کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یارو یہ سب کچھ جمہوریت میں ہوتا ہے ۔تم اس لئے گھبرا جاتے ہوکہ تمہارے لاشعور میں یہ خوف ہے کہ اس تصادم سے فوج اقتدار کے لئے راستہ بناتی ہے۔ تسلی رکھو فوج کئی محاذوں پر مصروف ہے اور جرنیلوں کو اپنے دفاع کی پڑی ہوئی ہے البتہ وہ اس پر خوش ہوں گے کہ قوم زرداری صاحب اور میاں صاحب کی جنگ میں مصروف ہو کر ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس پر حملہ اور اسی طرح کی دوسری کوتاہیاں بھول جائے اور عوام کی توجہ، ساری توجہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے جیالوں کے دنگل پر لگ جائے۔ دوستو گھبراؤ نہیں یہ تو ابھی پھوار برسی ہے، بارش اور طوفان تو ابھی آئیں گے اور بجلیاں بھی کڑکیں گی کیونکہ میاں صاحب نے فرینڈلی اپوزیشن کے چکر میں اپنا ووٹ بنک کمزور کر لیا ہے، انہیں آزاد کشمیر کے بعد ملکی انتخابات بھی لڑنے ہیں اس لئے انہیں نہ صرف اپنے کارکنوں کو گرمانا ہے بلکہ ووٹ بنک بھی محفوظ بنانا ہے۔ اسی خاطر تو انہوں نے اصول پرستی کا لبادہ اتار کر نہ صرف مسلم لیگ (ق) کے لوٹوں کو سینے سے لگا لیا ہے ۔ یہ اصول پرستی صرف چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے لئے ہے جنہیں وہ ہرگز گوارہ نہیں کریں گے۔ یوں سمجھئے کہ انتخابات کا نقارہ بج رہا ہے، دونوں طرف سے تیاریاں جاری ہیں اور ان تیاریوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور شان گھٹانا بھی شامل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب میاں صاحب اربوں کھربوں لوٹنے کی بات کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی پر روشنی ڈالتے ہیں اور ملک کی بربادی کی بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن جب جواباً زرداری صاحب ”مولوی“ یا ”لوہار“ کا طعنہ دیتے ہیں تو وہ تہذیب سے گری ہوئی بات لگتی ہے۔ میرے نزدیک ابھی تو اصل کھیل شروع ہوا ہے اس لئے پریشان نہ ہوں۔ اس میں ابھی مزید گرمی آئے گی، دونوں جماعتوں کے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوں گے، ایک دوسرے کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے گا جس میں رحمان ملک اور بابر اعوان اپنا اپنا کردار سرانجام دیں گے اور اس دنگل کا بالواسطہ فائدہ عمران خان کو پہنچے گا۔ فکرمند نہ ہوں تماشائی بن کر تماشائے اہل کرم دیکھتے رہیں کیونکہ ہماری جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
Friday, 18 May 2012
اب ”اصل“ سامنے آ رہی ہے ؟ June 24, 2011
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یارو یہ سب کچھ جمہوریت میں ہوتا ہے ۔تم اس لئے گھبرا جاتے ہوکہ تمہارے لاشعور میں یہ خوف ہے کہ اس تصادم سے فوج اقتدار کے لئے راستہ بناتی ہے۔ تسلی رکھو فوج کئی محاذوں پر مصروف ہے اور جرنیلوں کو اپنے دفاع کی پڑی ہوئی ہے البتہ وہ اس پر خوش ہوں گے کہ قوم زرداری صاحب اور میاں صاحب کی جنگ میں مصروف ہو کر ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس پر حملہ اور اسی طرح کی دوسری کوتاہیاں بھول جائے اور عوام کی توجہ، ساری توجہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے جیالوں کے دنگل پر لگ جائے۔ دوستو گھبراؤ نہیں یہ تو ابھی پھوار برسی ہے، بارش اور طوفان تو ابھی آئیں گے اور بجلیاں بھی کڑکیں گی کیونکہ میاں صاحب نے فرینڈلی اپوزیشن کے چکر میں اپنا ووٹ بنک کمزور کر لیا ہے، انہیں آزاد کشمیر کے بعد ملکی انتخابات بھی لڑنے ہیں اس لئے انہیں نہ صرف اپنے کارکنوں کو گرمانا ہے بلکہ ووٹ بنک بھی محفوظ بنانا ہے۔ اسی خاطر تو انہوں نے اصول پرستی کا لبادہ اتار کر نہ صرف مسلم لیگ (ق) کے لوٹوں کو سینے سے لگا لیا ہے ۔ یہ اصول پرستی صرف چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے لئے ہے جنہیں وہ ہرگز گوارہ نہیں کریں گے۔ یوں سمجھئے کہ انتخابات کا نقارہ بج رہا ہے، دونوں طرف سے تیاریاں جاری ہیں اور ان تیاریوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور شان گھٹانا بھی شامل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب میاں صاحب اربوں کھربوں لوٹنے کی بات کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی پر روشنی ڈالتے ہیں اور ملک کی بربادی کی بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن جب جواباً زرداری صاحب ”مولوی“ یا ”لوہار“ کا طعنہ دیتے ہیں تو وہ تہذیب سے گری ہوئی بات لگتی ہے۔ میرے نزدیک ابھی تو اصل کھیل شروع ہوا ہے اس لئے پریشان نہ ہوں۔ اس میں ابھی مزید گرمی آئے گی، دونوں جماعتوں کے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوں گے، ایک دوسرے کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے گا جس میں رحمان ملک اور بابر اعوان اپنا اپنا کردار سرانجام دیں گے اور اس دنگل کا بالواسطہ فائدہ عمران خان کو پہنچے گا۔ فکرمند نہ ہوں تماشائی بن کر تماشائے اہل کرم دیکھتے رہیں کیونکہ ہماری جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment