ہمارے بھولے بھالے وزیر اعظم صاحب نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ اُسی دنیا میں رہتے ہیں جو آسمانوں پر پرواز کرنے والے شاہینوں کی دنیا ہے اور جس میں صدر صاحب اور فوجی سربراہان اور دیگر بڑے لوگ رہتے ہیں۔شاہین کی دنیا میں رہنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ زمین پر رینگنے والے کروڑوں انسانوں سے رابطہ کٹ جاتا ہے اور کچھ احساس نہیں ہوتا کہ لوگ کن مسائل اور احساسات کی چتا میں جل رہے ہیں اور کس ذہنی قیامت سے گزر رہے ہیں۔
اگر آپ کو میرے الفاظ پر شبہ ہے تو آج وزیر اعظم صاحب کا بیان پڑھ کر دیکھ لیں۔ یہ بیان پڑھتے ہوئے آپ پر راز کھلے گا کہ ہمارے محبوب قائد اور بھولے بھالے وزیر اعظم تو شاہینوں کے ساتھ پرواز کرتے اور بادلوں کے محلات میں رہتے ہیں ۔ اُنہیں علم ہی نہیں کہ اس غریب اور دہشت زدہ ملک کے خوفزدہ عوام کن خدشات اور اندیشوں کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی میٹنگ تھی اور یہ میٹنگ مہران نیول بیس کے سانحے کے بعد ہو رہی تھی۔ خدشات، تفکرات اور انجانے خطرات کی ماری قوم یہ توقع کر رہی تھی کہ کمیٹی کی میٹنگ ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی اور ان کے حوصلوں کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دے گی لیکن آج جو کچھ بھی کمیٹی کی کارروائی کے حوالے سے چھپا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ میٹنگ بھی محض رسمی کارروائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی رسمی کارروائیاں ہر بڑے حملے کے بعد ہوتی رہی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ حملوں، سانحوں اور قتل و غارت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ جی ایچ کیو پر حملے کے بعد بھی اسی طرح کی میٹنگ ہوئی تھی اور بالکل یہی فیصلے ہوئے تھے جن کا اب اعادہ کیا گیا ہے لیکن نتیجہ مہران نیول بیس پر کامیاب حملہ نکلا۔
ظاہر ہے کہ اگر ان فیصلوں پر عمل ہوتا یعنی ساری ایجنسیاں مل کر کام کرتیں ، آپس میں انٹیلی جنس شیئرنگ کرتیں، ان میں رابطے کا موثر نظام وضع کیا جاتا اور انہیں واضح اہداف اور کارروائی کے لئے مخصوص شعبے دیے جاتے تو شاید مہران بیس والا حملہ ناکام ہو جاتا۔ اگر اسے منصوبہ بندی کی سٹیج پر ناکام نہ بھی بنایا جا سکتا تو کم از کم دہشت گردوں کو حملے سے قبل کراچی قیام کے دوران پکڑا جا سکتا تھا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ ہماری ایجنسیاں نالائق ہیں میرے نزدیک وہ دباؤ کا شکار ہیں، اُن کے حوصلوں پر شبنم پڑ چکی ہے اور انہیں متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ اہم ترین ضرورت ان میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ان سب کا ایک مشترکہ ادارہ قائم کرنا ہے جہاں اُن کی رپورٹوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کر کے انہیں تجزیے کے عمل سے گزرا جائے۔ اس وقت تمام ایجنسیاں اپنے اپنے طور پر سرگرم عمل ہیں لیکن موجود چیلنجوں اور خطرات کا تقاضا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو پھیلا کر ضائع کرنے کی بجائے ان کے اپنے اپنے حدود کار مقرر کئے جائیں جن پر وہ بھرپور توجہ دیں اور انہیں علم ہو کہ اس شعبے میں ناکامی یا نااہلی کی ذمہ داری اُن پر ہو گی۔ بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے ۔ میں ان مراحل سے گزر چکا ہوں اس لئے یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ موجودہ حالات میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کا پتہ چلانے کے لئے زیادہ باریک بینی اور زیادہ گہری نظر کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر ایجنسی کو اپنے اپنے اہداف اور اپنا اپنا حلقہ عمل واضح طور پر دیا جائے۔
یارو معاف کرنا ،بات ذرا دور نکل گئی۔ میں کہہ یہ رہا تھا کہ ہمارے سیاسی انتظامی اور عسکری لیڈران شاہینوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور انہیں صحیح معنوں میں علم نہیں کہ ان کی ”رعایا“ کس ذہنی قیامت میں مبتلا ہے۔ اس احساس کی ہلکی اور محتاط سی جھلک چیف جسٹس پاکستان کے دو فقروں میں ملتی ہے ۔ دو روز قبل عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے معصومیت سے کہا کہ نیول بیس پر حملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کا حالات پر کنٹرول نہیں رہا۔ دو دن کے وقفے کے بعد کل چیف جسٹس نے کہا کہ ”حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں دعا کریں ملک قائم رہے“۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج کل انہی اندیشوں کے سمندر میں بہہ رہے ہیں۔ ضرورت تھی کہ دفاعی کمیٹی عوام کے حوصلے بلند کرنے کے لئے اقدامات کرتی لیکن ہمارے مخدوم وزیراعظم کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ شاہینوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور نہ اُن کی انگلیاں عوام کی نبض پر ہیں اور نہ ہی وہ اپنی رعایا کے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں۔
انہیں ہرگز اندازہ نہیں کہ جی ایچ کیو پر حملے کے دو سال بعد نیول بیس پر کامیاب حملے نے قوم کے حوصلے کس قدر پست کر دیے ہیں اور انہیں اتنا اداس، فکرمند اور مغموم کر دیا ہے جس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو کبھی اتنا مایوس اور دل گرفتہ نہیں دیکھا جتنا آج دیکھ رہا ہوں لیکن ماشاء اللہ ہمارے وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں نے پی این ایس مہران کا خود دورہ کیا ہے، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے، عوام کا عزم ڈگمگایا نہیں مزید مضبوط ہوا ہے“۔ خدا کی پناہ ہمارے وزیر اعظم صاحب دہشت گردوں کے خلاف ایک لاکھ بار سے زیادہ کارروائی کا حکم دے چکے اور نتیجہ ہر روز ہمارے سامنے ہوتا ہے۔
ایسے میں آخر کب تک عوام کا عزم نہیں ڈگمگائے گا؟ پتھر پر بھی پانی کی بوندیں پڑتی رہیں تو جگہ بنا لیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اپنی موجودہ قیادت کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں اور ہر شخص بول بول کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے کبھی اتنی نااہل حکومت نہیں دیکھی۔ جی ایچ کیو پر حملے کے بعد کسی نے بھی آرمی چیف سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ آج کچھ آوازیں نیول چیف سے استعفیٰ مانگ رہی ہیں اور یہ آوازیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ غور کیجئے کہ ایسا کیوں ہے؟
عسکری اداروں کی اہلیت کے بارے میں بدظنی کیوں پھیل رہی ہے ؟ آپ نیول بیس کے قیمتی اورین طیاروں کے نقصان کا ماتم کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ تجزیہ نگار یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ دہشت گرد ایئربیس سے گزرے جہاں ایئر فورس کے طیارے موجود تھے انہوں نے ان پر حملہ نہ کیا۔ وہ عقب سے سیڑھی لگا کر آرام سے نیول بیس پر اترے اور پی سی تھری اورین طیاروں پر پل پڑے۔ سوال جائز ہے کہ انہوں نے منصوبہ بندی کے تحت ان طیاروں کو نقصان کیوں پہنچایا؟ کیا اس کے پیچھے را، موساد یا سی آئی اے کا ہاتھ تھا؟ شاید یہ ہاتھ کبھی بے نقاب نہ ہو کیونکہ قوم کو آج تک علم نہیں ہوا کہ جی ایچ کیو جیسے بڑے حملوں کے پیچھے کون تھا اور یہی وجہ ہے کہ قوم میں مایوسی کا زہر پھیل رہا ہے۔
آپ نیول بیس کے نقصان کا ماتم کر تے ہیں جو بالکل جائز ہے لیکن میں اس سے بڑے اور بہت بڑے نقصان کا ماتم کرتا ہوں اور وہ نقصان ہے قوم کے اعتماد، عزم اور حوصلے کو ٹھیس۔ قوم کو اپنے عسکری اداروں کی صلاحیت پر بھرپور اعتماد تھا۔ سچ یہ ہے کہ اس اعتماد کو شدید ٹھیس لگی ہے اور میرے نزدیک یہی اصل نقصان ہے اور یہی مقصد اور ہدف دشمن کا تھا۔
No comments:
Post a Comment