوں کہ چپ رہوں اور سچی بات ببانگ دہل نہ کہوں۔ محترم نجم سیٹھی قائد اعظم کو عہدوں کے ارتکاز کا طعنہ دیتے ہوئے بھول گئے کہ جب پاکستان بنا تو قائد اعظم 71برس کے تھے، ان کی صحت برباد ہوچکی تھی اور انہیں علم تھا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے لیکن نئی مملکت کے قیام کا تقاضا تھا کہ قوم کی رہنمائی کی جائے۔ ملک کو بحران، بے یقینی اور دشمن عناصر کی سازشوں سے نکالا جائے چنانچہ وہ گورنر جنرل تھے لیکن بحیثیت سربراہ مملکت انہوں نے پارٹی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے نہ کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے جس کا پہلا صدر چودھری خلیق الزمان منتخب ہوا۔ یاد کیجئے دستور ساز اسمبلی کی صدارت اس لئے قبول کی تاکہ ملک و قوم کے لئے آئین بنایا جاسکے ورنہ یہ عہدہ نہ طاقت اور نہ ہی شان و شوکت کا مظہر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ شان و شوکت سے بالا تر تھے اور یہ چیزیں ان کے قدو قامت،وقار اور قومی احترام کے سامنے ہیچ تھیں۔ قائد اعظم عہدوں کے محتاج نہیں تھے بلکہ عہدے ان کے محتاج تھے، ان کے لئے عہدے باعث اعزاز نہیں تھے بلکہ وہ عہدوں کے لئے باعث اعزاز تھے۔
میں جب کہتا ہوں کہ اردو زبان کا تحریک پاکستان سے گہرا تعلق تھا تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ جب 1867ء میں ہندی اردو کشمکش شروع ہوئی اور ہندوں نے ہندی کودفتری زبان بنانے کے لئے تحریک چلائی تو سرسید نے وہ مشہور پیش گوئی کی تھی کہ اب ہندو مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکیں گے۔ ہندو اردو کو مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی علامت سمجھتے تھے۔ ایک عظیم مذہبی سکالر کے بقول قرآن حکیم سے اگر بار بارRepeatہونے والے عام فہم الفاظ الگ کردیں تو باقی دو ہزار الفاظ بنتے ہیں اور ان میں سے چھ سو الفاظ اردو میں مستعمل ہیں یعنی اردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ اردو میں بے شمار الفاظ عربی اور فارسی سے لئے گئے ہیں اس لئے ہندوؤں کو اردو گوارہ نہیں تھی۔ قرار داد پاکستان (مارچ1940ء) سے بہت پہلے مسلم لیگ اردو کو اپنی زبان قرار دے چکی تھی۔ قائد اعظم نے جب ڈھاکہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ اپنے صوبے کے لئے آپ بے شک بنگالی کو اختیار کریں لیکن قومی رابطے کے لئے اردو ضروری ہے کیونکہ اردو مشرقی و مغربی پاکستان میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے، چنانچہ ہر آئینی فارمولے حتیٰ کہ 1956ء کے آئین میں بھی یہی صورت تھی اور1956ء کا آئین مشرقی پاکستان کے نمائندوں کی رضا اور مرضی سے بنایا گیا تھا۔ میری طالبعلمانہ رائے یہ ہے کہ اگر1958ء میں سکندر مرزا اور ایوب خان مارشل لاء نہ لگاتے ،آئین منسوخ نہ کرتے اور وعدے کے مطابق عام انتخابات ہوجاتے تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔ زبان کا مسئلہ طے ہوچکا تھا اور دونوں صوبوں کے لئے قابل قبول آئین تشکیل پا چکا تھا جو وقت کے ساتھ محرومیوں کا مداوہ کردیتا۔
نجم سیٹھی نے اگست1947ء میں صوبہ سرحد کی حکومت کے خاتمے کو بھی آمرانہ اقدام قرار دیا۔ یہ ان دانشوروں کیلئے آمرانہ اقدام ہی ہے جو نہ اس فیصلے کے پس منظر اور سیاسی جواز سے آگاہی رکھتے ہیں نہ ہی قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھتے ہیں جو سرتاپا آئین اور قانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ آمرانہ اقدام وہ ہوتا ہے جو آئین اور قانون سے ماوراء ہو جبکہ صوبائی حکومت کا خاتمہ اس وقت کے آئین کے تحت گورنر جنرل کا اختیار تھا۔ رہا سوال یہ کہ سرحد کی حکومت کے خاتمے کا جواز کیا تھا؟ صوبہ سرحد کی یہ اسمبلی50ممبران پر مشتمل تھی۔1946ء کے انتخابات کے بعد30اراکین کی حمایت سے ڈاکٹر خان صاحب نے حکومت بنائی۔ عبدالغفار خان اور ان کے بھائی اور خاندان کٹر کانگریسی تھے۔ انہوں نے ڈٹ کر مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔1947ء میں صوبہ سرحد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ریفرنڈم کروایا گیا۔ اکثریتی عوام نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے جو کہ دراصل مسلم لیگ کے حق میں ووٹ تھے۔ خود ابوالکلام آزاد”انڈیا ونز فریڈم“ میں تسلیم کرتے ہیں کہ1946ء کے انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں خان برادران کی سیاسی ساکھ اور مقبولیت تیزی سے تنزل پذیر ہوئی تھی جن 30 ممبران کی خان حکومت کو حمایت حاصل تھی ان میں 12 ممبران کا تعلق مذہبی اقلیت سے تھا کیونکہ صوبہ سرحد میں اگرچہ غیر مسلمان چھ فیصد تھے لیکن انہیں اسمبلی میں 24 فیصد نمائندگی دی گئی تھی۔ باقی بارہ ممبران میں سے دو کا تعلق جمعیت علمائے ہند سے تھا۔ خان برادران کی کانگریس نے38مسلمان نشستوں میں سے صرف 16 نشستیں جیتی تھیں۔
ریفرنڈم کے بعد سرحد میں کانگریسی حکومت کا اخلاقی و سیاسی جواز ختم ہوچکا تھا، چنانچہ مسلم لیگ نے قیام پاکستان سے قبل ہی واسرائے سے خان حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ واسرائے کا کہنا تھا کہ انہیں اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان بنا تو ڈاکٹر خان صاحب کی کانگریسی وزارت نے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا۔ یہ تھی ان کی پاکستان سے محبت اور وفاداری؟ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔ اسی دوران گیارہ اقلیتی ا راکین اسمبلی ہندوستان ہجرت کرگئے جس سے خان صاحب کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔ جمعیت علمائے ہند کے دو اراکین اور دوسرے دو کانگریسی اراکین اسمبلی (میاں جعفر شاہ اور فقیرا خان) پہلے ہی خان حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوچکے تھے۔ ان حالات میں جبکہ صوبہ سرحد کی کانگریسی حکومت اکثریت کی حمایت سے محروم ہوچکی تھی اور اس کی نوزائیدہ مملکت سے وفاداری بھی مشکوک تھی تو اس کے بقاء کا کون کا جواز باقی رہ گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ قائد اعظم کے اس اقدام کو وہی لوگ آمرانہ قرار دیں گے جو قائد اعظم کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے سیکولر اور دین بیزار عناصر نے قائد اعظم اور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے۔ مارچ 1948ء میں ڈھاکہ کے جلسہ عام میں قائد اعظم نے ایسے ہی عناصر کے خلاف قوم کو ہوشیار کیا تھا جو بیرونی امداد لے کر قوم کی صفوں میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ قائد اعظم نے 64برس قبل ان کے لئے ففتھ کالمسٹ اور کیمونسٹ کے الفاظ استعمال کئے تھے جبکہ کچھ عرصے سے انہوں نے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ باقی انشاء اللہ پھر…
نوٹ:۔ کل کے کالم میں قائد اعظم کی تقریر کے حوالے سے ایک مقام پر مارچ1946ء چھپا، اسے مارچ1948ء پڑھا جائے۔
 

No comments:

Post a Comment