Friday, 18 May 2012

اب ”اصل“ سامنے آ رہی ہے ؟ June 24, 2011

یارو کمال کرتے ہو۔ اب پوچھتے ہو یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک دم ملکی سیاست میں گرمی کیوں آ گئی ہے۔ کیا دہشت گردی، لوڈشیڈنگ اور غربت کی گرمی کم ہے کہ سیاستدانوں نے بھی ٹمپریچر بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ خدا کے لئے یاد کرو کہ جب میثاق جمہوریت سے لے کر مخلوط حکومت اور مفاہمت کی سیاست کے ڈھنڈورے پیٹے جا رہے تھے تو میں بار بار عرض کر رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد غیرفطری اور مصنوعی ہے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت فوجی آمروں کی ڈسی ہوئی ہے، وہ مل کر جنرل پرویز مشرف سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور فوج کے ڈر سے متحد ہو رہے ہیں۔ نئے نئے جلا وطنی کاٹ کر آئے ہیں اور اپنے آپ کو نہ صرف کمزور سمجھتے ہیں بلکہ بے یقینی اور اعتماد کے فقدان کا شکار بھی ہیں۔ اس لئے ایک دوسرے کے صدقے واری جا رہے ہیں۔ اگر آپ 2008ء کو یاد کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ ان دو برسوں میں مل کر حکومت چلانے، جمہوریت کو کامیاب کرنے اور جرنیلوں سے نجات حاصل کرنے کے ضمن میں اسی طرح وعدے وعیدہو رہے تھے اور اسی طرح کے ڈائیلاگ بولے جا رہے تھے جس طرح کے عام طور پر نئی نئی محبت میں گرفتار ہونے والے عاشق اور معشوقہ بولتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ’استاد‘ بڑا بھائی اور نہ جانے کیا کیا حسین و جمیل خطابات و القابات دیئے جا رہے تھے۔ منکہ ایک قلمی مزور بار بار لکھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ وقتی ہے، عارضی ہے اور یہ مفاہمت نہیں بلکہ منافقت کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی مار پر ہے کہ اسے مستحکم پانچ سال مل رہے ہیں اور مضبوط حزب مخالف کے بغیر اور تنقید و تنقیص کے تیروں سے محفوظ رہ کر وہ اس عرصے میں ماشاء اللہ خاصا مال بنا لیں گے اور اقتدار کے لوشے بھی لیں گے جبکہ مسلم لیگ (ن) خوش تھی کہ اسے پنجاب سونے کی پلیٹ میں رکھ کر دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اولین ترجیح پنجاب تھی تا کہ وہ اپنے ساتھیوں، کارکنوں، حواریوں اور وفاداروں کو نواز سکے۔ یوں بھی مسلم لیگ (ن) کا ایک دانشور گروپ یہ سمجھتا ہے کہ مرکز کے اقتدار کی کنجی پنجاب کے ہاتھ میں ہے وہ ہولے ہولے سے یہ راگ الاپ رہے تھے کہ اگلے انتخابات میں وفاق کا اقتدار بھی ہمارا ہے۔ ذرا صبر کر کے تھوڑا عرصہ گزار لیں سیاسی مستقبل ہماری جیب میں ہے۔ میاں نواز شریف کا اس وقت ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے ہوئے تھے۔ وہ ایجنڈا تھا جنرل پرویز مشرف کو اسی طرح جلا وطن کرنا جس طرح وہ خود ہوئے تھے۔ وہ فوجی جرنیلوں کے ہوسِ اقتدار کے مارے ہوئے تھے چنانچہ وہ ان جرنیلوں کو سیدھا کرنے اور ان کا احتساب کرنے کے لئے کسی سے بھی ہاتھ ملا سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں شیطان سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے زرداری صاحب کی ہلاشیری کر کے جنرل پرویز مشرف کو دیس نکالا دے دیا اور زرداری صاحب کی سیاسی چالوں سے متاثر ہو کر انہیں چند لمحوں کے لئے گرو بھی مان لیا۔ میاں صاحب چاہتے تھے کہ وہ مشرف کے ساتھ مل کر کارگل کی مہم جوئی کرنے والوں اور اقتدار پر شب خون مارنے والوں کا احتساب کروائیں اور انہیں آئین شکنی کے جرم کے تحت سیکشن چھ کا سزاوار ٹھہرائیں لیکن پی پی پی اس بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی اور وہ فوج سے ہرگز پنگا نہیں لینا چاہتی تھی۔ دوم این آر او کے تحت جو وعدے وعید ہوئے تھے ان کے تحت مشرف اور اس کے ساتھیوں کی جان بخشی کر دی گئی تھی۔ سوئم یہ کہ زرداری صاحب امریکہ کی دعاؤں سے صدر بنے تھے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے فوج کی ضرورت تھی اس لئے امریکہ کا حکم تھا کہ مشرف کے دیس نکالے تک تو ٹھیک ہے لیکن اس سے آگے نہیں جانا۔ زرداری صاحب بنیادی طور پر این آر او کے بعد امریکہ کے وفادار ہیں چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل نے میاں صاحب کو مایوس کیا۔ زرداری صاحب کا خیال تھا کہ میاں صاحب حکومت کے کندھوں پر بندوق رکھ کر جرنیلوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ میاں صاحب سمجھتے تھے کہ یہ سمجھوتے، مفاہمت اور میثاق کا حصہ ہے جس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ آج بھی آپ کو دونوں لیڈروں کی تقریروں میں اسی غصے، مایوسی اور توقعات کے ٹوٹنے کی صدا سنائی دے گی۔ میاں صاحب نے حالیہ انتخابی جلسوں میں کہا کہ جمہوری حکومت پر شب خون مارنے والے جرنیلوں کے ہاتھ توڑ دینے چاہئیں اور جواب میں زرداری صاحب نے غراتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب ہمیں فوج سے لڑانا چاہتے ہیں۔ 
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یارو یہ سب کچھ جمہوریت میں ہوتا ہے ۔تم اس لئے گھبرا جاتے ہوکہ تمہارے لاشعور میں یہ خوف ہے کہ اس تصادم سے فوج اقتدار کے لئے راستہ بناتی ہے۔ تسلی رکھو فوج کئی محاذوں پر مصروف ہے اور جرنیلوں کو اپنے دفاع کی پڑی ہوئی ہے البتہ وہ اس پر خوش ہوں گے کہ قوم زرداری صاحب اور میاں صاحب کی جنگ میں مصروف ہو کر ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس پر حملہ اور اسی طرح کی دوسری کوتاہیاں بھول جائے اور عوام کی توجہ، ساری توجہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے جیالوں کے دنگل پر لگ جائے۔ دوستو گھبراؤ نہیں یہ تو ابھی پھوار برسی ہے، بارش اور طوفان تو ابھی آئیں گے اور بجلیاں بھی کڑکیں گی کیونکہ میاں صاحب نے فرینڈلی اپوزیشن کے چکر میں اپنا ووٹ بنک کمزور کر لیا ہے، انہیں آزاد کشمیر کے بعد ملکی انتخابات بھی لڑنے ہیں اس لئے انہیں نہ صرف اپنے کارکنوں کو گرمانا ہے بلکہ ووٹ بنک بھی محفوظ بنانا ہے۔ اسی خاطر تو انہوں نے اصول پرستی کا لبادہ اتار کر نہ صرف مسلم لیگ (ق) کے لوٹوں کو سینے سے لگا لیا ہے ۔ یہ اصول پرستی صرف چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے لئے ہے جنہیں وہ ہرگز گوارہ نہیں کریں گے۔ یوں سمجھئے کہ انتخابات کا نقارہ بج رہا ہے، دونوں طرف سے تیاریاں جاری ہیں اور ان تیاریوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور شان گھٹانا بھی شامل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب میاں صاحب اربوں کھربوں لوٹنے کی بات کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی پر روشنی ڈالتے ہیں اور ملک کی بربادی کی بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن جب جواباً زرداری صاحب ”مولوی“ یا ”لوہار“ کا طعنہ دیتے ہیں تو وہ تہذیب سے گری ہوئی بات لگتی ہے۔ میرے نزدیک ابھی تو اصل کھیل شروع ہوا ہے اس لئے پریشان نہ ہوں۔ اس میں ابھی مزید گرمی آئے گی، دونوں جماعتوں کے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوں گے، ایک دوسرے کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے گا جس میں رحمان ملک اور بابر اعوان اپنا اپنا کردار سرانجام دیں گے اور اس دنگل کا بالواسطہ فائدہ عمران خان کو پہنچے گا۔ فکرمند نہ ہوں تماشائی بن کر تماشائے اہل کرم دیکھتے رہیں کیونکہ ہماری جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment