Friday, 18 May 2012

بلندی سے پستی ؟ June 27, 2011


چوہدری شجاعت حسین سے بڑی دیرینہ شناسائی ہے اور وہ میرے لئے ہر حال میں محترم ہیں ۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے آخری دنوں میں، میں نے انہیں ایک ٹوپی دی تھی جس کا پس منظر اور اس سے وابستہ داستان نہایت دلچسپ ہے جو آپ کو کسی دن سناؤں گا بشرطیکہ زندگی نے مہلت دی ۔ جب وہ جنرل پرویز مشرف کے نفس ناطقہ اور چودھری طارق عزیز وڑائچ کے دست وبازو بنے تو میرا کئی بار جی چاہا کہ ان سے وہ ٹوپی واپس لے لوں کیونکہ مجھے بار بار محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس ٹوپی کے اہل نہیں رہے۔ اس میں اول تو میری روایتی مروت بہ وزن سستی حائل رہی دوم سچی بات یہ ہے کہ ان دنوں وہ اونچی ہواؤں میں پرواز کرتے پہاڑوں پر قدم رکھتے اور ملک کا ” مقدر سنورنے “ میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ ہم جیسے عام لوگ ان کی ”زیارت “ کرنے یا ان کی خوبصورت رسیلی آواز سننے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ میں لوگوں کے ہواؤں میں اڑنے، ٹھاہ کرکے زمین پر گرنے، فضا میں آتش بازیاں بکھیرتے اور ”ہوائی “ کی مانند بے جان ہو کر زمین پر گرنے کا کھیل گزشتہ چار دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں ۔ ممکن ہے آپ ہوائی سے مانوس نہ ہوں ۔ ہوائی آتش بازی کا حصہ ہوتی ہے جو شوں کرکے روشنی بکھیرتی تارے توڑتی آسمان کی طرف جاتی ہے اور پھر جب اس کا بارود ختم ہو جاتا ہے تو ٹھس کرکے مٹی کے ڈھیلے کی مانند زمین پر آن گرتی ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار انسان دیکھے جو اس ہوائی کی مانند تھے ۔ اگر موازنہ کروں تو اس میں سیاست دانوں کی تعداد کم تھی کیونکہ سیاست دان کی کبھی نہ کبھی لاٹری نکل ہی آتی ہے ۔میرے محترم اور بزرگ دوست معراج خالد صاحب نہایت شریف النفس انسان تھے اور سیاست سے مایوسی کا شکار ہو کر کنارہ کش تھے کہ لاٹری نکلی اور نگران وزیر اعظم بنا دیئے گئے ۔ محترم لغاری صاحب ہوائی کی مانند اڑے صدر مملکت بنے اور پھر ٹھس ہو کر ڈیرہ غازی خان چلے گئے ۔ میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے چوہدری شجاعت حسین سے نہیں ملا یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ مجھ گوشہ نشین سے نہیں ملے لیکن اس عرصے میں وہ مشرف حکومت کے گاندھی بنے، پھر وہ خون لگا کر شہید بننے والوں کی مانند وزیر اعظم بنے پھر انہوں نے مشرف کو دھکا دے دیا حالانکہ وہ اس سے زیادہ کا مستحق تھا ۔ چودھری صاحب کی مہمان نوازی اور وصفداری کے سبب ان کی جماعت کو اچھے امیدوار ملے جن میں اکثر مشرفی عہد حکومت کی وراثت کا حصہ تھے اور وفاداری بشرطیکہ استواری میں پکا یقین بلکہ ایمان رکھتے تھے ان میں خاصے حضرات میاں برادران کی اصولی سیاست کی دیوار میں شگاف کرکے مسلم لیگ (ن) میں آ گئے اور اسی طرح میاں برادران کی مالا جپنے لگے جس طرح مشرف کی مالا جپتے تھے عام طور پر دیکھا ہے کہ جب سیاست دان اقتدار کے ساتویں آسمان سے زمین پر قدم رکھتا ہے تو وہ اپنے دل اور گھر کے دروازے عام لوگوں کے لئے کھول دیتا ہے اور اس تک ”رسائی “ ناممکن نہیں رہتی ۔ مشرف لندن میں بیٹھا اب ہر نتھو خیرے کو دستیاب ہے ۔ جو لوگ چوہدری شجاعت حسین کو فون کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ فون کا جواب آتا ہے چاہے اگلے دن ہی آئے ۔ زرداری صاحب کے مشاق یعنی عاشق حضرات بھی ہی دعویٰ کرتے ہیں گیلانی صاحب سے تعلق رکھنے والے بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بن کر بھی تعلق نبھا رہے ہیں۔ پاکستان کے مہربان ملک رحمان کا مت پوچھو کہ مجھے ان سے تعلقات کا اعزاز حاصل نہیں کیونکہ مجھے ان سے ڈر لگتا ہے ۔ جب میرا ان کا تعارف تھا تو وہ چھوٹے سے سرکاری ملازم تھے ۔ ڈر کی وجہ میرا ایک دوست ہے جو آئی جی پولیس بھی رہا ہے اور رحمان ملک صاحب کا بطور ڈی جی ایف آئی اے باس بھی تھا ۔ میرا وہ بچپن کا دوست ہے اس لئے میں اسے لالہ کہتا ہوں ۔ لالہ پولیس افسر رہا ہے اور باز کی سی نظر رکھتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ رحمان ملک اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوستوں کی لاشوں پر سے بھی گزر سکتا ہے ۔ مقصد کہنے کا یہ تھا کہ میں گزشتہ چار دہائیوں سے لوگوں کو اقتدار کی بلندیوں پر اڑتے اور پھر ہوائی کی مانند زمین پر گرتے دیکھ رہا ہوں ۔ میرے محترم ملک معراج خالد وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو کر آئے تو اکثر مجھے ملنے آیا کرتے تھے ۔ میں ان دنوں پرویز مشرف کا زیر عتاب او ایس ڈی تھا اس فراغت کے سبب اقراء یونیورسٹی والوں کی خواہش پر میں نے اقراء یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننا قبول کر لیا جہاں ملک صاحب اکثر محفلیں رچاتے اور نوجوانوں کو دیکھ دیکھ کر تازہ دم ہو جاتے تھے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا تو عجب حال ہو گیا ہے کہتے ہیں کہ برفی اور جلیبیاں بنانے والا ان کے ذائقے سے محروم رہتا ہے کہ انہیں دیکھ دیکھ کر اس کا جی بھر جاتا ہے ۔ ہمارے گاؤں کا چاچا طالب نہایت بوڑھا ہو گیا تھا ہم سکول جاتے تووہ گلی میں تہمد باندھے ننگی چارپائی پر بیٹھا ہوتا تھا ہم سے کوئی شرارتی ”بچہ“ اسے چھیڑنے کے لئے کہتا چاچا مرنا نئیں اوں (مرنا نہیں ؟) چاچا ہمیشہ مسکرا کر جواب دیتا پترا جب سے چاچے کو مرتا دیکھا ہے موت سے دل چڑ گیا ہے یعنی بھر گیا ہے کچھ یہی حال اپنا بھی ہے کہ جب سے درجن بھر لوگوں کو وزیر اعظم اور صدر بنتے دیکھا ہے جن میں گیلانی صاحب بھی اور ماشااللہ زرداری صاحب بھی شامل ہیں تو ”بڑے“ لوگوں سے ملنے سے جی بھر گیا ہے اگر کوئی غلطی سے بلا لے تو گوڈے کے درد کا بہانہ کرکے ٹال دیتا ہوں اول تو ماشااللہ کوئی ہم جیسے ناکارہ لوگوں پر وقت ہی ضائع نہیں کرتا۔ ناکارہ وہ ہوتا ہے جو کسی کی خدمت نہ کر سکے ۔ خدمت وہ کرتے ہیں جن کے لئے اپنے اپنے ایجنڈے اور مقاصد ہوتے ہیں ورنہ سیاست دان حکمران اور بڑے لوگ اس قسم سے تعلق نہیں رکھتے جن کی خدمت سے رب راضی اور خوش ہوتا ہو ۔ رب مخلوق کی خدمت سے راضی ہوتا ہے نہ کہ بڑے لوگوں کی خوشامد اور دربار داری سے، میری مخلوق سے کیا مراد ہے اس پر اگلے چند دنوں میں روشنی ڈالوں گا ۔
بات دور نکل گئی ، میں کہہ یہ رہا تھا کہ لوگ عام طور پر اقتدار کے کوہ ہمالیہ سے اتر کر انسانوں کی سطح پر آ جاتے ہیں کیونکہ کوہ ہمالیہ پر بیٹھے حکمران کو انسان کیڑے مکوڑوں کی مانند نظر آتے ہیں ۔ نائن الیون سے پہلے نیو یارک کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں شمار ہوتا تھا ۔ میں 1995ء میں اس ٹریڈ سنٹر کی اونچی ترین منزل پر کھڑا نیو یارک کا نظارہ کر رہا تھا کہ اچانک نیچے سڑک پر نظر پڑ گئی سڑک پر چلتے پھرتے انسان مرغیوں اور مرغوں کے برابر دکھائی دیے۔ نیچے اتر کر میں نے اپنے میزبان فیض بابر سے کہا کہ آئندہ مجھے ٹریڈ سنٹر کی بلندی پر کبھی نہ لانا اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیوں؟ میرا جواب تھا کہ جس جگہ سے انسان کیڑے مکوڑوں کی مانند نظر آتے ہوں میں اس جگہ پر جانا نہیں چاہوں گا ۔ میرے محترم میاں نواز شریف صاحب جلا وطنی گزارنے اور اقتدار سے نکلنے کے باوجود ابھی زمین پر نہیں اترے ایک غیر ملکی صحافی نے لکھا ہے کہ میں جب ان سے ملنے رائیونڈ گیا تو بہت سے مشہور سیاستدان بڑے بڑے پھنے خان سابق افسران اور دانشور اور میاں صاحب کے حواری ان کے ارد گرد یوں ہاتھ باندھے کھڑے تھے جیسے اکبر بادشاہ کے دربار میں درباری ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے ۔ چودھری شجاعت حسین اخباری بیانات میں کئی بار گلہ کر چکے ہیں کہ میاں صاحب کا غرور مسلم لیگیوں کے اتحاد میں حائل ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب نے مشرف اور اس کے ساتھیوں سے نفرت کے باوجود مشرف کے بہت سے ساتھیوں کو سینے سے لگا رکھا ہے جن میں مشرفی دور کے وزیر مشیر ایم این اے افسران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔ مسلم لیگ (ق) کے لوٹے بھی انہیں قبول ہیں اور اب تو ہم خیال گروہ سے لیکر بہت سے وہ سیاست دان چوری چھپے مسلم لیگ (ن) میں داخل ہو رہے ہیں جو مشرف دور کی اہم نشانیاں تھیں۔ یوں اصولی سیاست کا دامن چاک چاک ہو رہا ہے ۔ چنانچہ میاں صاحب کی انا جسے چودھری شجاعت حسین انتقام کا نام دیتے ہیں مسلم لیگوں کے اتحاد کا ر استہ روکے کھڑی ہے اور اسی سبب اپنی جماعت بچانے اور اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے چودھری صاحب نے خون کی لکیر عبور کرکے اپنی قاتل مسلم لیگ کو زرداری صاحب کی لونڈی بنا دیا ہے ۔ ماروی میمن نے بغاوت کر دی ہے اور شاید کچھ مزید بھی مسلم لیگ (ن) میں سرنگ لگانے میں کامیاب ہو جائیں سوائے ان کے جن سے میاں برادران کو ذاتی طور پر نفرت ہے ۔ چودھری شجاعت حسین میاں صاحب کی جرنیلوں پر تنقید کو بھی انتقام کا شاخسانہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے میاں صاحب پر پتھر بھی مارے ہیں ۔ میں چودھری صاحب کی تنقید کو ذاتی سیاست کا حصہ سمجھتا ہوں اور میرا اس حوالے سے نقطہ نظر اور ہے مجھے لگتا ہے کہ میاں صاحب کی تنقید کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق غلط رنگ دیا جا رہا ہے اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اس لئے اسے اگلے کالم پر اٹھا رکھتا ہوں ۔

No comments:

Post a Comment