Friday, 18 May 2012

جواب حاضر ہے September 12, 2011

    میرا ارادہ آج قائداعظم
 کی شخصیت کے کسی اور پہلو پر کالم لکھنے کا تھا لیکن برادرم شامی صاحب نے بذریعہ عطاء الحق قاسمی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ میں خلوص نیت سے عرض کر رہا ہوں کہ جب کوئی میری ”غلطیاں نکالتا“ ہے تو میں اس کا ممنون ہوتا ہوں کیونکہ اس سے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس بڑھتا ہے اور حصول علم کی تشنگی دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ برادرم شامی صاحب نے میرے کالموں میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اس کا جواب تو بعد میں دوں گا لیکن پہلے میں اپنی غلطی کی اصلاح کی اجازت چاہتا ہوں۔ میری ذاتی لائبریری سے بہت سی اہم کتابیں اغوا ہوچکی جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ بعض اوقات نام کا کنفیوژن پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ تین چار دہائیاں قبل بھی پڑھی ہوئی کتابوں کا نفس مضمون تو یاد رہتا ہے لیکن کبھی کبھار حوالہ ادھر ادھر بھٹک جاتا ہے۔ میں نے اپنے کالم میں جس کتاب کا ذکر کیا تھا اس کا نام ہے۔ VOYAGE THROUGH HISTORY اور اس کا مصنف معروف آئی سی ایس افسر مسرت زبیری ہے۔ شامی صاحب نے یہ کتاب پڑھی ہوتی تو ضرور میری غلطی نکالتے۔ مسرت زبیری قیام پاکستان کے فوراً بعد حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسر تھے چنانچہ ان کی کتاب میں جابجا عینی شاہد کے مشاہدات ملتے ہیں۔ زبیری صاحب نے صفحہ نمبر 154 پر قائداعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کے طیارے کو ری فیول کے لئے ہندوستان میں اترنا پڑے گا تو انہوں نے ہندوستان میں لینڈنگ سے انکار کر دیا۔ پھر انہیں برٹش ایئر ویز کا طیارہ چارٹر کرنے کی تجویز دی گئی تو انہوں نے کہا میرے ملک کا خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ گورنر جنرل کے ڈیکوٹا طیارے کو ہندوستان اترنے سے بچانے کے لئے ایک فیول ٹینک مزید لگا دیا جائے جس میں بے پناہ خطرات مضمر تھے۔ زبیری صاحب کے اس حوالے سے الفاظ یہ ہیں۔
Quaid e Azam "did not wish to make landing in India"
شامی صاحب نے میری غلطی یوں نکالی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق قائد نے لکھا یا کہا کہ میں ہندوستان میں رکنا نہیں چاہتا۔ گزشتہ کالم میں انہوں نے قائداعظم سے یہ الفاظ منسوب کئے کہ وہ کسی قیمت پر ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، ان کے درمیان میلوں کا فاصلہ ہے۔ شامی صاحب کا شکوہ بجا ہے۔ میرا حسن ظن تھا کہ شامی صاحب نے یہ کتابیں پڑھ رکھی ہوں گی۔ دوسرے کالم میں میں نے جو الفاظ لکھے وہ ایک سینئر سرکاری افسر کے تھے جو گورنر جنرل کو فائل پیش کر رہا تھا۔ پہلے کالم میں میں نے جو الفاظ لکھے وہ ایک سیاسی لیڈر کے تھے جو حکمرانوں کے قریب تھا اور سیاست کا عینی شاہد تھا۔ وہ سیاسی لیڈر نواب زادہ صدیق علی خان تھا جو وزیراعظم کا پولیٹیکل سیکرٹری تھا اور قائداعظم کے سپاہیوں کی صف میں شامل تھا۔ انہوں نے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے اپنی کتاب ”بے تیغ سپاہی“ کے صفحہ نمبر 364 پر یہ الفاظ رپورٹ کئے ہیں۔ ”مشرقی پاکستان جاتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے“۔ سردار عبدالرب نشتر قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مرکزی وزیر تھے۔ انہوں نے 1950ء میں اردو کالج کراچی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا قائداعظم نے مشرقی پاکستان جاتے ہوئے زندگی کو خطرات قبول کرلئے لیکن ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا گوارا نہ کیا۔ امید ہے ان حوالوں کے بعد میرے مہربان دوست شامی صاحب میلوں کا وہ فاصلہ طے کرلیں گے جس کی انہیں شکایت ہے۔ اگر انہیں پھر بھی شکایت ہو تو ان کی مرضی۔ شامی صاحب کا فرمان تھا کہ یہ قائداعظم کا لمحاتی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ یہ فائل گورنر جنرل کو دو تین مرتبہ پیش کی گئی اس لئے اسے لمحاتی فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ چاہتے تو دوسری تیسری مرتبہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیتے۔ دوم جو شخص ذرا بھی قائداعظم کی شخصیت کو سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ قائداعظم لمحاتی فیصلے نہیں کرتے تھے۔ یہ الزام ان پر قائداعظم کے دشمنوں اور تنقید نگاروں نے بھی نہیں لگایا۔ ”جناح آف پاکستان“ کے نامور مصنف اور امریکی پروفیسر سٹینلے والپرٹ نے قائداعظم پر مقالہ پڑھتے ہوئے اسلام آباد میں یہ الفاظ کہے تھے جو شامی صاحب کی نذر ہیں۔ ”قائداعظم ہر مسئلے پر نہایت سنجیدگی سے غوروخوض کرکے فیصلہ کرتے تھے اور پھر اس پر ڈٹ جاتے تھے“۔ قاسمی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ”شامی صاحب قومی معاملات پر رائے زنی کرتے ہوئے جذباتی انداز فکر نہیں اپناتے“۔ اس دعویٰ کے برعکس شامی صاحب نے میری وضاحت کے جواب میں لکھا ہے ”گویا قائداعظم گوشت پوست کے انسان نہیں تھے“۔ برادر عزیز انسان گوشت پوست کا ہی ہوتا ہے لیکن انسان انسان میں فرق ہوتا ہے۔ ہندوستان میں گوشت پوست کے کروڑوں مسلمان تھے لیکن ان میں کتنے اقبال اور جناح تھے؟ میر صادق اور میر جعفر بھی گوشت پوست کے انسان تھے جنہوں نے قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا اور قائداعظم بھی گوشت پوست کے انسان تھے جن کے بارے میں سٹینلے والپرٹ نے لکھا ”بہت کم افراد تاریخ کا دھارا بدلتے ہیں۔ بہت ہی کم ہوں گے جنہوں نے نقشہ عالم کو تبدیل کیا۔ شاید ہی کسی کو قومی ریاست کے قیام کا شرف حاصل ہوا“۔ ”قائداعظم عالمی تاریخ میں واحد شخص ہیں جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سرانجام دیئے“۔ کہ لمحاتی فیصلے کرنے والا گوشت پوست کا انسان تاریخ میں یہ مقام حاصل کرسکتا ہے؟ اسی انداز میں شامی صاحب نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مشرقی بنگال جاتے ہوئے بھارت کی فضا میں قدم رکھنا پڑے گا تو پھر زمین پر قدم رکھنا کس طرح ناقابل برداشت ہوسکتا ہے۔ گویا شامی صاحب کے نزدیک فضا سے گزرنا زمین پر قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اب وہ منیر احمد منیر کی کتاب سے قائداعظم کے سکیورٹی افسر ہنوئیا کے انٹرویو کو ڈھونڈ کر لائے ہیں جس سے اس حقیقت کی تو تصدیق ہوتی ہے کہ قائداعظم ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ گئے لیکن ان کے سٹاف کے طیارے کو ری فیول کے لئے وہیں رکنا پڑا۔ اس پر قائداعظم نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ جذبات سے ہٹ کر سوچئے کہ کیا گورنر جنرل کا دہلی میں رکنا اور ان کے سٹاف کا رکنا ایک ہی بات ہے؟ ریاستوں کے درمیان تعلقات کا تعین حکمران کرتے ہیں یا حکمرانوں کا ذاتی سٹاف؟۔ اس دور میں ہزاروں پاکستانی ہندوستان آ جا رہے تھے۔ اورینٹ کمپنی کی ڈھاکہ کے لئے ہر پرواز دہلی میں ایندھن کے لئے رکتی تھی جس میں پاکستانی افسران بھی ہوتے تھے۔ اس لئے اس آمدورفت کا موازنہ گورنر جنرل کے دورے سے نہیں کیا جاسکتا۔
شامی صاحب نے ہندوستانی سفیر کے 30 جولائی والے جس خط کا ترجمہ پیش کیا تھا وہ میرے سامنے رکھا ہے۔ اس خط سے برادرم عطاء الحق قاسمی کے ہر اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ قائداعظم کی ”تو خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے ممبئی میں گزارا کریں“۔ یہ بات مجھے انہونی لگی اور یہیں سے اس بحث کا آغاز ہوا تھا۔ اس خط میں لکھا ہے۔
How Much you loved Bombay and hoped, when things were settled, to go back there some day مطلب یہ کہ انہیں بمبئی سے پیار ہے اور جب کبھی حالات ٹھیک ہوئے تو وہ کسی دن ممبئی جانا چاہیں گے۔ ان الفاظ کو غور سے پڑھئے تو مفہوم واضح ہوتا چلا جائے گا۔ قائداعظم جانتے تھے کہ ہندوستان پاکستان کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہندوستان نے پاکستان کے حصے کا کیش بھی اس وقت دیا جب انہیں پتہ چلا کہ پاکستان کو مالیاتی موت سے بچانے کے لئے حیدر آباد ریاست نے بیس کروڑ روپے دے دیئے ہیں اور یہ کہ گاندھی کا مرن بھرت ڈرامہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ کہا کہ اگر کبھی حالات ٹھیک ہوگئے تو وہ کسی دن بمبئی جانا چاہیں گے۔ بہرحال یہ ایک مشروط اور مبہم خواہش کا اظہار تھا اور اس خط کے چالیس دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اسی حوالے سے شامی صاحب نے میری شدید غلطی کی نشاندہی کی ہے کہ میں نے پاکستان کے حصے میں آنے والی رقم 750 کروڑ روپے لکھی جبکہ یہ رقم 75 کروڑ تھی۔ شامی صاحب حساب کتاب کے ماہر ہیں لیکن یہاں وہ بھی غلطی کرگئے ہیں۔ 75 کروڑ میں سے 20 کروڑ کی ادائیگی کے بعد 55 کروڑ بچتے ہیں جبکہ انہوں نے 65 کروڑ لکھ دیا۔ یہ غلطی کمپوزنگ کی ہوگی، شامی صاحب کی نہیں ہوسکتی۔ ایس ایم برک انڈین فارن سروس کے رکن تھے۔ بعد ازاں پاکستان کی فارن سروس میں رہے اور گیارہ ممالک میں ہائی کمشنر، سفیر و وزیر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکی یو نیورسٹی منی سوٹا میں پروفیسر رہے۔ انہوں نے انگریزی میں کتاب لکھی ہے جس کا نام پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے۔ اس اعلیٰ درجے کی تحقیقی کتاب کو آکسفورڈ یونیورسٹی نے چھاپا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 13 پر برک نے پاکستان کا حصہ 750 کروڑ روپے لکھا ہے۔ میں نے اعدادوشمار اس کتاب سے لئے ہیں لیکن چودھری محمد علی کے بیان کے بعد میں اس ہندسے کے بارے میں مشکوک ہوگیا ہوں۔ گزشتہ کالم میں برادرم شامی صاحب نے ہندوستانی سفیر کے خط کے حوالے سے لکھا تھا کہ ”کشت و خون نے قائد پر جو بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہوں ان کے ویژن کو بہرحال متاثر نہیں کیا تھا“۔ اس حوالہ سے جاتے جاتے یہ واقعہ پڑھ جایئے۔ امید ہے کہ شامی صاحب نے شریف المجاہد کی ہیکٹر بولتھو کے نوٹس پر مشتمل کتاب IN THE QUEST OF JINNAH پڑ ھی ہوگی۔ بولتھو قائداعظم کے سرکاری سراغ نگار تھے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 207 پر یہ واقعہ درج ہے۔ ”قیام پاکستان کے چند ماہ بعد گاندھی نے حکومت پاکستان کو خط لکھ کر پاکستان کے دورے کی اجازت چاہی۔ حکومت (کابینہ) کے کئی اراکین اس کے حق میں تھے جب یہ معاملہ قائداعظم کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کابینہ کے فیصلے کو ”ویٹو“ یعنی مسترد کردیں گے“۔ اس دور میں گورنر جنرل کے پاس کابینہ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا اختیار تھا۔ اگرچہ 1952ء تک کسی گورنر جنرل نے کابینہ کے کسی فیصلے سے اختلاف نہ کیا۔ چنانچہ گاندھی پاکستان نہ آسکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان کے حوالے سے قائداعظم کا ویژن یہ تھا نہ کہ وہ جسے میرے دوست شامی صاحب پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے جو کہنا تھا، کہہ دیا۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا۔ سمجھنے والے سمجھ جائیں جن کو نہیں سمجھنا ان کا علاج ندارد…!!

No comments:

Post a Comment