آج سے کوئی چار دہائی قبل میں نے ڈپلومیسی پر ایک شاندار کتاب پڑھی تھی جس میں ڈپلومیٹ کی نہایت مناسب انداز میں تعریف کی گئی تھی۔ یعنی ”ڈپلومیٹ وہ شخص ہوتا ہے جسے نہایت ایمانداری اور خلوص سے جھوٹ بولنے کے لئے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔“ چنانچہ ہم ڈپلومیٹس یا سفارت کاروں کو عام طور پر نہایت سنجیدگی سے غلط بیانی کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو یہ جھوٹ ملکی مفاد میں بولنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات سچ جاننے کے باوجود غلط بیانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ انہیں اپنے دفتر خارجہ سے یہی حکم ہوتا ہے۔ اسی طرح کے جھوٹ کے لئے شاعر نے یہ مصرعہ کہا ہے
# وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ یہ سفارت کاروں کی مجبوری ہوتی ہے اور انہیں اسی کارکردگی کی تنخواہ ملتی ہے۔ کبھی کبھی سفارت کار اپنی حدود و قیود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں جس کے نتائج عام طور پر خطرناک نکلتے ہیں۔ مدت ہوئی میں جنگ عظیم کیسی شروع ہوئی کی پس پردہ تفصیلات پڑھ رہا تھا تو یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس جنگ کے لئے فضاء ہموار کرنے میں ایک ڈپلومیٹ کا بھی ہاتھ تھا جو ڈبل گیم کھیلتا رہا اور لاکھوں لوگوں کی موت اور بے پناہ نقصان کا باعث بن گیا۔
آج کی دنیا میں کامیاب ڈپلومیٹ وہی ہوتا ہے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے متعلقہ ملک کو بھی رام کر لے اور اپنے باس یا حکمرانوں کو بھی خوش کر دے۔ آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ یہی کام تو چچا جان کیری نے کیا۔ وہ اسامہ آپریشن کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مختصر دورے پر آیا تھا۔ مقصد پاکستانی حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر راہ راست پر لانا اور پاکستان کی سلگتی رائے عامہ پر بھڑکنے سے پہلے قابو پانا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو امریکی سفیر نے پاکستان کے کان کھینچے اور اعلان کیا کہ پاکستان کو وضاحت کرنی پڑے گی اسامہ اتنے برسوں سے ایبٹ آباد میں کیا کر رہا تھا۔ انہوں نے تاثر یہ دیا گویا انہیں بھی اسامہ آپریشن کا علم کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہوا جبکہ باخبر کہتے ہیں کہ آپریشن شروع ہوتے ہی امریکی سفیر کو الرٹ کر دیا گیا تھا۔ انکل جان کیری افغانستان سے پاکستان آنے سے چند گھنٹے قبل پاکستان پر خوب برسے اور افغانستان کو اسامہ آپریشن میں مدد پر شاباش دی۔ آج نہیں تو کل وکی لیکس یہ راز افشا کرے گی کہ اس آپریشن میں افغانستان پوری طرح شریک تھا۔ صدر کرزئی کو گلہ ہے کہ دہشت گرد پاکستان سے آتے اور ہم پر حملے کرتے ہیں انہوں نے نہ صرف اپنی تسلی کر لی بلکہ امریکہ سمیت دنیا کو یہ بھی بتا دیا کہ دہشت گردی کا مرکز افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ یورپ نے کرزئی کو اس کارکردگی پر شاباش دی ہے کہ اس نے دہشت گردوں کو ملک سے بھگا دیا ہے۔ چنانچہ انکل جان کیری جنہیں میں انکل سام کی نسبت سے انکل کہتا ہوں پاکستان تشریف لائے تو ان کا لب و لہجہ خاصا جارحانہ اور تحکمانہ تھا۔ اندرون خانہ انہوں نے سوالات اور شکوک و شبہات کی بوچھاڑ کر کے ہمارے حکمرانوں کی اس طرح طبیعت صاف کر دی کہ وہ معذرتوں اور وضاحتوں کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ جان کیری ان سے بہت سی یقین دہانیاں لینے میں کامیاب ہو گئے اور یہی ان کے مشن کی کامیابی تھی کہ جب ساری پاکستانی قوم بغاوت پر اتر آئی ہے اور پارلیمنٹ نے بھی خود مختاری کی پامالی پر مضبوط موقف اختیار کر لیا ہے تو جان کیری اس شدید مخالفانہ ہوا کے باوجود حکمرانوں سے یقین دہانیاں لینے میں کامیاب ہو گئے جن میں اسامہ کے حوالے سے نالائقی یا بدنیتی کی مکمل انکوائری بھی شامل ہے۔ امریکہ نہ ہی صرف اسامہ نیٹ ورک کا پتہ چلانا چاہتا ہے بلکہ یہ بھی تحقیق کرنا چاہتا ہے کہ اسامہ کی روپوشی کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی یا لا علمی کا نتیجہ اور وہ اس حوالے سے متعلقہ اہل کاروں کے خلاف ایکشن بھی چاہتا ہے جس کا وعدہ کر لیا گیا ہے۔ ان یقین دہانیوں میں آئندہ سختی اور مہارت سے القاعدہ سے نپٹنا بھی شامل ہے اور جنوبی وزیرستان میں مناسب وقت پر فوجی آپریشن بھی شامل ہے۔ یہ تو آپ پڑھ چکے کہ مشترکہ اعلامیے میں ڈرون حملے بند کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا۔ دیکھتے ہیں اب اس حوالے سے پارلیمنٹ کی قرارداد پر کیسے عمل کیا جاتا ہے اور اس کا کیا حشر ہوتا ہے؟؟
پاکستان یاترا کا چھوٹا سا مقصد مخالفت میں ابلتی رائے عامہ کا ٹمپریچر کم کرنا بھی تھا۔ اس مقصد کے لئے انکل کیری نے وہی ٹرک یا طریقہ واردات استعمال کیا جو کامیاب ڈپلومیٹ کرتے ہیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام کا اہم ترین خدشہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جو ہر پاکستانی کے دل کے نہایت قریب ہے۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ چند ایک سابق جرنیلوں اور سینئر تجزیہ نگاروں نے اسی حوالے سے خدشات کی آندھی چلا کر قوم کو انجانے تفکرات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جذباتی مسائل کو جذبات کے ذریعے ہی حل کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں دلائل کام نہیں کرتے۔ چنانچہ انکل سام نے اپنی پٹاری سے جذباتی تیر نکالا اور نشانہ باندھ کر چلا دیا۔ یقین رکھیئے کہ یہ نہ امریکی اور یورپی انداز ہے اور نہ ہی وہاں کی سرد فضاء میں اتنی گرم اور جذباتی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ خالصتاً مشرقی انداز ہے اور جان کیری نے سوچ سمجھ کر مشرق کے لئے مشرقی طریقہ استعمال کیا اور اعلان کر دیا کہ میں خون سے لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ ”خون سے لکھ کر دینا“ پاکستان کی جذباتی رائے عامہ کے سلگتے انگاروں پر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے لئے کہا گیا تھا جس نے وقتی طور پر اپنا رنگ بھی دکھایا۔
میں اس کالم میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میری ذاتی رائے اور ریسرچ کے مطابق پاکستانی ایٹمی پروگرام نہ امریکہ کے لئے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی امریکہ اسے خطرہ سمجھ کر ختم کرنے کے درپے ہے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ہندوستان سے برابری کا ضامن ہے اس لئے یہ ہندوستان کو چبھتا ہے۔ امریکہ کا مسئلہ فقط اتنا سا ہے کہ وہ عالمی ایٹمی پروگرام کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے پاکستان کو اپنا پروگرام محدود کرنے کے لئے کہتا رہتا ہے اور کہتا رہے گا۔ اس کے باوجود یہ پروگرام امریکی امداد اور ہمارے اپنے وسائل کی مدد سے پھیلتا رہا ہے اور پھیلتا رہے گا۔ امریکہ کو اس حوالے سے صرف ایک ہی تشویش ہے اور وہ یہ کہ اگر پاکستان داخلی طور پر کمزور ہوا تو کہیں یہ ہتھیار دہشت گردوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور امریکہ یورپ کے خلاف استعمال نہ ہوں۔ امریکہ اس ممکنہ خطرے سے عہدہ برآ ہونے کے لئے حکمت عملی بھی بناتا رہتا ہے اور مشقیں بھی کرتا رہتا ہے۔ بیدار قومیں ممکنہ خطرات سے نپٹنے کے لئے تیاری کرتی ہیں جبکہ خوابیدہ اور نالائق قومیں اس وقت بیدار ہوتی ہیں جب خطرہ سر پر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ میں نے بہت سے امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹیں پڑھ کر اور واشنگٹن میں کچھ سمجھدار لوگوں کی باتیں سن کر اپنے اسی تاثر کی تصدیق کی ہے۔ یہاں دانشور جن رپورٹوں کے حوالے دیتے اور تشویش کا الاؤ بھڑکاتے رہتے ہیں وہ ساری دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے حوالے سے ہیں۔ یہ الگ بات کہ تھنک ٹینکس اور ریسرچ اداروں کی رپورٹیں حکومتی حکمت عملی پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوتیں۔
بات دور نکل گئی۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کامیاب ڈپلومیسی یہی ہوتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ جان کیری نے ہمارے حکمرانوں سے یقین دہانیاں بھی لے لیں، خون سے لکھ کر دینے کے اعلان سے عوام کو بھی مطمئن کر دیا اور واپس جا کر اپنے پالیسی سازوں کو بھی بتا دیا کہ میں پاکستانی حکمرانوں کی طبیعت صاف کر آیا ہوں، انہوں نے اپنی ناکامیوں پر معافی مانگی ہے اور آئندہ تابع فرمانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ابھی ہمیں پاکستان کی ضرورت ہے اس لئے اسے استعمال کرو اس سے معاندانہ رویہ نہ رکھو۔ جان کیری کے حوالے سے جن لوگوں نے پاکستان میں یہ پراپیگنڈہ کیا کہ امریکہ نے ڈرون حملوں پر معافی مانگ لی ہے اور امریکہ نے آئندہ کے لئے احتیاط کا وعدہ کیا ہے یہ سب جھوٹ تھا اور یہ لوگ امریکی گیم کھیل رہے تھے۔ جو کچھ کہا وہ جھوٹ تھا اور جو کچھ سنا افسانہ تھا۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ انکل کیری کتنا ہوشیار آدمی ہے اور کیا اس کا مشن کامیاب ہوا یا ناکام؟ اس نے جاتے ہی گراس مین کو بھجوا دیا ہے۔ اب آپ ان کی پھرتیاں ملاحظہ فرمائیں!!
No comments:
Post a Comment