انگریزوں سے کہہ دو، ہوائی جہاز روکیں
یہ راتوں کو ہمارا ”تراہ کاڈتے“ ہیں
کچھ ایسا ہی حادثہ فون نے میرے ساتھ بھی کیا۔ ریسیور اٹھایا تو آواز آئی کہ آپ جس پی ٹی سی ایل نمبر سے بول رہے ہیں اس کا پانچ لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے۔ اس سے قبل کہ خوشخبری سنانے والا مجھے خوش کر کے میری جیب کاٹتا میں نے محض تفریح لینے کیلئے عرض کیا کہ بھائی پانچ لاکھ روپے بہت کم ہے اس میں کچھ اضافہ کرو۔ وہ بولا اس بار یہی قبول کیجئے اگلی بار بڑا انعام نکال دیں گے۔ حوصلہ پا کر میں نے پوچھا کہ اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے مجھے آپ کو کتنا جرمانہ ادا کرنا ہے۔ نوجوان جلدی میں تھا ۔ کہنے لگا کہ آپ فوراً پانچ ہزار روپے کا بندوبست کریں اور دیئے گئے موبائل پر پانچ ہزار کا بیلنس بھجوا دیں۔ انعام شام تک آپ کے گھر پہنچا دوں گا اس نے نمبر دیا اور میں نے اس نمبر پر ایس ایم ایس کیا کہ فراڈیئے۔ پی ٹی سی ایل نمبروں پر کوئی انعام نہیں نکلتا۔ تم یہ واردات اپنے والد گرامی سے کرو یا پھر اپنے سالے سے جن سے تم نے شادی کا انتقام لینا ہو گا۔ ایس ایم ایس کرنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ میں اس کے جھانسے میں کیوں نہیں آیا؟ مجھے بیوقوف بنانا نہایت آسان ہے اور میں زندگی بھر بیوقوف بنتا رہا ہوں حتیٰ کہ مطلب اور مفاد پرستوں کو دوست سمجھتا رہا ہوں اور استعمال کرنے والوں کو مہربان سمجھتا رہا ہوں۔ کوئی چار برس قبل میرے موبائل پر فون آیا کہ میں فون کمپنی سے بول رہا ہوں۔ آپ کا انعام نکلا ہے براہ کرم میرے نمبر پر کال کریں۔ میں بیوقوف یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ کمپنی افسران کے مفت فون والے مجھے واپسی کال کرنے کو کیوں کہیں گے۔ میں نے فون کیا تو چند سیکنڈوں میں اندازہ ہو گیا کہ ”وارداتیا“ ابھی کچا ہے۔ میں نے اسے جھاڑ کر فون بند کر دیا اور اتنے میں میرے دس منٹ ضائع ہو چکے تھے۔ اسی طرح کی حرکت دو تجربہ کار وارداتیوں نے بعد ازاں کرنے کی کوشش کی، ایک رات اخبارات پڑھتے پڑھتے اونگھ رہا تھا تو موبائل پر ایس ایم ایس آیا کہ آپ کو 25 منٹ فری دیئے جا رہے ہیں۔ اس نمبر پر ایس ایم ایس کریں۔ میں نے بھولپن میں ایس ایم ایس کیا تو جواباً پیغام ملا کہ آپ کے بیلنس سے تین سو روپے کا بیلنس ٹرانسفر ہو چکا ہے اور اب آپ کا بیلنس دو روپے ہے۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ کون کہتا ہے کہ ہماری قوم میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ یہاں تو ماشاء اللہ ذہانت اور ٹیلنٹ ابل ابل کر باہر نکل رہی ہے اور لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہی ہے۔ ایک ہفتہ قبل عید الفطر تھی۔ میں نماز عید کے لئے مسجد گیا تو باہر سڑک پر فطرانہ لینے والوں کی قطار لگی تھی کسی کا بازو نکارہ تو کوئی لولا لنگڑا… ایک خاتون کی ٹانگ اور ہاتھ مڑے ہوئے تھے اور ٹانگ پر ہلدی کا رنگ نمایاں تھا۔ اس کی تکلیف اور حالت نے میرے دل پر گہرا اثر کیا اور میں نے کچھ رقم اس کی جھولی میں ڈال دی۔ چند قدم آگے بڑھا تو کھسر پھسر سنائی دی۔ میں رک گیا کہ کہیں کوئی دہشت گرد نہ گھس آیا ہو۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سائیکل موٹروں پر ڈی ایچ اے کا سکیورٹی سٹاف آ رہا تھا جسے دیکھتے ہی بھکاریوں نے دوڑیں لگا دیں، اس دوڑ میں لولے لنگڑے سب شامل تھے اور سب سے آگے وہ خاتون بھکاری تھی جس کی بظاہر ٹانگ ناکارہ ہو چکی تھی اور جس کی حالت زار نے میرا دل پسیج دیا تھا۔ میں مسجد کے باہر کھڑا یہ منظر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کون کہتا ہے کہ اس قوم میں ٹیلنٹ کی کمی ہے یہاں تو لوگ ایسا سوانگ بھرتے ہیں کہ ہم جیسے دیدہ و بینا والوں کی کھلی آنکھوں پر پردے ڈال دیتے ہیں۔
چند روز قبل میں جنگ اور نیوز میں ایک ایسے کار چور کے اعترافات پڑھ رہا تھا جسے آپ کار چوروں کا بادشاہ یا صدر کہہ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں کسی طرح کا بھی صدر بننے کے لئے چور ہونا ضروری ہے۔ آپ کسی بھی ایسوسی ایشن یا انجمن یا یونین کا صدر نہیں بن سکتے جب تک آپ میں سینہ زوری، پیسہ چوری اور تھوڑی بہت غنڈہ گردی کی صفات اعلیٰ نہ پائی جاتی ہوں۔ آپ کسی بھی یونین کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھ لیں چاہے وہ پروفیسروں اور ڈاکٹروں کا ہی احتجاج کیوں نہ ہو آپ کو احتجاج کے لیڈر اسی طرح پتھر برساتے، راہگیروں کی زندگی اجیرن کرتے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے اور سینہ زوری کرتے نظر آئیں گے جس طرح جاہلوں کی یونین کر سکتی ہے یا کرتی ہے۔ اس میدان میں پڑھے لکھوں اور نیم خواندہ یا جہلا میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہم ماشاء اللہ کس قدر ترقی یافتہ اور مہذب ہو چکے ہیں۔ ہاں تو میں کار چوروں کے بادشاہ کی وارداتوں کی جھلک دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ بادشاہ اب تک ہزاروں کاریں (چھوٹی بڑی اور نہایت قیمتی) چوری کر کے علاقہ غیر میں پہنچا چکا ہے، بہت سی گاڑیوں کے مالک وہاں پہنچ کر اور کچھ رقم یا تاوان ادا کر کے اپنی کاریں واپس لینے میں کامیاب ہو گئے، کچھ کے نئے پرزے مارکیٹ میں پہنچ گئے اور کچھ کے رنگ، انجن اور چیسز نمبر تبدیل کر کے با اثر لوگوں کو سستے داموں فروخت کر دی گئیں اور کچھ اپنی اصل حالت میں نمبر پلیٹیں تبدیل کر کے پولیس افسران کی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ ہمارے افسران خاص طور پر پولیس افسران کے پاس جو آپ کو قیمتی کاریں نظر آئیں گی وہ یا تو سالہا سال سے سپرد داری پر لی گئی ہیں، یا وہ کسی واردات میں ملوث تھیں اور پھر پولیس افسران کے ہتھے چڑھ گئیں یا پھر کار چوروں کا تحفہ نیاز مندی ہیں۔ شہنشاہ کار چور کا کہنا ہے کہ ہمارے مکینکوں اور موجدوں نے کار چوری سے بچنے کے لئے لاک بنائے، ہم نے چند دن میں اس کا توڑ ڈھونڈھ لیا، لوگوں نے مہنگے ٹریکر لگوائے ہم نے ان کو ناکارہ کرنے کا بھی طریقہ ایجاد کر لیا۔ بڑے فخر سے اس نے اعتراف کیا کہ اسلام آباد کے ایک اعلی شان ہوٹل کے باہر کھڑی نہایت مہنگی کار جس میں ٹریکر تھا اس نے چند منٹوں میں چرائی اور ہر ناکے پر پولیس کو رشوت دے کر پشاور پہنچ گیا جہاں انجن نمبر چیسز نمبر اور کار کا رنگ تبدیل کرنے کا اعلیٰ انتظام موجود ہے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے وہ خدمت کار بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جو جعلی رجسٹریشن اس طرح تیار کرتے ہیں کہ امریکہ کے کھوجی بھی پہچان نہیں سکتے۔ تفصیل میں کیا جاؤں قدم قدم پر ہیں دام ہی دام اور ہر طرف دھوکہ دہی کا اتنا خوبصورت جال بچھا ہے کہ انسان اپنی قوم کے زرخیز ذہن، تکنیکی صلاحیتوں اور فنکارانہ ٹیلنٹ کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں اتنی بار بیمار ماں، آپریشن زدہ باپ اور داغ یتیمی کے نام پر دھوکہ کھا چکا ہوں کہ اب تو اصلی اور جعلی کی پہچان ہی مٹ گئی ہے۔ میں نے فقط چند مثالیں دیں ورنہ پاکستان میں ماشاء اللہ ہر طرف ٹیلنٹ، ذہانت، ایجاد اور فنکارانہ کاریگری کے دریا بہہ رہے ہیں۔ صدر صاحب یوم پاکستان پر رحمان ملک سیمت اپنے حواریوں کو نشان پاکستان، ہلال پاکستان جیسے بڑے بڑے اعزازات سے سجاتے رہے اور ان فنکاروں کو بھول گئے جنہوں نے اہل وطن سے اپنی قابلیت اور حسن کارکردگی کا لوہا منوا رکھا ہے یہ حضرات صدر صاحب کے حواریوں سے کم قابل نہیں بس فرق اپنے اپنے شعبے کا ہے۔
No comments:
Post a Comment