Friday, 18 May 2012

مولوی کا اسلام اور صوفی کا اسلام! July 02, 2011

میں باریک بیں عالم و فاضل انسان نہیں ہوں۔ میرا سطحی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ مولوی اورصوفی کے اسلام میں مشترک قدروں کے باوجود ایک فاصلہ حائل ہے جو دین کی روح کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مولوی کے اسلام میں زیادہ زور خوف، سزا اور ظاہر پرہوتا ہے جبکہ صوفی کا اسلام محبت کا بہتا سمندر ہے جس میں ڈوب کر آپ سراغ زندگی بھی پاتے ہیں اور اپنے رب سے قلبی تعلق بھی استوار کرتے ہیں۔ صوفی کا ظاہر پر زور کم اور باطن پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تجربہ اورمشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب باطن روشن اور پاک ہوجائے یعنی جب باطن کا وضو اورطہارت مکمل ہو جائے توظاہر بھی باوضو رہنے لگتا ہے لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ظاہرکی طہارت اوروضو کے باوجود کا باطن بھی باوضو ہو جائے اور جسم کے وضو کے ساتھ انسان کا قلب اور نگاہ بھی باوضو ہو جائیں۔ تجربہ اورمشاہدہ بتاتا ہے کہ باطن بہرحال ظاہر کو متاثرکرتاہے اور پائیدار تبدیلی کاباعث بنتا ہے لیکن ظاہر ضروری نہیں کہ باطن کی عکاسی کرے۔ ہم لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ بعض کاروباری حضرات پکے نمازی اور حاجی ہونے کے باوجود جھوٹ بولتے، کم تولتے، ذخیرہ اندوزی کرتے اور ٹیکس کی ہیراپھری کرتے ہیں۔ وہ زکوٰة بھی دیتے ہیں لیکن ان کے دل رحم اور انسانی ہمدردی سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کے ظاہر اور باطن میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ انہوں نے جسمانی وضو توکیا ہوتا ہے لیکن باطنی وضو سے محروم ہوتے ہیں۔ جب ظاہر اور باطن میں یکسانیت پیداہوجائے توپھر نسان کا ہر قول و فعل رب کی رضا کے لئے ہوتاہے۔ اس صورت میں انسان نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ کم تول سکتا ہے اور نہ دھوکہ دہی کرسکتاہے۔ اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ مولوی کے اسلام میں خوف اور سزا پر زور ہوتا ہے جبکہ صوفی کے دین اسلام میں باطن کی صفائی پرزور ہوتا ہے اور باطن کی صفائی محبت سے شروع ہوتی ہے اور حب ِ الٰہی تک لے جاتی ہے۔ مولوی حضرات ہر خطبے میں شرعی احکامات کا ذکرکرکے سزا سے ڈرانا اورجہنم کا خوفناک نقشہ کھینچ کر سامعین کو خوف کے پہاڑ تلے دبانا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ صوفی کا سارا زور معافی مغفرت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رحم اور کرم پرہوتا ہے۔ آپ سچے دل سے توبہ کرلیں اوررب کی طرف لوٹ آئیں تو وہ آپ کو اپنا بنالے گا کیونکہ رب کو اپنی مخلوق سے اس قد ر پیارہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
میں سکول کی ابتدائی کلاسوں کا طالب علم تھا ہر سال ہمارے قصبے میں لاہورسے کسی نہ کسی جید اورمشہورواعظ کو بلایا جاتا تھا جسے وعظ کا خاصا معقول معاوضہ بھی دیا جاتا تھا جوواعظ جتنا زیادہ ڈراتا اور لوگوں کو رُلاتا تھا وہ اسی قدر بڑاواعظ سمجھا جاتا تھا۔ ایک دفعہ لاہور سے ایک بہت بڑے مولانا صاحب کوسالانہ وعظ کے لئے بلایا گیا میں اگرچہ ”بچہ“ تھا لیکن ان کے چند ایک فقرے آج تک میرے ذہن پرنقش ہیں۔ انہوں نے وعظ کوموثر بنانے اوردلوں کو فتح کرنے کے لئے جب اپنا آہنگ بلند کیا تو فرمایا کہ ”دیکھو اللہ کی قدرتیں، بھینس گھاس سبز کھاتی ہے لیکن د ودھ سفید دیتی ہے۔ کچھ کرنا ہے توکرلو نماز روزے کو سینے سے لگا لو ورنہ قیامت کے دن فرشتے تمہیں مار مار کر تمہاری گردنیں توڑ دیں گے…“ جب وہ فرشتوں سے گردنیں تڑوانے کا ذکر رہے تھے تو میری چشم تصورمیں اپنے تھانے کا تصور ابھررہا تھا جہاں صبح و شام لوگوں کی گردنیں توڑ ی جاتی تھیں۔
شرع کی پابندی اور بنیادی اصولوں پر عمل کرنا مسلمانی کی اولین شرط ہے لیکن ہمارا مولوی اس سے آگے نہیں بڑھتا جبکہ صوفی انسان کو اس منزل سے گزار کر اعلیٰ ترین بلندیوں پرلے جاتا ہے۔ اس بنیادی فرق کویوں بیان کیاجاسکتا ہے کہ مولوی کازور عبادات پرہوتا ہے جبکہ صوفی کا فوکس رب کی تلاش اور ملاقات پر ہوتا ہے۔ میں چندروزسے محترم و مکرم اور صاحب ِ باطن و کشف جناب سرفراز شاہ صاحب کی کتاب ”کہے فقیر“ پڑھ رہا ہوں جومیرے نزدیک روحانی دنیا پر اعلیٰ درجے کی تخلیقات میں سے ایک ہے اور جسے نہایت خضوع سے پڑھنا پڑتا ہے ورنہ الفاظ کا تہہ دار تہہ مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ اسی سست رفتاری کا نتیجہ ہے کہ میں ابھی تک صرف دو تہائی کتاب پڑھ سکا ہوں۔ ذرا غورکیجئے کہ محترم و مکرم شاہ صاحب اس حوالے سے کیا کہتے ہیں ”عبادا ت سے انسان پارسا ہوتا ہے لیکن نیکی سے رب ملتا ہے اور انسان نیکی تب تک نہیں کرسکتا جب تک اس کا دل صاف نہ ہو۔“ دل کی صفائی کے لئے ضروری ہے کہ دل کو حسد ، کینہ اوربغض سے مکمل طور پرصاف رکھا جائے۔سوال یہ ہے کہ نیکی کیاہے جس راہ پر چل کررب ملتا ہے۔ محترم شاہ صاحب کے الفاظ میں ”نیکی کی مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ اپنے حقوق، آرام، خواہشات، تمنائیں اور ضروریات پس پشت ڈال دی جائیں اوردوسروں کی ضروریات، خواہشات اور آرام کو ترجیح دی جائے اور اس کے لئے ہم اپنے آپ کو بھول جائیں…“ اسلام یہ درس دیتا ہے کہ تم دوسروں کے لئے زندہ رہو۔ جیو اور جینے دوکی بجائے اسلام کہتا ہے کہ آپ دوسروں کے لئے جیو۔ اللہ کا فرمان ہے کہ تم میرے بندوں کا کام کرو تمہارے کام میں خود کروں گا۔ ایک حدیث بھی ہے کہ جو انسان دوسروں کے کام آتا اوران کے مسائل حل کرتا اورمشکل میں کام آتا ہے اللہ اس کے کام خود کردیتا ہے اور اس کے مسائل دور فرما دیتاہے“ اسلام کی بنیادایثارو قربانی پر ہے۔ ولایت اس کو حاصل ہوتی ہے جو دشمن کے لئے بھی ایثار اور قربانی کرتا ہے۔“ میں محترم شاہ صاحب کے یہ الفاظ لکھ رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل ایک صاحب حال سے بات ہو رہی تھی توکہنے لگے کہ فیصل آباد کے فلاں صاحب کو جانتے ہو؟میں نے جواب نفی میں دیا کہنے لگے کہ میں نے اسے ایک ولی پایا اور اسے ولایت کیسے ملی یہ ایک رازہے۔ (جاری ہے)


No comments:

Post a Comment