قوم کے ہیرے؟ September 23, 2011
میرے نزدیک قوم کے اصلی ہیرو اور ہیرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نام و نمائش اور شہرت کی خواہش سے بے نیاز ملک کے کونے کونے میں قوم کی بے لوث خدمت میں مصروف ہیں۔ میں یہ بات کئی بار عرض کر چکا کہ رضائے الٰہی اور رب کی خوشنودی کے حصول کا شارٹ کٹ مخلوق خدا کی خدمت ہے۔ ایسی خدمت جس کے صلے کی تمنا صرف اپنے رب سے کی جائے نہ کہ اولاد آدم سے اور ایسی خدمت جس کا مقصد محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو نہ کہ کسی حکومت یا حکمران سے شاباش کی خواہش … یہی لوگ کسی قوم کے باطن کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ ہوس کے مارے بندے قوم کا ظاہر ہوتے ہیں اور ان کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ آپ کو ہر طرف لوگ دولت، اقتدار، شہرت اور قرب سلطانی کی آرزو میں سرگرداں ملیں گے اور اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ دیدئہ بینا عطا کر دے اور آپ ان لوگوں کے اندر جھانک سکیں تو اس میں محض ہوس کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آئے گا۔ رب کی چاہت اور ملک و قوم کے لئے جذبہ دور دور تک نظر نہیں آئے گا۔ صنعتکاروں سے لے کر عام لوگوں تک دولت کی ہوس کے مارے ہوئے ہیں جبکہ سیاستدان اقتدار کی ہوس کے غلام بن چکے ہیں اور ان کی اس ہوس میں خدمت کا جذبہ کم اور حکمرانی کی خواہش بہت زیادہ ہے۔ ان کی تقریروں اور لفظوں پر مت جایئے کہ یہ مداری کے کھیل کا حصہ ہوتی ہیں اور بس … اسی لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ قوم کے اصلی ہیرو اور ہیرے ایسے لوگ ہیں جو گلی محلوں اور علاقوں میں خاموشی سے بے لوث خدمت میں مصروف ہیں اور ان کے دلوں میں نہ صلے کی تمنا ہے اور نہ ہی نام و نمائش یا حکومتی تمغے کی آرزو۔ آپ ہر سال صدر مملکت کو تمغے بانٹتے دیکھتے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی گمنام ہیرو یا ہیرا شامل نہیں ہوتا کیونکہ وہاں تک پہنچنے کے لئے شہرت اور سفارش کی سیڑھی درکار ہوتی ہے جبکہ یہ لوگ ان لوازمات سے دور رہتے ہیں۔ میرا دل اس وقت روحانی مسرت سے کھل اٹھتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ کسی محلے، قصبے یا گلی میں کوئی خاتون یا استاد یا ریٹائرڈ ملازم شام کو یا دن میں محلے کے بچوں بچیوں کو مفت پڑھا رہا ہے، ان پر تین چار گھنٹے جان مار رہا ہے لیکن نہ کوئی فیس اور نہ کسی صلے کا متحمل ہوتا ہے۔ یقین کیجئے ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور وہ صرف قومی خدمت اور رضائے الٰہی کے لئے یہ کام کر رہے ہیں۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہوں نے محلوں یا گاؤں میں فری ڈسپنسریاں کھول رکھی ہیں اور بے شمار ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ایسے ہیں جو بلا تنخواہ ایدھی کے ادارے میں رضا کارانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بعض اوقات اس جذبے کا اظہار اس طرح اور ایسے طریقے سے ہوتا ہے کہ انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ عرصہ ہوا میں راولپنڈی میں تھا اور حسب معمول شام کی سیر کے لئے اِدھر اُدھر نکل جاتا تھا کیونکہ ہمارے ہاں پارکیں اور سیر گاہیں بنانے کا رواج ذرا کم ہی ہے البتہ محلات بنانے کا شوق ہر سر پر سوار ہے۔ میں شام کی سیر کے دوران اکثر ایک سفید پوش کو دیکھتا جو ہاتھ میں تھیلا اٹھائے اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا گزر جاتا۔ پھر میں نے نوٹ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے یا گلی میں پڑے ہوئے کاغذات یا کاغذات کے ٹکڑے اٹھا کر تھیلے میں ڈال لیتا اور چلتا رہتا۔ جب میں نے پہلی بار اسے ایسا کرتے دیکھا تو خیال آیا کہ شاید سٹریٹ بوائز (Street Boys) کی مانند یہ اس کا ذریعہ کمائی ہو گا لیکن دو تین دن مسلسل اسے دیکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرا تاثر غلط ہے ۔ چنانچہ میں نے ایک دن اسے السلام علیکم کہہ کر روکا اور پوچھا کہ حضرت میں نے آپ کو اکثر سڑک سے کاغذات اٹھاتے دیکھا ہے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ ان کاغذات کا کیا کرتے ہیں؟ وہ دھیرے سے مسکرایا اور جواب دیا کہ میں طویل عرصے سے یہ کام کر رہا ہوں۔ میرے دل میں ایک ہلکی سی خواہش تھی کہ روٹی کمانے، کھانے اور بچے پالنے کے علاوہ کوئی خدمتی کام بھی کروں۔ مجھے اس کا موقع نہ مل سکا اور پھر روٹی کمانے سے فرصت زیادہ نہیں ملتی۔ ایک روز سڑک سے گزرتے ہوئے میری نظر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر پڑی جس پر نصف کلمہ چھپا ہوا تھا۔ میں نے اسے پاؤں تلے آنے سے بچانے کے لئے اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اس ٹکڑے کو جیب میں ڈالتے ہی مجھے خیال آیا کہ نہ جانے میری رہائش کے علاقے میں کتنے ایسے کاغذات گلیوں سڑکوں پر بکھرے ہوں گے جو بے ادبی کا باعث بھی بنتے ہیں، گناہ کا ارتکاب بھی ہوتا ہے اور گلی میں گند بھی پھیلتا ہے۔ اس روز سے میں نے اپنا معمول بنا لیا ہے کہ میں شام کو سارے علاقے میں گھومتا ہوں اور گلی محلے سڑک پر پڑے ہوئے کاغذات یا کاغذات کے ٹکڑے اپنے تھیلے میں بھر کر لے جاتا ہوں۔ مقدس تحریروں والے کاغذات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے اور سکون قلب حاصل ہے کہ میری یہ بے لوث خدمت اللہ کے ہاں قبولیت پائے گی۔ اس طرح میں صفائی کے عمل کا ثواب بھی حاصل کر رہا ہوں اور قرآنی آیات یا کلمے کو بے حرمتی سے بچا کر اپنے رب کی خوشنوی بھی حاصل کر رہا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں اس کی باتیں سن کر حیرت میں گم ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر دل میں جذبے کی شمع روشن ہو تو وہ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔ ملک میں سیلاب آئے، زلزلہ یا کوئی قدرتی آفت تو میں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں اور رضاکاروں کی ایک تعداد قومی خدمت میں مصروف ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ نہ کسی صلے کی تمنا کرتے ہیں اور نہ ہی نام و نمود کی جبکہ بہت بڑی اکثریت جن میں میں بھی شامل ہوں گھر بیٹھے قوم کا غم کھاتے ہیں، دعائیں مانگتے رہتے ہیں یا پھر ابتلاء سے نپٹنے کی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود آزاد ہو جاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تساہل ارادے اور جذبے کی کمزوری کا دوسرا نام ہے کیونکہ جن کے دلوں میں پُرخلوص جذبہ ہوتا ہے وہ بے خطر آگ میں کود پڑتے ہیں اور کسی دعوت یا ترغیب کا انتظار نہیں کرتے۔ ملک و قوم کو بارشوں سیلابوں اور ڈینگی کی آفات نے گھیر رکھا ہے۔ ہر روز انسانی اموات کی خبریں ہمیں لہولہان کر رہی ہیں اور مبارک ہیں وہ لوگ جو دن رات رضا کارانہ طور پر خدمت میں مصروف ہیں۔ دراصل یہی لوگ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور یہی لوگ قوم کے ہیرے ہیں جبکہ ووٹ مانگنے والے اور خدمت کے لئے اقتدار کا تقاضا کرنے والے سیاست کی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔ ان ارب پتیوں نے قوم سے لوٹی ہوئی دولت کے سمندر کے چند قطرے بھی قوم کو نہیں دیئے کیونکہ ہوس دل پر تالے لگا دیتی ہے اور آنکھوں پر پردے تان دیتی ہے۔ خدا کے لئے آنکھیں کھولیں کیونکہ جب تک قوم آنکھیں نہیں کھولے گی اس کی سزا کا عمل ختم نہیں ہو گا۔
No comments:
Post a Comment