Friday, 18 May 2012

خون کی پیاس کب بجھے گی؟ May 24, 2011


خدا جانے اس دھرتی کا سینہ کب ٹھنڈا ہوگا، اس کی پیاس کب بجھے گی؟ گزشتہ ایک دہائی سے یہاں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، خاندان تباہ ہو رہے ہیں، لیکن یہ سلسلہ بند ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ہر صبح ایک موہوم امید کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اورہر رات آنسوؤں میں بھیگ جاتی ہے۔ ایک دہائی سے یہ جنگ جاری ہے لیکن اس کے باوجود قوم اس حوالے سے خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کوئی اسے بے چہرہ جنگ، کوئی اسے امریکہ کی جنگ اور کوئی اسے پاکستان کی جنگ کہتا ہے لیکن پاکستانی قوم بحیثیت قوم کسی ایک نقطے پر متفق نہیں۔ داخلی اوراندرونی جنگ کا یہی خاصا ہوتا ہے۔ کسی دشمن ملک کی جانب سے یلغار کی جائے تو دشمن کا چہرہ عیاں ہوتا ہے لیکن ملک کے اندرسے جنم لینے والی جنگ اور باطن سے چلنے والی گولیاں قوم کو بھی تقسیم کردیتی ہیں اور دشمن کاچہرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دہشت گردہمارے اندر سے نقب لگا رہے ہیں، وہ ملک کو کمزورکرچکے ہیں، پانچ ہزار سکیورٹی اہلکار اور تقریباً تیس ہزار سویلین اس جنگ کے شعلوں میں شہید ہوچکے ہیں، ہر پاکستانی عدم تحفظ اور خوف میں مبتلا ہے، معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے اور ساری دنیا ہر پاکستانی کو دہشت گرد سمجھنے لگی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کے اندر ایسے طبقے بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، انہیں رقوم اور اسلحہ بہم پہنچاتے ہیں، جب دہشت گردشہروں میں واردات کرنے کے لئے آتے ہیں تویہ لوگ انہیں پناہ دیتے ہیں، دہشت گرد ہمارا خون کرنے کے بعدگولی کا نشانہ بنتے ہیں تو یہ لوگ انہیں شہیدکہتے ہیں جبکہ قرآن حکیم کافیصلہ بڑا واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منقسم قوم، ذہنی طور پربٹی ہوئی قوم اتنے خطرناک دشمن سے نپٹ سکتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہے؟ دہشت گردکس دیدہ دلیری اوربے رحمی سے ملک و قوم کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کے انتقام کی آگ ہر روز تیز سے تیز تر ہو رہی ہے اور ہمارے اندر ایسی جماعتیں اور ایسے گروہ بھی موجودہیں جوان دہشت گردوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے امریکہ کے خلاف جہاد سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف عدالتی نظام ہے کہ آج تک کسی دہشت گردی کو سزا نہیں ہوئی۔امریکہ ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے چلاگیا، اُسامہ کی موت کی خبر خود امریکی صدر نے یوں دی جیسے انہوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن پرفتح پالی ہو اور پھراُسامہ کے قتل پر امریکہ میں جشن منائے گئے لیکن خدا کی پناہ اس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ اُسامہ کو ماراامریکیوں نے لیکن اس کا انتقام لیاگیا فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ان جوانوں سے جو تربیت حاصل کرنے کے بعد وردی پہننے اور فرائض سرانجام دینے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان دہشت گردوں کی آتش انتقام کوئی ایک سو کے لگ بھگ نوجوانوں کا خون کرنے کے بعد بھی ٹھنڈی نہ ہوئی اوروہ اِدھر اُدھر چلتے قافلوں اورسکیورٹی ایجنسیوں کی چوکیوں پر حملے کرکے اُسامہ کا بدلہ لیتے رہے جسے پاکستان کی سرزمین نے پانچ سال سے پناہ دی اور جسے پناہ دینے کی سزا عالمی غصے اور امریکی انتقام کی صورت میں ہمیں مل رہی ہے۔ پاکستان کو یوں کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے جیسے پاکستانی صدر سے لے کر عام شہری تک بھی مجرم ہوں۔ غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ ان دہشت گردوں اور پاکستانی طالبان کے طفیل پاکستان جبر ، ظلم اور انتقام کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ اِدھرطالبان پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکی صدر بار بار اُسامہ جیسا آپریشن کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور تیسری طرف امریکی سنیٹروں کی ایک موثر لابی نہ صرف پاکستانی امدادپر قدغن لگانے کا مطالبہ کر رہی ہے بلکہ بعض حضرات تو پاکستان سے تعلقات منقطع کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ہمارے دیرینہ دشمنوں کو پس پردہ رہ کر تاریں ہلانے کا موقعہ دے دیا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق امریکہ میں بھارتی لابی پاکستان کے خلاف متحد ہو کر کام کر رہی ہے اور اپنا اثر و رسوخ بروئے کارلا رہی ہے جبکہ پاکستانی لابی شدید مخالفت کے سبب مدافعت کے جال میں پھنس چکی ہے۔ سارے جہاں میں شور بپاہے کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے جبکہ پاکستانی قوم ابھی تک اپنے دشمن کوبھی نہیں پہچانتی۔ دشمن شہروں میں دندناتا پھرتااور کھلے عام خون بہاتا پھرتا ہے لیکن ہمیں ابھی تک یہ بھی علم نہیں ہوسکا کہ یہ جنگ کس کی ہے؟ کون کس کا خون بہا رہا ہے؟ کون جی ایچ کیوراولپنڈی سے لے کر کراچی میں تواتر سے نیوی کی بسوں پر حملے کر رہا ہے اور کون آج رات کی تاریکی میں چھپ کر پی این ایس مہران میں گھس گیا ہے۔ہماری نااہلی اور کوتاہیوں کا یہ عالم ہے کہ کراچی میں مسلسل دو صبحوں کا آغاز نیوی کی بسوں پرحملوں سے ہوا لیکن اس کے باوجود ہم خطرے کو نہ بھانپ سکے اور نیوی کی املاک کی سکیورٹی کے لئے فول پروف انتظامات نہ کرسکے۔ دشمن کراچی کے گلی کوچوں میں موجود تھا اس نے ہمارے ہی گھروں میں پناہ لے رکھی تھی وہ کئی روز سے اس علاقے کی ریکی کر رہا تھا اور حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا لیکن نہ تو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خبر ہوئی اور نہ ہی ہماری سکیورٹی اتنی مضبوط و منظم تھی کہ اچانک حملے کو روک سکتی۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسی خبریں سن سن کر لوگ صدمے اور حیرت کے بت بن گئے ہیں جب تک ان کے جسم کے کسی حصے پر وار نہ ہو وہ صدمے برداشت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں اور بے حسی کی تصویر بنے اور غم میں ڈوبے ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہاہے؟ ہمیں کس گناہ کی سزا مل رہی ہے؟ کبھی غور کیا آپ نے کہ اس دھرتی کو خون سے پیاس بجھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ پیاس پانی سے توبجھ جاتی ہے لیکن خون سے کبھی نہیں بجھتی بلکہ دوآتشہ ہوتی چلی جاتی ہے۔کوئٹہ کے قریب خروٹ آباد میں چھ معصوم مچیچن باشندوں کے قتل عام نے مجھے رُلا رُلا دیا اور میں دوراتوں سے چین کی نیند سو نہ سکا۔ وہ مسلمان تھے کہ انہوں نے خروٹ آباد کی مسجدمیں نماز ادا کی، و ہ غریب تھے کہ ان کی بے سر و سامانی کی داستان پتھر دلوں سے بھی آنسوؤں کے چشمے رواں کردیتی ہے،چھ افراد پرمشتمل کنبے کی خاتون نے پولیس اہلکاروں کی دست درازی سے بچنے کے لئے دوڑ لگائی تو ایف سی اور پولیس نے نشانے باندھ باندھ کر ان معصوم جانوں کا خون بہادیا، وہ فریادیں کرتے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر زندگی کی بھیک مانگتے رہے لیکن ہمارے اہلکارتھے کہ ان کے لئے چاند ماری کا یہ سنہری موقع تھا۔میں ٹی وی سکرین پر اس منظر کو دیکھ دیکھ کر سوچتا رہا کہ نہ جانے اس دھرتی کی پیاس کب بجھے گی؟ نہ جانے یہ کس گناہ کی سزا ہے کہ ساری قوم انتقام اور ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ خون کی آندھی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہر روز اخبارات اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، بچوں سے زبردستی اور قتل، گھروں پرڈاکے اور پولیس کے جعلی مقابلے جیسی خونیں خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے ہماری انتظامیہ،حکومتی مشینری اور قانون ناکام ہوچکے ہیں اور ہم انارکی، لاقانونیت، بے انصافی اور جبر و زیادتی کے جنگل میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے میں ہر محب الوطن کو ایک ہی خیال اور ایک احساس جذباتی و ذہنی سہارا دیتاہے کہ اگرچہ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ناکام ہوکر ظلم وزیادتی کا حصہ بن چکے ہیں اور اب ان اداروں کو موثر بنانا معجزے سے کم نہیں تاہم ہماری فوج منظم، تابع ڈسپلن اورمضبوط ہے لیکن کیا عرض کروں کہ جب لوگ دہشت گردوں کو معصوم شہریوں کاخون بہاتے، حکومتی اداروں اور املاک کو تباہ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ ہماری فوج کہاں ہے آخر وہ ہمیں اس داخلی دشمن سے تحفظ کیوں نہیں دیتی؟ اگردشمن سرحدوں سے تجاوز کرکے ملک کے اندر گھس آئے توکیا فوج سرحدوں کے تحفظ کے نام پر اسے کھلی چھٹی دے دی گی؟ یہ دشمن وہ نہیں جس سے پولیس اورایف سی جیسے ادار ے نپٹ سکیں یہ دشمن تربیت یافتہ اور خطرناک اسلحے سے لیس ہے۔ اس دشمن کی پناہ گاہیں ملک کے اندر موجود ہیں جہاں سے وہ بے دھڑک سفر کرکے کراچی تک پہنچ جاتا ہے اور ہر واردات کے بعد ببانگ دہل ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ قوم خوف و دہشت کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے آخر اسے اس کیفیت سے کون نکالے گا؟ یہ غیرمعمولی ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ سارے ملک میں آپریشن کرکے سرزمین پاک کو دہشت گردوں سے صاف کیاجائے۔ بھلا مجھے بتایئے کہ ایسا آپریشن کرنے کی اہلیت اور صلاحیت کس میں ہے؟

No comments:

Post a Comment