Friday, 18 May 2012

خیال اپنا اپنا September 05, 2011

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے خود کش سیاسی حملے کے بعد ابھی تک تبصروں کی بارش ہو رہی ہے اور تجزیات کے دریا بہہ رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا ایک گروہ ڈاکٹر ذوالفقار کے بارے میں شاکی ہے چنانچہ کچھ حضرات ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ یہ صدر صاحب کی سیاسی چال ہے۔ کچھ اہل دانش کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب اکثر بیانات دے کر واپس لے لیا کرتے ہیں اور یہ بھی ایک چال ہے ایم کیو ایم پر دباؤ ڈال کر اسے اقتدار میں شامل کرنے کی جبکہ کچھ تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ یہ سندھ میں گرتی ہوئی پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو سہارا دینے اور قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے نسخہ ایجاد کیا گیا ہے۔ میں مرزا صاحب کی پریس کانفرنس سنتے اور دیکھتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ اگر مرزا صاحب سچ کہہ رہے ہیں تو ان کی سیاسی دنیا ویران ہو جائے گی اور اگر مرزا صاحب قرآن مجید کو سر پر رکھ کر غلط بیانی کر رہے ہیں تو ان کی عاقبت تباہ ہو جائے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں قرآن مجید پر ہاتھ کر جھوٹ بولنے والوں کو ذلیل و رسوا ہوتے بھی دیکھا ہے اور عبرت کی مثال بنتے بھی دیکھا ہے۔ میں قدامت پسند مسلمان واقع ہوا ہوں اس لئے عام طور پر لوگوں پر شک نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے حلفیہ بیانات کے پس پردہ جھوٹ یا سازش کے محرکات تلاش کرنے کی کوششیں کرتا ہوں۔ میرا ہمیشہ فلسفہ یہ رہا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو جھوٹا ثابت نہ کر دے اسے سچا سمجھنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے جب ہمارے تجزیہ نگار ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں بہت دور کی کوڑیاں لاتے ہیں اور خیالات کے پروں پر الفاظ کو سجا کر آسمان کی طرف محو پرواز ہو جاتے ہیں تو میں ان کے تخیل کے پرواز کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جو کچھ کہا وہ آپ نے سنا اور پڑھا۔ میرے نزدیک مرزا صاحب کے اندر سچ کا جو لاوہ پھٹا اس سے نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ پی پی پی کو بھی سیاسی نقصان پہنچا۔ ان کی حق گوئی کی داد نہ دینا قدرے زیادتی ہوگی لیکن ان کے سچ کو پرکھنے کے لئے سپریم کورٹ کی سطح پر انکوائری اور تحقیق نہایت ضروری ہے کیونکہ ان کے الزامات سے صرف نظر قومی مفاد کے منافی ہے۔ کتنی دردناک اور لہو لہان ہے یہ حقیقت کہ کراچی میں اتنے عرصے تک بے دریغ خون بہتا رہا اور حکومت تماشائی بنی گھروں کے اجڑنے اور معیشت کے تباہ ہونے کا منظر دیکھتی رہی۔ مرزا صاحب کے اس حوالے سے الزامات اعلیٰ درجے کی تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ کام سپریم کورٹ کے کرنے کا ہے جس نے پہلے ہی سوموو نوٹس لے رکھا ہے۔ سر پر قرآن رکھ کر مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ ایم کیو ایم ملک توڑنے کے درپے ہے نہایت سنگین الزام ہے میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان سر پر اللہ کی آخری کتاب رکھ کر جھوٹ بولے گا۔ ملکی مفادات کاتقاضا ہے کہ اس الزام کی گہری تحقیق کی جائے کیونکہ آئین کی رو سے کسی ایسی جماعت کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو اور اگر مرزا صاحب جھوٹے قرار پائیں تو وہ سزاوار ٹھہریں تاکہ آئندہ جھوٹ بولنے کی حوصلہ شکنی ہو۔ 
میں نے گزشتہ ایک کالم میں برادرم عطاء الحق قاسمی کے اس فقرے پر شک کا اظہار کیا تھا کہ قائداعظم کی تو خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں اور ساتھ ہی گزارش کی تھی کہ کوئی صاحب اس پر روشنی ڈال سکیں تو میں ممنون ہوں گا۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ زندگی بھر سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور تحقیق میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔ بحث اگر مناظرہ بن کر پوائنٹ سکورنگ کا کھیل نہ بن جائے تو یقینا اس سے علم اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ میری گزارش ہے کہ جواب میں برادرم مجیب الرحمن شامی صاحب نے قائد اعظم کے نام ایک خط کا متن بیان کیا ہے جو ہندوستانی سفیر سری پرکاش کی جانب سے 2جولائی 1948ء کو قائداعظم کے نام لکھا گیا یہ خط میری نظر میں نہیں تھا میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ شامی صاحب کا شکریہ۔ اب مجھ پرلازم ہے کہ میں اصل خط کو پڑھوں اور پھر اس کے جواب کا بھی مطالعہ کروں۔ یہ ریسرچ وزارت خارجہ کے ریکارڈ میں اس ملاقات کے منٹس دیکھے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی انہیں پڑھ کر اندازہ ہو گا کہ قائداعظم کے اصل الفاظ کیا تھے۔ میں درجن بار سے زیادہ لکھ چکا ہوں کہ قائداعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے اور قیام پاکستان سے قبل انہوں نے ان تعلقات کو کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات سے تشبیہ دی تھی لیکن بد قسمتی سے ان کا خواب ادھورا رہا اور ہندوستان سے تعلقات مسلسل بگڑتے چلے گئے۔ اس کا آغاز تو کانگرس کی جون 47ء کی قرارداد سے ہو گیا تھا جس میں کانگرس نے تقسیم ہند کا منصوبہ قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دن پاکستان ہندوستان کا حصہ بن جائے گا۔ کانگریس کے ممتاز لیڈر بقول مولانا ابوالکلام آزاد برملا کہتے پھرتے تھے کہ پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا اور منت سماجت کر کے واپسی چاہے گا اس مہم میں سردار پٹیل سب سے نمایاں تھے۔ اسی پس منظر میں قائداعظم نے 25اکتوبر 1947کو کہا تھا کہ ”ہندوستان نے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ مہم جاری کر رکھی ہے کہ پاکستان محض عارضی پاگل پن ہے اور ایک دن یہ پچھتا کر اور معافی مانگ کر یونین میں واپس آ جائے گا۔ ہندوستان پاکستان کو Paralyseکر دینا چاہتا ہے۔“
قائد اعظم شاید خلوت میں آنسو بہاتے ہوں لیکن جلوت میں ان کی آنکھوں میں صرف ایک بار آنسو دیکھے گئے جب وہ والٹن کے مہاجرین کیمپ میں تشریف لائے۔ مختصر یہ کہ مہاجرین کے دل کو پارہ پارہ کرنے والی قتل و غارت کی داستانیں، کشمیر کی جنگ، ہندوستان کا کیش بیلنس سے پاکستان کا 750کروڑ روپے کا حصہ دینے میں لیت و لعل، کوئلے کی سپلائی سے انکار جس کا مقصد ریلوے اور صنعت کو معطل کرنا تھا اور پھر اپریل 1948ء میں دو ہیڈ ورکس سے پانی بند کر کے پاکستان کی زراعت کو خشک سالی کا شکار کرنا ایسے اقدامات تھے جو ناقابل فراموش تھے۔ پاکستان کے حصے کے 750کروڑ روپوں میں200کروڑ دینے کے بعد بقایا روک لئے گئے کہ ان کی ا دائیگی مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ گاندھی جی نے جنوری 1948ء میں مرن بھرت رکھا تو پانچ سو ملین ادا کر دیئے گئے اور پچاس ملین پھر بھی روک لئے۔ یہ سمجھنا کہ ہندوستان جو ہر روز پاکستان کے جسم پر زخم لگا رہا تھا اسے قائداعظم جولائی 1948ء تک بھول گئے یا ان واقعات سے ان کا ویژن متاثر نہ ہوا تھا ایک ادائے معصومانہ ہے۔ اسی لئے 30جولائی کے خط میں لکھا گیا ہے کہ ”جب حالات بہتر ہو جائیں تو کسی دن آپ واپس جانا پسند کریں گے“ اول تو اس خط میں کہیں نہیں کہا گیا کہ ”وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“ دوم یہ خواہش حالات کی بہتری سے مشروط تھی ورنہ جب قائداعظم مارچ 1948ء میں مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو وہ ہندوستان میں رک سکتے تھے۔
ہاشم رضا آئی سی ایس نے اپنی کتاب Journey Through Historyمیں لکھا ہے کہ جب گورنر جنرل قائداعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے کا ارادہ کیا تو پروگرام کی فائل میں نے بھجوائی۔ جس میں یہ تجویز دی کہ گورنر جنرل کے لئے پانچ سو پونڈ ادا کر کے برٹش ایرویز کا طیارہ چارٹر کر لیا جائے۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ میرے ملک کا غریب خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے طیارے میں ہی جاؤں گا یہ طیارہ چھوٹا تھا اور فضا میں پرندے کی مانند پھڑ پھڑاتا تھا جبکہ قائداعظم علیل تھے جب دوبارہ فائل بھجوائی گئی تو لکھا گیا کہ گورنر جنرل کے طیارے کا فیول ٹینک چھوٹا ہے اس لئے آپ کو ری فیول کے لئے دہلی رکنا پڑے گا۔ قائد اعظم کا جواب تھا کہ میں ہندوستان میں رکنا نہیں چاہتا۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ طیارے کے ساتھ ایک اور فیول ٹینک لگایا جائے تاکہ قائداعظم ایک ہی اڑان میں ڈھاکہ پہنچ سکیں۔ یہ فائل قائداعظم پیپرز میں محفوظ ہے ۔ ریکارڈ کے مطابق یہ فائل دو تین مرتبہ گورنر جنرل کو بھجوائی گئی۔ برادرم شامی صاحب کا کہنا ہے کہ ”یہ ایک لمحاتی فیصلہ ہو سکتا ہے“۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے بعد کرتے تھے ۔ لمحاتی یا جذباتی فیصلے ان کا انداز نہیں تھے اور اس فیصلے میں تو حکومتی اور ریاستی تعلقات کا عمل دخل تھا اس لئے یہ فیصلہ غور و خوض کا متقاضی تھا جبکہ 30جولائی کے خط میں بمبئی یاترہ اچھے تعلقات سے مشروط تھی۔ فضا میں قدم رکھنا اور زمین پر قدم رکھنا دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق حائل ہے لاکھوں پاکستانی ایئر لائنوں سے سفر کرتے ہوئے اسرائیل کی فضا سے گزرتے ہیں کیا وہ اسرائیل کی زمین پر قدم رکھتے ہیں میرے نزدیک قائداعظم کے فیصلے کو لمحاتی فیصلہ قرار دینا انہیں منفی خراج تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے بہر حال میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا قارئین اپنی رائے خود قائم کریں میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ خیال اپنا اپنا، پسند اپنی اپنی…!!\

No comments:

Post a Comment