Friday, 18 May 2012

جانے کس چیز کی کمی ہے یہاں ؟ September 18, 2011

پاکستانی بہرحال زندہ دل قوم ہیں اور جان لیوا مصیبت میں بھی مسکرانے کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ کل سندھ (شاید لاڑکانہ ) سے ڈاکٹر فیصل نے ایک چھوٹا سا لطیفہ بھیجا اور ظاہر ہے کہ لطیفے عام طور پر تلخ حقائق کی غمازی کرتے ہیں۔ لطیفہ یہ تھا کہ ایک بھوک کا مارا شخص سیلابی ریلے سے مچھلی پکڑ کر لایا اور گھر آنے تک اسے پکانے کے خیال سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ گھر میں مچھلی پکانے کا سامان یعنی گھی یا آئل ، مرچ نمک، ایندھن اور بجلی کچھ بھی نہیں ہے چنانچہ وہ واپس گیا اور مچھلی کو پانی میں پھینک دیا۔ مچھلی پانی سے باہر نکل آئی اور ”جئے زرداری“ کا نعرہ لگا کر پانی میں گم ہو گئی۔ کہنے کو یہ لطیفہ ہے لیکن دراصل یہ زرداری صاحب کے دور حکومت پر ہلکی سی طنز ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں گڈ گورننس (بہتر طرز حکومت) کا بڑا شور ہے۔ یہ کیا شے ہوتی ہے؟ یوں تو اس کی تشریح لمبی چوڑی ہے لیکن مختصر الفاظ میں گڈ گورننس کا مطلب عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنا، بنیادی ضرورتوں کا انتظام کرنا، احساس تحفظ فراہم کرنا اور انصاف کی فراہمی کا موٴثر نظام وضع کرنا ہے۔ میرا مطالعہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں عام طور پر ویژن کی کمی ہے اور بعض میں تو نیک نیتی، ایمانداری اور جذبے کا بھی قحط ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہم ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور جذباتی وفاداریوں سے بلند ہو کر ملکی وفاداری کے تقاضے ملحوظ خاطر نہیں رکھتے، اس صورتحال میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ صرف رونے دھونے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے ۔ ہم نے صدر مملکت کے حکم پر اجتماعی معافی کا تو اہتمام کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ہماری نیت اور اعمال میں انقلاب آیا؟ کیا ہم نے اپنے رب سے وعدہ کیا کہ ہم آئندہ جھوٹ اور دھوکہ دہی نہیں کریں گے؟ رشوت اور قومی خزانے کی لوٹ مار نہیں کریں گے ؟ ناجائز منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی کریں گے نہ کم تولیں گے؟ شرعی عیوب سے بچیں گے وغیرہ وغیرہ۔ صدر صاحب سندھ کو ”سیلابوں“ میں ڈوبتا چھوڑ کر لندن چلے گئے جس سے لوگوں کو افواہیں اڑانے اور لطیفے گھڑنے کا موقع مل گیا۔ گڈ گورننس کا تقاضا تھا کہ وہ سیلاب زدگان میں موجود رہتے، اپنی بے پایاں دولت سے کچھ کروڑ نکال کر ان کی مدد کرتے، صوبائی حکومت کے سر پر بیٹھ کر ریلیف آپریشن کی نگرانی کرتے، سیلاب زدگان کے کیمپوں کے دورے کرتے وغیرہ وغیرہ لیکن وہ لندن جا بیٹھے اور یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ پراپرٹی افیئرز میں اتنے مصروف ہیں کہ واپس نہیں آ سکتے۔ ہاں تو سوال یہ ہے کہ ویژن کیا ہوتا ہے۔ ویژن یا بصیرت کی تشریح تو پورے کالم کی متقاضی ہے لیکن عام فہم معنوں میں صورتحال کے صحیح ادراک، بروقت علاج اور اقدام اور مستقبل بینی کی صلاحیت کو ویژن کہتے ہیں۔ جو انسان یا لیڈر اپنی صلاحیت سے مستقبل کے خطرات اور امکانات کا صحیح اندازہ لگا لے اور ان سے نپٹنے کے لئے موٴثر حکمت عملی وضع کر لے اسے کسی حد تک صاحب بصیرت کہتے ہیں ۔ اگرچہ صاحب بصیرت کے لئے معاملے کی تہہ تک پہنچنا ضروری شرط ہوتی ہے۔ مثالیں اَن گنت ہیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں چھوٹی چھوٹی مثالیں دوں گا جن سے آپ اندازہ کر لیں کہ ہماری قیادت مجموعی طور پر کتنی بصیرت اور ویژن رکھتی ہے۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ اس سے قبل کراچی میں لاشیں درختوں کے پتوں کی مانند گر رہی تھیں، حکومت خاموش تماشائی بنی رہی جب تک سپریم کورٹ نے نوٹس نہ لیا۔ اب کراچی کے علاوہ سندھ کے ندی نالوں میں سیلاب سے مرنے والوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب گزشتہ سال سیلاب نے قیامت ڈھائی تھی تو نہ صرف بین الاقوامی اداروں بلکہ پاکستانی محکمہ موسمیات نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ اگلے سال بھی سیلاب آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت سندھ یا وفاقی حکومت نے اس آفت سے بچاؤ کے لئے پیشگی تدابیر کیں مثلاً آبادیوں کے گرد پشتے بنائے اور مضبوط کئے، دریاؤں ندی نالوں کی صفائی اس انداز سے کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پانی کو سنبھال سکیں، پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لئے ہنگامی سطح پر چھوٹے ڈیم بنائے، پانی کا رخ موڑنے کے لئے اقدامات کئے اور سب سے آخر میں سیلاب کی آمد سے قبل لپیٹ میں آنے والی آبادیوں سے انخلاء کیا اور ان کے لئے سہولیات سے لیس کیمپ بنائے۔ ان تمام سوالات کا جواب نفی ہے۔ گویا ویژن کا فقدان ہے۔ 
پنجاب میں ڈینگی بخار قیامت ڈھا رہا ہے، ہر طرف موت کے سائے لہرا رہے ہیں۔ 2003 سے لے کر 2010ء تک کی بات چھوڑو کہ ہمارے حاکموں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا ، ان کا زیادہ تر وقت لندن یاترا اور ووٹ بنانے کی ترکیبوں میں گزر جاتا ہے اور انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ اہم ترین مسئلہ انسانی زندگی ہے۔ انسان زندہ رہے گا تو روٹی مکان اور تعلیم اس کے کام آئیں گے۔ 2010میں ڈینگی نے پنجاب پر دھاوا بولا تو ماہرین نے پیش گوئی کی کہ اگلے سال بھی حملہ ہو گا اور اس سے بدتر۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے خادم اعلیٰ نے اس آفت سے بچاؤ کے لئے حفظ ما تقدم کے نسخوں پر عمل کیا ؟ ڈینگی مچھر جنوری فروری میں جنم لیتا اور اپنی مخصوص جگہوں پر پروان چڑھتا ہے۔ کیا حکومت پنجاب نے پورے صوبے کا سروے کر کے ان جگہوں پر مچھر مار سپرے یقینی بنایا؟ کیا ڈینگی سے نپٹنے کے لئے مشینری، ادویات وغیرہ کا پیشگی بندوبست کیا؟ اور کیا اس بلائے ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی انتظامی سیل بنایا۔ اب اچانک لوگ مرنا شروع ہوئے تو ہمارے محبوب لیڈر میاں شہباز شریف نے بھاگنا دوڑنا شروع کر دیا ہے۔ کیا یہ بھاگ دوڑ سے ”ہلکانی“ ویژن یا حکمت عملی کا متبادل ہو سکتی ہے؟خادم اعلیٰ سولو فلائٹ کے عادی ہیں جبکہ ہنگامی صورت حال ٹیم ورک مانگتی ہے۔ کیا ٹیم ورک کے لئے انہوں نے انتظامیہ کو متحرک کیا، اپنی پارٹی کو میدان میں نکالا اور کمانڈر انچیف کی مانند آپریشن روم بنا کر جنگی کارروائی کی کمان کے لئے آپریشن روم بنایا، ہاں تھوڑا تھوڑا مگر تاخیر سے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور صوبائی سیکرٹری سب کچھ ہی خود بننا چاہتے ہیں۔ ان کے اخلاص و جذبے کا میں معترف ہوں مگر اخلاص اچھی حکمت عملی کے بغیر رنگ نہیں لاتا۔ بلاشبہ ساؤتھ پنجاب میں دانش سکول ایک اچھا منصوبہ ہے۔ معیاری تعلیم مستحق بچوں کو ملے گی اور سیاسی حوالے سے نرم گوشہ بھی پیدا ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ باقی پنجاب میں ہزاروں سکولوں اور ان لاکھوں مستحق بچوں کا کیا قصور ہے جن کے سکولوں میں ٹیچر نہیں، بیٹھنے کے لئے ٹاٹ نہیں اور پینے کے لئے پانی نہیں۔ ٹیلی ویژن سکرین لاتعداد ایسے سکول دکھا چکی جو کوڑے کا ڈھیر یا گودام بن چکے ہیں، جہاں تالے پڑے ہیں اور جہاں عمارتوں کی خستہ حالی پریشان کر دیتی ہے۔
مطلب یہ کہ توازن اور انصاف ہر پالیسی کے بنیادی اصول ہوتے ہیں جو بظاہر اس حکمت عملی کے کمزور عناصر ہیں۔ جس طرح وزیر اعظم صاحب کا طائفے کے ساتھ یواین او کا دورہ منسوخ کرنا اچھا اقدام ہے اسی طرح پنجاب میں روٹی پروگرام سے دستبرداری بھی اچھا فیصلہ ہے اگرچہ ہم جیسے دیوانوں نے شروع ہی میں اس کی مخالفت کی تھی لیکن یہ منصوبہ بند ہوتے ہوتے شاید تیرہ ارب روپے کھا گیا۔ یہ قومی زیاں ہے اور بس۔ بلوچستان میں صورتحال بگڑ رہی ہے۔ انسانی زندگی ارزاں ہو چکی ہے اور لاشوں کے ”تحفے“ مل رہے ہیں۔ صدر صاحب اور وزیر اعظم صاحب باغی عناصر سے گفتگو کا اعلان کرتے ہیں لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہناتے اور ظاہر ہے کہ قوم پرست باغیوں کو قومی دھارے میں لائے بغیر بلوچستان میں امن نہیں ہو گا۔ اس مسئلے کا حل بھی بصیرت اور ویژن مانگتا ہے اوریہی وہ جنس ہے جس کی ہماری سیاسی منڈی میں کمی ہے اور یہی وہ خوبی اور نعمت ہے جو ہمارے سیاستدانوں حکمرانوں کے حصے میں قدرے کم کم آتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment