Friday, 18 May 2012

سانحہ در سانحہ June 30, 2011


 پاکستانی سیاست کا منظر نامہ اتنی جلدی تبدیل ہوتا ہے کہ تجزیے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ تو جمہوری نظام کا غیر پختہ، نابالغ اور ناتجربہ کار ہونا ہے جبکہ دوسری وجہ ہمارے بے اصول اور منافقت زدہ سیاستدانوں کی قلابازیاں ہیں ۔اس صورت حال اور دیگر قومی مسائل نے مل جل کر اس قدر تکلیف دہ نقشہ بنایا ہے کہ ہر روز ملک سے سرمایہ اور ٹیلنٹ (Talent) بیرون وطن جا رہا ہے اور تیز رفتاری سے جا رہا ہے۔ ہر روز منظر عام پر آنے والے کرپشن کے میگا اسکینڈلز اور ان میں حکمرانوں کا ملوث ہونا اتنا بڑا سانحہ ہے جس نے نہ صرف شہریوں کو مایوسی کے اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا ہے بلکہ سرمایہ کار ، صنعتکار اور ذہین نوجوانوں کے ملک پر اعتماد اور قومی مستقبل کو بھی شدید دھچکا لگایا ہے۔ اس جوہر قابل کو ملک میں کام کرنے کے لئے نہ مواقع میسر ہیں اور نہ آگے بڑھنے اور قابلیت کے چراغ جلانے کے لئے فضا اور حالات موجود ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان کو امریکہ کی بہترین یونیورسٹی ہارورڈ میں تیسری دنیا کی معاشی ترقی کے حوالے سے ماڈل کے طور پر پڑھایا جاتا تھا لیکن مشرف کے دور میں وہی پاکستان ٹیررازم، مذہبی تشدد، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی علامت بن کر رہ گیا۔ آج دنیا بھر میں ہر پاکستانی کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے اور غیرملکی پروازوں میں نماز پڑھنے اور ریش مبارک رکھنے والوں سے خوف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ طالبان کی تنظیموں، جہادی گروہوں اور دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر اسلام کو اس قدر بدنام کیا ہے کہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد اسلام کو دہشت گردی کا طعنہ دیتی ہے اور مسلمانوں سے بدکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان حضرات نے اس مقام پر پہنچایا ہے جو پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں، جنہیں پاکستان کے موجودہ متفقہ آئین پر اعتراض ہے اور جو پاکستان کو ایک غیر اسلامی ملک سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف سیکولر حضرات ہیں جو انتہا پسندوں کی انتہا پسندی سے فائدہ اٹھا کر سیکولرازم کا پرچار کر رہے ہیں اور سیکولرازم میں ہی پاکستان کا روشن مستقبل دیکھتے ہیں۔ اوّل تو ان سیکولر حضرات نے سیکولرازم کو نئے معانی عطا کر دیئے ہیں جو دنیا کی کسی لغت میں بھی موجود نہیں۔ ان کاریگروں نے سیکولرازم کی تلخ گولی پر لبرل ازم یا برداشت کی چینی چڑھا دی ہے اور دن رات یہ پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ اس کا مطلب ایک دوسرے کو برداشت کرنا، مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا اور مذہب کو ہر شہری کی انفرادی شخصیت تک محدود کرنا ہے۔ اول تو دانشور اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولرازم اور مذہب کی چرچ سے علیحدگی کرسچین فلسفہ اور طرزحیات ہے کیونکہ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں مذہب کو زندگی کے دوسرے شعبوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ قوت برداشت، دوسروں کے حقوق کا احترام، بھائی چارے، مذہبی اقلیتوں سے حسن سلوک اور انسانیت سے محبت کا جس قدر پیغام اور اہمیت اسلام میں ملتی ہے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ مذہبی دہشت گردی نے ہماری ایک خدمت یہ بھی کی ہے کہ بہت سے اسلام پسندوں کو سیکولرازم کے دائرے میں دھکیل دیا ہے۔ مجموعی طور پر سیکولر حضرات میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو دین سے خوفزدہ ہیں اور وہ ان ملکوں کی مثالیں دے دے کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں جہاں پینے پلانے اور دوسری لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی پوری آزادی ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ جو شخص مسجد میں جانا چاہتا ہے وہ مسجد میں جائے جو میکدے کا متوالا ہے وہ وہاں آزادی سے جائے۔ چند ایک دانشور تو بار بار دبئی کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ وہاں ایک طرف مساجد ہیں تو دوسری طرف میکدے اور مساج سنٹرہیں اس سے اندازہ کر لیجئے کہ یہ حضرات کیا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ ترکی اور استنبول کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن اب نہ صرف وہاں میخانوں پر پابندی لگ گئی ہے بلکہ طیب اردگان کی سربراہی میں ترکی آہستہ آہستہ بدل رہا ہے اور یورپ کی بجائے اسلامی روایات کو اپنا رہا ہے۔ بہت جلد ترکی کے آئین میں تبدیلیاں رونما ہوں گی اور سیکولر فوج کی بالادستی ختم کر دی جائے گی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اسلام بنیادی طور پر امن، برداشت، خدمت انسانیت اور بھائی چارے کا مذہب ہے اور سیکولر حضرات جس برداشت، تحمل اور امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں وہ تو اسلام کے بنیادی اصول ہیں ہاں اسلامی معاشرے میں پینے پلانے اور جنسی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی پاکستانی آئین ان کی اجازت دیتا ہے۔ سیکولر حضرات اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ لوگ چوری چھپے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ تو کیا اس لئے چوری، قتل اور قانون شکنی کو قانونی شکل دے دی جائے کہ ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ملک میں تو دہشت گردی کی وارداتیں بھی ہو رہی ہیں اور بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی زوروں پر ہیں۔ کیا ان گھناؤنے جرائم کو قانونی شکل دے دی جائے کیونکہ حکومتی مشینری ان پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے؟ ان مذہب بیزار حضرات نے قائد اعظم کو بھی سیکولرازم کا مبلغ بنا دیا ہے حالانکہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل سو سے زیادہ مرتبہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ مرتبہ یہ اعلان کیا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست ہو گی اور اس کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اب کچھ سیکولر حضرات نے اپنے نقطہ نظر کو تقویت دینے کے لئے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ قائد اعظم ذاتی زندگی میں سیکولر تھے۔ بلاشبہ قائد اعظم کوئی مذہبی انسان نہیں تھے لیکن وہ اسلامی اصولوں پر ٹھوس یقین رکھتے تھے اور ہر موقع پر اسلامی اصولوں کا پرچار کرتے تھے۔ ان حضرات کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جمعیت علماء ہند، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی بھی ان حضرات کی مانند قائد اعظم پر یہی الزام لگاتے تھے کہ وہ ذاتی زندگی میں مذہبی انسان نہیں ہیں۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے مجموعی طور پر اس الزام کو مسترد کر دیا اور اپنی حمایت قائد اعظم کے پلڑے میں ڈال دی۔ کیا انہیں ان باتوں کا علم نہیں تھا جو آج کے سیکولر حضرات قائد اعظم  پر تھوپتے ہیں۔ یقینا انہیں اچھی طرح علم تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ قائد اعظم ایک دیانتدار انسان ہیں اور جب وہ ایک ایسی مملکت کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہو گی تو وہ یقینا ایسا ہی کریں گے کیونکہ وہ قول کے سچے اور فعل کے پکے ہیں چنانچہ پاکستان کیسی ریاست ہو گی یہ فیصلہ تو قیام پاکستان سے قبل ہی ہو گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد بار بار اس ویژن، آرزو اور خواہش کا اظہار کیا۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اسلام کا نعرہ قیام پاکستان کے لئے ووٹ حاصل کرنے کے لئے لگایا گیا تھا۔ دراصل یہ حضرات کہنا چاہتے ہیں کہ قائد اعظم  بھی موجودہ سیاستدانوں کی مانند منافق تھے۔ یہ وہ الزام ہے جو ان کے بدترین دشمنوں نے بھی کبھی نہیں لگایا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ اپنے الفاظ اور وعدے سے مخلص نہیں تھے تو پھر قیام پاکستان کے بعد بار بار پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کیوں کرتے رہے، کیوں کہتے رہے کہ ہمارے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ دین سے بیزار اور سیکولرازم میں گرفتار حضرات کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں اور وہ بار بار گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کو غلط رنگ دے کر اور سیاق و سباق سے کاٹ کر قائد اعظم  کو اپنی خواہشات کے ڈھانچے میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ یہ قائد اعظم، پاکستان اور اسلام سے بیک وقت بے وفائی کے مترادف ہے۔ قائد اعظم کی سینکڑوں تقاریر سے بے اعتنائی، چشم پوشی اور انحراف اُن سے بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے سانحات کی داستان طویل ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس داستان کو کہاں سے شروع کروں۔ 


No comments:

Post a Comment