Friday, 18 May 2012

صبر میری جان کہ ظلم کے دن تھوڑے ہیں September 16, 2011

دل دُکھتا ہے دوستو! دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پاکستان کے قیام کو چونسٹھ برس ہوگئے اور ملکی معاملات کو شعوری سطح پر قریب سے دیکھتے ہوئے نصف صدی گزر گئی۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہماری تاریخ میں کبھی ملک کے حالات اتنے خراب اور مایوس کن رہے ہوں اور کبھی عوام اور حکمرانوں میں اتنا وسیع فاصلہ حائل رہا ہو۔ فوجی آمریتوں کی بات چھوڑو کہ وہ آمریتیں ہوتی ہیں اور بندوق کے زور پر آتی ہیں اور عوامی نفرت کے سبب جاتی ہیں۔ ہمارا حق اور استحقاق تو صرف ان حکومتوں پر ہوتا ہے جو ہمارے ووٹوں سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتی ہیں۔ ذرا نظر دوڑایئے کہ ملک کے ایک ایک حصے میں موت کاخوف، غربت اور بیچارگی اور احساس تحفظ کا فقدان چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس قدر غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ ملک کی بقا کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف سے لے کر ہر سیاسی لیڈر اور حکمرانوں تک یہ کہہ کر اس خوف کو مزید پھیلا رہے ہیں کہ یہ وقت ملک بچانے کا ہے۔ اس سے یہ اندیشہ پھیلتا ہے کہ گویا ملک خاکم بدہن ٹوٹ رہا ہے یا ختم ہو رہا ہے۔ الطاف حسین نے تو اخباری تراشے اور امریکی دانشوروں کے خوفناک تجزیئے سنا کر ملکی فضا کو مزید گمبھیر کر دیا اور لوگوں کے ذہنوں میں احساس تحفظ اور ملکی بقا کے حوالے سے شکوک کے ایسے ٹیکے لگا دیئے کہ اس روز سے ہر محفل میں ملک کا مستقبل ہی موضوع بن چکا ہے۔ شاید یہ خبریں الطاف حسین تک اب پہنچی ہوں کہ امریکی دانشور پاکستان کے ٹوٹنے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ میں تو ایسے تجزیوں اور انکشافات کو گزشتہ کئی دہائیوں سے پڑھ کر اس سازشی فکر پر مسکرا رہا ہوں کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہ امریکی دانشور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈالروں پر پلتے اور ان کے اشاروں پر پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ملک و قوم پر دباؤ ڈالنا یا دباؤ بڑھانا ہوتا ہے۔ انہیں پیش گوئیاں نہیں کہنا چاہئے کیونکہ پیش گوئی علم جفر یا علم نجوم کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ یہ مہم دراصل پروپیگنڈے کی ایک قسم ہے اور نفسیاتی جنگ کا اہم ہتھیار ہے جس سے عوامی سطح پر خوف و ہراس پھیلایا جاتا ہے۔ اچھا ہوتا کہ الطاف حسین ان امریکی وفاداروں اور پاکستان دشمنوں کے جھانسے میں نہ آتے اور اپنی طویل پریس کانفرنس میں اخباری تراشوں یا بدنیتی پر مبنی رپورٹوں کو نہ اچھالتے۔ ڈاکٹرذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم پر ملک توڑنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ یہ گیم پلان امریکہ کی ہے جبکہ ایم کیو ایم ان کی آلہٴ کار بن چکی ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ الطاف حسین اپنی صفائی میں جو کچھ کہہ سکتے تھے یا پیش کرسکتے تھے، وہ کرتے اور امریکی پروپیگنڈے پر ہاتھ نہ ڈالتے اور نہ اسے اچھال کر عام شہری کو امریکی ڈینگی مچھر کاخوف دلاتے کیونکہ اس حکمت عملی میں تھوڑا سا نقصان ایم کیو ایم کا بھی ہوا ہے جس کا ادراک متحدہ کے لیڈروں کو نہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے الزام کے دوحصے تھے۔ اول امریکہ پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے دوم ایم کیو ایم ان کے ساتھ شامل ہے۔ الطاف حسین نے جب ساری توجہ امریکی سازشوں کی جانب مبذول کرا دی تو گویا مرزا صاحب کے الزام کے پہلے حصے کی تصدیق کر دی۔
میں عرض کر رہا تھا کہ میں ایسی امریکی زہر آلود پیش گوئیاں کئی دہائیوں سے پڑھ رہا ہوں اس لئے میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیلانے والوں میں سلبگ ہیرسن، اسٹیفن کوہن اور لارنس زائرنگ جیسے دانشور اور امریکی مصنفین ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ان کی پھیلائی ہوئی پیش گوئیاں خاک میں مل چکی ہیں۔ پاکستان پر امریکی ماہرین کی صف میں پروفیسر لارنس زائرنگ اہم حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان پر لگ بھگ نصف درجن تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ میری ان سے چند ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور میں انہیں خوب جانتا ہوں۔ لارنس زائرنگ کی کتاب Pakistan : The enigma of political development ، 1980 میں شائع ہوئی تو وہ اسلام آباد تشریف لائے۔ امریکی کونسل جنرل نے ان کے اعزاز میں کھانا کیا جس میں دانشوروں کے علاوہ ان مصنفین کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا جن کے حوالے اس کتاب میں موجود تھے۔ مجھے بھی اسی حیثیت میں بلایا گیا تھا۔ میں کونسل جنرل کے گھر پہنچا تو کونسل جنرل کے ساتھ لارنس زائرنگ نے استقبال کیا۔ میں نے پروفیسر زائرنگ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ پروفیسر مجھے افسوس ہے کہ تم نے میری کتابوں کے حوالے اپنی اس کتاب میں دیئے جس میں تم نے ملک ٹوٹنے کی پیش گوئی کی ہے لیکن پروفیسر زائرنگ یاد رکھو یہ ملک انشاء اللہ قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ تم اپنی 1980ء میں چھپنے والی کتاب میں پاکستان کو چند برس دے رہے ہو اور تم نے لکھا ہے "Pakistan could cease to exit in its sovereign state form"لیکن میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ ہم انشاء اللہ اسی پاکستان میں کئی بار ملیں گے۔ چند برسوں کے بعد ایک ایسے ہی استقبالئے میں زائرنگ سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس کا ہاتھ دبایا اور کہا کہ تم تو پاکستان کو زندہ رہنے کے صرف تین چار سال دیتے تھے اب ایک دہائی گزر چکی پاکستان قائم و دائم ہے اور ان خطرات کے بادل چھٹ چکے ہیں جن کا ڈھنڈورا پیٹ کر تم نے ہمارے خاتمے کی تمنا کی تھی۔ وہ میری بات سن کر مسکرایا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت کھیلنے لگی اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کا رنگ اڑ رہا ہے۔ دوستو! یقین رکھو کہ اس ملک پر اللہ تعالیٰ کا سایہ ہے۔ یہ ملک انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی داستان مختلف تھی اور اس کی علیحدگی کے بیج (Seeds) اس کے قیام میں موجود تھے۔ موجودہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ تو تھی امریکی پروپیگنڈے کی داستان ، لیکن مجھ درویش کی بھی بات سن لو۔ اگرچہ اس وقت ملک بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے اور آفات کے قبضے میں ہے وہ یوں کہ پنجاب ڈینگی کی وبا کا شکار ہے۔ سندھ سیلابوں کی تباہ کاریوں کا نشانہ ہے۔ خیبر پختونخوا اور سرحدی علاقے ڈینگی کے علاوہ دہشت گردی کے خوف اور خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور بلوچستان میں قوم پرست باغی معصوم شہریوں کا خون بہا رہے ہیں اور ہندوستان کی سرپرستی میں علیحدگی کا نعرہ لگا رہے ہیں جبکہ حکمران لندن میں بیٹھے اجتماعی توبہ کا ”حکم“ دے کر اپنے فرائض سے فارغ ہوچکے ہیں۔ روم جل رہا ہے نیرو بانسری بجا رہا ہے لیکن دوستو! سن لو اور نوٹ کرلو کہ انشاء اللہ حالات جلد بدلیں گے، صبح نو کا سورج طلوع ہوگا، نظام بدل جائے گا اور اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان اگلے سال سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ سویرا دور نہیں۔ صبر میری جان کہ ظلم وبے انصافی کے دن تھوڑے ہیں۔

No comments:

Post a Comment