میں سکول کی ابتدائی کلاسوں کا طالب علم تھا ہر سال ہمارے قصبے میں لاہورسے کسی نہ کسی جید اورمشہورواعظ کو بلایا جاتا تھا جسے وعظ کا خاصا معقول معاوضہ بھی دیا جاتا تھا جوواعظ جتنا زیادہ ڈراتا اور لوگوں کو رُلاتا تھا وہ اسی قدر بڑاواعظ سمجھا جاتا تھا۔ ایک دفعہ لاہور سے ایک بہت بڑے مولانا صاحب کوسالانہ وعظ کے لئے بلایا گیا میں اگرچہ ”بچہ“ تھا لیکن ان کے چند ایک فقرے آج تک میرے ذہن پرنقش ہیں۔ انہوں نے وعظ کوموثر بنانے اوردلوں کو فتح کرنے کے لئے جب اپنا آہنگ بلند کیا تو فرمایا کہ ”دیکھو اللہ کی قدرتیں، بھینس گھاس سبز کھاتی ہے لیکن د ودھ سفید دیتی ہے۔ کچھ کرنا ہے توکرلو نماز روزے کو سینے سے لگا لو ورنہ قیامت کے دن فرشتے تمہیں مار مار کر تمہاری گردنیں توڑ دیں گے…“ جب وہ فرشتوں سے گردنیں تڑوانے کا ذکر رہے تھے تو میری چشم تصورمیں اپنے تھانے کا تصور ابھررہا تھا جہاں صبح و شام لوگوں کی گردنیں توڑ ی جاتی تھیں۔
شرع کی پابندی اور بنیادی اصولوں پر عمل کرنا مسلمانی کی اولین شرط ہے لیکن ہمارا مولوی اس سے آگے نہیں بڑھتا جبکہ صوفی انسان کو اس منزل سے گزار کر اعلیٰ ترین بلندیوں پرلے جاتا ہے۔ اس بنیادی فرق کویوں بیان کیاجاسکتا ہے کہ مولوی کازور عبادات پرہوتا ہے جبکہ صوفی کا فوکس رب کی تلاش اور ملاقات پر ہوتا ہے۔ میں چندروزسے محترم و مکرم اور صاحب ِ باطن و کشف جناب سرفراز شاہ صاحب کی کتاب ”کہے فقیر“ پڑھ رہا ہوں جومیرے نزدیک روحانی دنیا پر اعلیٰ درجے کی تخلیقات میں سے ایک ہے اور جسے نہایت خضوع سے پڑھنا پڑتا ہے ورنہ الفاظ کا تہہ دار تہہ مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ اسی سست رفتاری کا نتیجہ ہے کہ میں ابھی تک صرف دو تہائی کتاب پڑھ سکا ہوں۔ ذرا غورکیجئے کہ محترم و مکرم شاہ صاحب اس حوالے سے کیا کہتے ہیں ”عبادا ت سے انسان پارسا ہوتا ہے لیکن نیکی سے رب ملتا ہے اور انسان نیکی تب تک نہیں کرسکتا جب تک اس کا دل صاف نہ ہو۔“ دل کی صفائی کے لئے ضروری ہے کہ دل کو حسد ، کینہ اوربغض سے مکمل طور پرصاف رکھا جائے۔سوال یہ ہے کہ نیکی کیاہے جس راہ پر چل کررب ملتا ہے۔ محترم شاہ صاحب کے الفاظ میں ”نیکی کی مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ اپنے حقوق، آرام، خواہشات، تمنائیں اور ضروریات پس پشت ڈال دی جائیں اوردوسروں کی ضروریات، خواہشات اور آرام کو ترجیح دی جائے اور اس کے لئے ہم اپنے آپ کو بھول جائیں…“ اسلام یہ درس دیتا ہے کہ تم دوسروں کے لئے زندہ رہو۔ جیو اور جینے دوکی بجائے اسلام کہتا ہے کہ آپ دوسروں کے لئے جیو۔ اللہ کا فرمان ہے کہ تم میرے بندوں کا کام کرو تمہارے کام میں خود کروں گا۔ ایک حدیث بھی ہے کہ جو انسان دوسروں کے کام آتا اوران کے مسائل حل کرتا اورمشکل میں کام آتا ہے اللہ اس کے کام خود کردیتا ہے اور اس کے مسائل دور فرما دیتاہے“ اسلام کی بنیادایثارو قربانی پر ہے۔ ولایت اس کو حاصل ہوتی ہے جو دشمن کے لئے بھی ایثار اور قربانی کرتا ہے۔“ میں محترم شاہ صاحب کے یہ الفاظ لکھ رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل ایک صاحب حال سے بات ہو رہی تھی توکہنے لگے کہ فیصل آباد کے فلاں صاحب کو جانتے ہو؟میں نے جواب نفی میں دیا کہنے لگے کہ میں نے اسے ایک ولی پایا اور اسے ولایت کیسے ملی یہ ایک رازہے۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment