یہ زندگی کی کتاب کا ایک سبق آموز باب ہے اس لئے اس کے آخر تک میرے ساتھ رہیئے گا۔ پروفیسر ایم ڈی تاثیر (سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر مرحوم کے والد)، فیض احمد فیض اور میرے استاد اور دوست نامور مورخ ڈاکٹر رضی واسطی مرحوم کی بیگمات برطانوی انگریز تھیں اور ان کی شادیاں دنیا داری کے اصولوں کے مطابق کامیاب رہیں لیکن میں ایسی سینکڑوں شادیوں کی ناکامی کا گواہ ہوں جہاں دولہا پاکستانی اور دلہن انگریز یا امریکن تھی۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ”میموں“ سے کی گئی اکثر شادیاں ناکام ہوئیں اور کسی نہ کسی سٹیج پر گوری بیوی پاکستانی دولہا کو چھوڑ گئی۔
آج کل بھی ہماری عدالتوں میں ایسے لاتعداد مقدمات چل رہے ہیں جہاں میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد پاکستانی دولہا اپنے ننھے بیٹے یا بیٹی کو لے کر پاکستان بھاگ آیا اور پھر پیچھے سے غیر ملکی بیگم بھی پاکستان پہنچ گئی اور اولاد کی واپسی کے لئے مقدمہ کر دیا۔ میں ان معاملات میں اتنا نرم دل واقع ہوا ہوں کہ بعض اوقات اولاد اور والدین کے بچھڑنے یا ماں باپ کے درمیان اولاد کے لئے کھینچا تانی کے مناظر دیکھ کر آنسو ضبط نہیں کر سکتا۔ میرے عزیز اور دیرینہ دوستوں میں ایک مکرم سید بھی رہے جو امجد اسلام امجد کا بھی یار غار ہے۔ وہ کوئی 52/53 سال قبل اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن گیا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ روایت کے مطابق اور راجیو گاندھی کی مانند اس نے اپنی ایک اطالوی کلاس فیلو سے شادی کر لی جس سے تین بچے بھی پیدا کر لئے۔
بیس بائیس سال چلنے کے بعد یہ شادی ”ٹٹ گئی تڑک کر کے“ اور بات پہنچی عدالتوں تک۔ ایک دن میں نے مکرم سے پوچھا کہ یار بظاہر تو تمہاری بیوی نہایت ملنسار اور خوش اخلاق تھی۔ علیحدگی کیوں ہوئی۔ مکرم حسب معمول مسکرایا اور جواب دیا۔ کوئی خاص وجہ نہیں تھی تہذیبی تصادم بنیادی وجہ تھی اس کی عادات و اطوار، انداز زندگی اور معاشرتی اقدار مجھ سے بالکل مختلف تھیں۔ میں نے سینکڑوں پاکستانیوں سے اپنی میم بیوی سے علیحدگی کی وجوہ پوچھی ہیں۔
عام طور پر جواب تہذیبی تصادم ہی ملا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معاشرے میں بھی طلاق کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ میں ان وجوہ کے پس منظر میں جانے کا ارادہ ہرگز نہیں رکھتا کیونکہ میرے آج کے کالم کا نفس مضمون کچھ اور ہے۔ پہلے تو یہ بات یاد رکھیئے کہ زندگی بڑی وسیع، پیچیدہ اور رنگ برنگی شے ہے اور زندگی کے شعبوں پر ایک ہی اصول کا یکساں اطلاق نہیں کیا جا سکتا اس لئے جب ہم عمومی یا جنرل بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب اکثریت یا بڑی تعداد ہوتا ہے۔ میرا عام طور پر مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ ناکام شادیوں اور ٹوٹے ہوئے رشتوں کی اولاد مصائب اور مشکلات کا شکار رہتی ہے۔
انہیں نہ والدین کی محبت ملتی ہے اور نہ ہی ان کی ذہنی پرورش عام بچوں کی مانند ہوتی ہے جس کے نتیجے کے طور پر یہ بچے نہ صرف محرومیوں کی آگ میں جلتے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی نفسیات بھی بگڑ جاتی ہے، شخصیت پیچیدہ ہو جاتی ہے، لاشعور میں اپنی محرومیوں کا انتقام معاشرے سے لینے کی آرزو جنم لے لیتی ہے اور پھر وہ ایک نارمل اور متوازن انسان نہیں رہتے۔ ہاں! یاد رکھیئے کہ جن گھروں کے ماحول پر تلخیوں، والدین کی لڑائیوں اور بداعتمادی کی چھاپ ہوتی ہے ان کے بچے بھی عام طور پر ابنارمل نفسیات کے مالک ہوتے ہیں۔
میں نے زندگی کے سفر کے دوران اکثر دیکھا ہے کہ اس طرح کے ماحول کی پیداوار بچے وارداتیوں، منشیات فروشوں، سمگلروں، مجرموں کے گینگ اور خفیہ ایجنسیوں کے مرغوب اور پسندیدہ ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے سے اس فہرست میں دہشت گرد بھی شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔
دہشت گردوں کا ایندھن بننے والے اکثر بچے ”مولویوں“ کے فراہم کردہ ہیں جو جہاد اور حوروں کے نام پر ان کی اس طرح برین واشنگ کرتے ہیں کہ وہ گھر بار چھوڑ کر دہشتگردوں یا جہادیوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ چند روز قبل سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کرنے والے ریکنگ کا وہ کردار پکڑا گیا ہے جسے ٹیلی ویژن کی سکرین پر درجنوں بار دکھایا گیا کہ اس کا موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہو رہا تھا اور پھر وہ سب کی آنکھوں کے سامنے فرار ہو گیا۔ یہ نوجوان کوئی ڈیڑھ دو برس قبل گھر سے غائب ہوا تھا۔ آج سے بیس برس قبل پنجاب کی بہت سی مساجد میں ایسے واعظ اور مولوی صاحبان ببانگ دہل موجود تھے جو نوجوان لڑکوں کی جہاد کشمیر کے نام پر برین واشنگ کر کے انہیں جہادی تنظیموں کو سپلائی کرتے تھے۔ حکومت خاموشی سے نماشا دیکھتی رہی۔
آج دہشت گردوں کے پاس ایسے نوجوان کی بڑی کھیپ موجود ہے۔ ان میں ناآسودہ خاندانوں، غربت کے مارے بدحال گھرانوں یا کسی ظلم و زیادتی کے شکار خاندان کے نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں انتقام کی تڑپ یا برین واشنگ یا کوئی جذبہ ان کیمپوں میں لے آیا ہے۔ ان دہشت گردوں میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کسی زمانے میں کسی خفیہ ایجنسی کے کردار تھے اور کسی سبب پناہ لینے کے لئے دہشت گردوں کے بازؤں میں چلے گئے۔ میں تفصیل میں نہیں جا رہا کیونکہ مقصد آپ کو اس مسئلے کے ایک اہم پہلو کی جھلک دکھانا ہے یوں تو اس کے کئی پہلو اور بھی ہیں۔
اس خونی، دردناک اور خطرناک ڈرامے کا ایک اہم اور مشہور کردار ڈیوڈ ہیڈلے بھی ہے جو آج کل امریکی اور ہندوستانی اخبارات پر چھاپا ہوا ہے اور جس کا ہر روز تھوڑا بہت ذکر
پاکستانی اخبارات میں بھی ہوتا ہے۔ (جاری ہے
No comments:
Post a Comment