Friday, 18 May 2012

ستائیسویں رمضان اورپاکستان August 30, 2011

 ابھی کچھ ا بہام باقی ہے اس لئے وضاحت کر رہا ہوں کہ پاکستان 14اور پندرہ اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا اور جب ریڈیو پر 12بج کر ایک منٹ پر مصطفی علی ہمدانی نے اعلان کیا کہ ”یہ ریڈیو پاکستان ہے“ تو گویا کروڑوں مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب حقیقت بن کر سا منے آگیا۔ اس خواب کی جھلک جہاں دو صدیوں پہلے شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں ملتی ہے وہاں اس کا نقشہ علامہ اقبال کے 1930ء کے خطبے میں بھی ملتا ہے۔ پروفیسر مسعود الحسن صاحب عالم و فاضل شخصیت تھے۔ وہ اپنی انگریزی کتاب ”حضرت داتا گنج بخش، روحانی سوانح عمری“مطبوعہ داتا گنج بخش اکادمی میں لکھتے ہیں کہ میں 1930ء میں لاہور آیا اور داتا گنج بخش مزار کے قریب رہائش اختیار کی۔ علامہ اقبال ان دنوں اکثر نماز فجر سے قبل داتا گنج بخش حاضری دیا کرتے تھے جہاں میری ان سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے علامہ صاحب کے ارشاد کے مطابق ان کے لئے انگریزی میں کچھ کام کیا اور ان کی تقاریر لکھنے میں بھی مدد کی جن میں خطبہ الٰہ آباد بھی شامل ہے۔ پروفیسر مسعود الحسن لکھتے ہیں کہ میرے پوچھنے پر علامہ اقبال نے بتایا کہ انہیں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خیال داتا گنج بخش مزار میں عبادت کے دوران سوجھا۔ لطف کی بات ہے کہ ایک انگریز مصنف ایولن رنچ نے اپنی کتاب۔ 
(Immortal Year)میں لکھا ہے کہ ”میں نے جناح سے پوچھا کہ تمہیں سب سے پہلے پاکستان کا خیال کب آیا اور یہ تصور تمہارے ذہن میں کب ابھرا؟۔ جناح کا سیدھا سا جواب تھا۔” 1930ء میں“۔ گویا علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو پہلی بار پاکستان کا خیال 1930ء میں آیا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت اس خیال نے لفظ پاکستان کا لباس نہیں پہنا تھا اس لئے یہ خیال مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور علیحدہ مملکت کا خیال تھا۔ جب پاکستان 14اور 15اگست کی نصف شب دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اس کا پہلا یوم آزادی 15اگست1947ء کو منایا گیا۔ اس روز ستائیسویں رمضان تھی ، جمعتہ المبارک کا دن تھا اور لیلیة القدر تھی۔ مبارک شگونوں یا قدرت کی کاریگری مسلمانوں کے لئے بے پناہ حوصلہ افزاء اور ایمان افروز تھی۔ اگلے سال یوم آزادی سے قبل جولائی 1948میں فیصلہ ہوا کہ پاکستان کا یوم آزادی ہر سال 14اگست کو منایا جائے گا۔ بھارت اپنا یوم آزادی پندرہ اگست کو مناتا ہے شاید پاکستان کے زعماء اور حکمران اپنا یوم آزادی بھارت سے الگ رکھنا چاہتے تھے۔چونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 15اگست سے ہندوستان کے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنا تھا اس لئے وہ 14اگست کو کراچی آئے اور دستور ساز اسمبلی میں برطانوی حکومت کی جانب سے انتقال اقتدار کا اعلان کیا۔ اس لحاظ سے پاکستان کے پاس آپشن تھی کہ وہ اپنا یوم آزادی 14اگست کر سکتا تھا۔ 14اگست کو یوم آزاد ی منانے کی تجویز لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے دی اور اس کی منظورری قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان سے لی گئی۔ میں نے یہ ریکارڈ طویل عرصہ قبل دیکھا تھا لیکن اب تو محترم عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنے مضمون مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس بتاریخ 14اگست 2011ء میں قائداعظم کی منظوری والے خط کا عکس چھاپ بھی دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہئیکہ پاکستان 27رمضان بروزجمعتہ الوداع معرض وجود میں آیا اور یہ شب القدر کی نہایت مبارک رات تھی۔ یہ اعزاز بہرحال اپنی جگہ قیامت تک قائم رہے گا چونکہ 14اگست کو یوم آزادی منانے کا فیصلہ بعد کے برسوں کے لئے تھا۔ 
اسے آپ تاریخ کے اتفاقات سمجھیں، زمانے کے حادثات سمجھیں یا قدرت کی کاریگری سمجھیں کہ قائداعظم کی شخصیت کو پاکستان سے گہری نسبت ہے۔ قائداعظم کی پہلی اور اکلوتی اولاد دینا 15,14اگست کی نصف شب 1919ء کو پیدا ہوئی اور اس نے جمعہ کے دن ہی پہلی بار دن کی روشنی دیکھی۔ قائداعظم کی شخصیت کو پاکستان سے کتنی گہری نسبت ہے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ قائداعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات اور پاکستان کا یوم آزادی ہمیشہ ایک ہی دن ہوتا ہے ۔ اس نقطے کی وضاحت کے لئے چند برسوں کے درج ذیل چارٹ پر نگاہ ڈالئے تو بات واضح ہوجائے گی۔
2004ء
 اگست 11 ستمبر 25 دسمبر
یوم آزادی وفات پیدائش 
ہفتہ ہفتہ ہفتہ
2005ء
اتوار اتوار اتوار
2006ء
سوموار سوموار سوموا ر
2007ء
منگل منگل منگل
2008ء
جمعرات جمعرات جمعرات
2009ء
جمعہ جمعہ جمعہ
2010ء
ہفتہ ہفتہ ہفتہ
2011ء
اتوار اتوار اتوار

یہ محض اتفاق ہے یا قدرت کی کاریگری، میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نے فقط ایک دلچسپ حقیقت آپ کے سامنے رکھی ہے اور یہ سلسلہ قائداعظم کی وفات 11ستمبر1948ء سے شروع ہوا اور جب تک پاکستان قائم ہے یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا اگر آپ اس سے کوئی نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں تو نکال لیجئے۔ 
میرے ایک درویش استاد کہا کرتے تھے کہ ستائیسویں رمضان لیلتہ القدر کو معرض وجود میں آنے والے پاکستان پر اللہ سبحانیٰ و تعالیٰ کا سایہ ہے۔ جب ہم پوچھتے کہ پھر 1971ء میں پاکستان کیوں ٹوٹ گیا تو جواب ملتا کہ وہ ہماری اپنی غلطیوں اور بدنیتی کی سزا تھی۔ نظام قدرت نہ ظالم کا ہاتھ پکڑتا ہے اور نہ قاتل سے تلوار چھینتا ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری غلطیوں کی سزا تھی لیکن غور کرو قدرت کے انتقام پر کہ پاکستان توڑنے والے سیاسی کردار غیر فطری موت مرے ۔ ایک فوجی کردار قیدوبند اور نظربندی کی سزا کے دوران نفرت کا نشانہ بن کر9اگست 1980ء کو فوت ہوگیا۔ اسے جس فوجی جنرل اور گورنر سرحد نے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا وہ خود بھی قتل ہوگیا اس لئے اس فیصلے کی تحقیق نہ ہو سکی۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کے اس پہلو پر بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں اور بہت سے روشن خیال اس پر تنقید کے پتھر بھی مارتے ہیں۔ میں خود اس معاملے سے کوئی نتیجہ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن میرے درویش استاد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں بے شمار ملک ٹوٹے،گوربا چوف نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے لیکن ان میں سے کبھی کوئی پھانسی نہیں چڑھا، کسی کو سزا نہیں ملی پاکستان کو توڑنے والے تین مختلف ممالک کے حکمران تھے اور ان کا انجام ایک جیسا ہوا۔ آخر کیوں؟ صرف پاکستان یا صرف بنگلہ دیش یا صرف ہندوستان میں ایسا ہوتا تو ہم ا سے اتفاق کہتے لیکن تینوں ملکوں میں تینوں کا ایک سا انجام قدرت کی سزا کا اشارہ ہے۔ پھر وہ لمبی سانس لے کر کہتے عزیزان جو اس ملک سے بے وفائی کرے گا ذلیل و خوار ہوگا اور جو خلوص نیت سے خدمت کرے گا دونوں جہانوں میں سرخرو ہوگا۔ 


No comments:

Post a Comment