آپ نے یقینا وہ محاورہ سن رکھا ہو گا کہ ”اولڈ از گولڈ“ یعنی پرانی چیزیں ہیرے اور سونے کی مانند ہوتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہر پرانی شے سونا اور ہیرا نہیں ہوتی۔ یہ فقرہ لکھ چکا ہوں تو مجھے اپنے گاؤں کا چاچا طالب یاد آ رہا ہے جسے لوگ چاچا طالا کے نام سے پکارتے تھے۔ والدین کس قدر لاڈ پیار سے نام رکھتے ہیں اور اس نام میں اپنے کتنے ہی خوابوں کو سموتے ہیں لیکن نام بگاڑنے والے اور روزمرہ کے سانچے میں ڈھالنے والے بڑے ظالم ہوتے ہیں ۔ وہ نام کو رواں بنانے کے لئے اس کا کچومر نکال دیتے ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جس طرح ہر چمکنے والی شے سونا نہیں ہوتی اسی طرح ہر پرانی شے بھی سونا ہیرا نہیں ہوتی۔ میرے استاد پروفیسر دلاور حسین مرحوم ایم اے او کالج لاہور کے پرنسپل ہونے کے ساتھ ساتھ شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی میں بھی پڑھایا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب اپنی حاضر جوابی اور ”مزاح گوئی“ کے لئے خاصے مشہور تھے۔ ایک دن کلاس میں آئے تو چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ ہم نے اس جاسوسی قسم کی شریر مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ”میرا بیٹا میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ میں اسے ہر روز کچھ انگریزی کے محاورے یاد کرنے کے لئے دیتا ہوں اور اگلی صبح ناشتے پر سنتا ہوں۔ آج میں نے اُس سے محاورے سنتے ہوئے کہا کہ (NECESSARY EVIL) یعنی بلائے ناگہانی یا ناگزیر مصیبت کو فقرے میں استعمال کرو۔ اس نے ایک آدھ منٹ سوچا اور بولا ”جوان بچوں والی بوڑھی عورت ناگزیر مصیبت ہوتی ہے“ (An old woman with grown up children is a Necessary Evil) دراصل انگریزی میں اس فقرے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو سامنے پراٹھے پکاتی ہوئی اپنی بیگم کو آواز دی کہ ذرا ادھر آؤ اور سنو تمہارا چاند تمہیں کیا کہہ رہا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ پروفیسر صاحب کا یہ بیٹا مقابلے کا امتحان پاس کر کے پولیس افسر بنا اور شاید آئی جی ریٹائر ہوا ۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہر پرانی شے ہیرا سونا نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں بوڑھا، وہ عورت ہو یا مرد، زنگ آلود لوہے کی مانند ہوتا ہے جو نہ اپنے کام کا اور نہ ہی گھر والوں کے کام کا چنانچہ عام طور پر اسے ”ضروری مصیبت“ سمجھ کر ہی گوارہ کیا جاتا ہے۔
اس میں بھی ایک خیر کا پہلو ہے کہ اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ردی خریدنے والے بھی زنگ آلود لوہے کا کچھ نہیں دیتے۔ اگر وہ سونے یا ہیرے جیسا قیمتی ہوتا تو نہ جانے اس کا کیا حشر ہوتا۔ مغرب نے تو اس کاعلاج یہ ڈھونڈھا ہے کہ بوڑھوں کے لئے اولڈ ہومز بنا دیئے ہیں جہاں وہ سرکاری مہمان بن کر رہتے ہیں۔ ان کے لئے بس اور ٹرین کا سفر مفت ہوتا ہے۔ چنانچہ جب تک ان کے گوڈوں گٹوں میں ہمت ہوتی ہے وہ جی بھر کر سفر کرتے اور بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں۔ علاج معالجے کی بھی فکر نہیں ہوتی کیونکہ یہ ذمہ داری بھی سرکار نے اپنے سر لی ہوتی ہے۔ آکسفورڈ میں ایک ایسے ہی پاکستانی برطانوی بوڑھے سے میری ملاقات رہتی تھی۔ وہ مجھے بتایا کرتا تھا کہ میں نے دراصل برطانیہ ،سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ بوڑھے ہونے کے بعد دیکھے جب میں فارغ تھا اور مفت سفر کی سہولت میسر تھی ورنہ تو جوانی مشین کی مانند کام کرتے گزر گئی۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ معاشرہ بڑا حسابی کتابی ہے میں نے جو عمر بھر ٹیکس اور سوشل سکیورٹی دی اب بڑھاپے میں وہی کھا رہا ہوں۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ منافقت کا شکار ہے۔ وہ اولڈ ہومز میں بزرگوں کو بھجوانا مشرقی روایات کی توہین سمجھتے ہیں جبکہ گھروں میں ”بہویں“ بوڑھے کی بے وقت کھانسی کے خلاف احتجاج کر کے خاوند کے ”کان کھا“ لیتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب وہ بڈھے یا بڈھی سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ چنانچہ سزا کا یہ سلسلہ دونوں جانب طویل ہوتا رہتا ہے۔
جن کی اولاد بیویوں کی جھک جھک سے تنگ آ کر بڈھوں کو اولڈ ہومز میں جمع کروا آتی ہے پھر وہ عید بقرعید پر بھی واپس مڑ کر نہیں دیکھتے کہ کہیں بڈھا بلائے ناگہانی کی مانند گلے نہ پڑ جائے۔ ریٹائرڈ جنرل محمد اقبال لاہور میں بڈھوں یعنی سینئر سٹیزنز کی انجمن کے صدر ہیں۔ معاف کیجئے گا میں نے ریٹائرڈ جنرل لکھ دیا اور گستاخی کا مرتکب ہوا کیونکہ جنرل تو شیر کی مانند کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ اس کی کبھی نہ کبھی لاٹری نکل ہی آتی ہے۔ جنرل اقبال نہایت بااصول اور ایماندار انسان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں ورنہ تو ریٹائرڈ جنرل مرے ہوئے ہاتھی کی مانند سوا ارب روپے کا ہوتا ہے لیکن اگر لائق اور سمجھدار ہو تو سوا کھرب روپے کا ہوتا ہے۔ جنرل صاحب سینئر سٹیزن یعنی بڈھوں کے لئے مراعات حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے سرکار ی افسران سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جوان ہی رہیں گے۔
جنرل صاحب پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بھی رہے پھر عبوری دور میں گورنری کا حلف بھی اٹھایا لیکن یہ کرسی پرست نوکر شاہی ان کی تجاویز پر اس قدر ٹھنڈے دل سے غور کرتی ہے کہ ان کے دل میں رحم کی گرمی ہی پیدا نہیں ہوتی۔ چنانچہ اب سینئر سٹیزنز ایسوسی ایشن یعنی بزرگوں کی انجمن نے سالانہ تقریب پر اکتفا کیا ہوا ہے جہاں وہ بوڑھوں کو سالانہ کھانا کھلا کر اور گانے سنوا کر ان کا دل پشوری کر دیتے ہیں اور ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ میں اس تقریب میں کبھی نہیں گیا کیونکہ میں فی الحال بوڑھا نہیں ہوا۔ جنرل صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں اور مجھے دعوت نامہ نہیں بھجواتے۔ بڈھوں کو وقت بے وقت کھنگورا مارنے، بیمار پڑنے اور ہر بات میں دخل دینے کی عادت ہوتی ہے اس لئے ہمارے معاشرے میں عام طور پر بوڑھوں کو گھر میں ہی الگ کر دیتے ہیں تاکہ بچے ان کا زلزلہ نما کھنگورا سن کر نہ ڈریں۔ پنجاب کے دیہاتوں میں صدیوں سے رواج ہے کہ بڈھوں کو بیٹھک میں سجا دیتے ہیں تاکہ وہ گلی سے گزرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے وقت گزارتے رہیں۔جب تک یہ حضرات جوان تھے اور کماتے تھے تو خاندان کا انحصار ان کے زور بازو پر تھا ، گھر بار میں ان کا بڑا رعب اور دبدبہ ہوتا تھا، وہ گھر کے صحن میں قدم رکھتے تو بہویں فوراً سر پر دوپٹے کھینچ لیتیں اور بچے مارے ادب اور خوف کے اِدھر اُدھر ہو جاتے۔ جب وہ کمانے کے لائق نہیں رہے تو وہ خاندان پر بوجھ بن گئے۔ یہی زندگی ہے اسی لئے شاعر نے کہا تھا کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں عرض کر رہا تھا کہ میں جب بھی یہ محاورہ سنتا ہوں کہ اولڈ از گولڈ یعنی پرانی شے سونا ہوتی ہے تو مجھے اپنے گاؤں کا چاچا طالب عرف چاچا طالا یاد آ جاتا ہے۔ ہم بچپن میں بستے اٹھا کر سکول جاتے ہوئے گلی میں ایک چارپائی پر بیٹھے حقہ پیتے بزرگ کو دیکھتے تھے جو موسم کے مطابق رنگ بدلتا رہتا تھا۔ گرمی ہوتی تو وہ قمیص اتار کر صرف دھوتی پہنے ملتا کیونکہ بوڑھے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خود بوڑھا اور محلے والے اس کے لباس سے آزاد ہو جاتے ہیں ورنہ تو جوان آدمی صرف مختصر سی دھوتی پہنے گلی میں بیٹھا ہو تو گاؤں کی بہو بیٹیاں اس طرف سے گزرتی نہیں اور بعض اوقات لوگ ڈنڈے پکڑے اسے سبق سکھانے اور سمجھانے آ جاتے ہیں۔ کھلنڈری لاپرواہ عمر تھی ۔ ہم چاچے کی چارپائی کے قریب سے گزرتے تو اسے چھیڑنے کے لئے پوچھتے ”چاچا مرنا نئیں“۔ چاچا بذلہ سنج اور ہنس مکھ تھا، وہ ہمیشہ مسکرا کر جواب دیتا ”پترا جب سے چاچے کو مرتا دیکھا ہے موت سے میرا دل ”چڑھ“ گیا ہے یعنی اکتا گیا ہے۔ چاچے کو اسی طرح چھیڑتے کئی برس گزر گئے حتیٰ کہ ایک روز ہم اس گلی سے گزرے تو وہاں نہ چاچا تھا اور نہ ہی چارپائی۔ پتہ چلا چاچا کل وفات پا گیا تھا ۔ اولاد نے اسے جلدی جلدی دفن کر دیا ہے اور اس وقت اس کی چھوڑی ہوئی ”پونجی“ کی تقسیم پر جھگڑا ہو رہا ہے کیونکہ چاچا شہری بڈھوں کی طرح چند تصویریں بتاں اور کچھ حسینوں کے خطوط چھوڑنے کی بجائے زرخیز زرعی زمین کے چند ایکڑ اور دو کچے کوٹھے چھوڑ کر مراتھا۔
No comments:
Post a Comment