ممبئی حملے میں معصوم شہریوں کا خون بہا تو الزام پاکستان پر لگا۔ حملہ آوروں میں سے ایک گرفتار ہوا جس کا نام اجمل قصاب تھا۔ اجمل قصاب پر اب ہندوستان میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ہندوستان نے دنیا بھر میں یہ پراپیگنڈہ کیا کہ اس حملے کے پس پردہ آئی ایس آئی ہے جبکہ حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ شرمناک کارنامہ کچھ نان اسٹیٹ ایکٹرز نے کھیلا ہے، اس میں کوئی بھی حکومتی اہل کار ملوث نہیں۔ اجمل قصاب کا نام آیا تو پاکستان نے اس کے پاکستانی ہونے سے انکار کر دیا۔ صحافی بڑے تیز اور کاریگر لوگ ہوتے ہیں اور وہ اپنا راستہ بنانا جانتے ہیں۔ جن مغربی صحافیوں نے سب سے پہلے اس راز کا بھانڈا پھوڑا اور ثابت کیا کہ اجمل قصاب پاکستانی ہے اور وہ اوکاڑہ کے نزدیک ایک گاؤں کا رہنے والا ہے ان میں ایک امریکی خاتون صحافی ”کم بارکر“ بھی تھی جس کی حال ہی میں ایک دلچسپ اور چشم کشا کتاب آئی ہے جس کا نام ہے طالبان شغل۔ کم بارکر طویل عرصے تک افغانستان اور پاکستان میں صحافتی فرائض سرانجام دیتی رہی ہے چنانچہ اس کی کتاب نادر معلومات کا ذخیرہ ہے۔ اجمل قصاب کئی برس قبل گھر سے غائب ہو گیا تھا غربت اور بے روزگاری کا مارا مذہبی انتہاء پسندوں اور جہادیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر تربیت یافتہ دہشت گرد بن گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان گزشتہ چند برسوں سے انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے جو دنیا کے مختلف کونوں میں تخریبی کارروائیاں کر کے ملک کو اس طرح بدنام کر رہے ہیں کہ ہر پاکستانی کو دہشت گرد سمجھا جانے لگا ہے۔
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ ممبئی حملے کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی سطح کی تنقید کے شدید کوڑے برس رہے تھے جبکہ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ اس حملے میں سرکاری ایجنسی بالکل ملوث نہیں۔ دوسری طرف ہندوستان پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ مقصد پاکستان کی ایٹمی قوت کو ناقابل اعتماد قرار دے کر اقوام متحدہ سے قرارداد پاس کروانا تھا۔ اس نازک موڑ پر امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی پکڑا گیا جس نے یہ اعتراف کر لیا کہ وہ ایک طرح سے ممبئی حملوں کا ماسٹر مائینڈ ہے اور اس مقصد کے لئے امریکن پاسپورٹ کا سہارا لے کر کئی بار ہندوستان آ چکا ہے۔ اس نے یہ انکشاف کر کے پاکستان کو مشکل میں پھنسا دیا کہ اس منصوبہ بندی کے پس پردہ آئی ایس آئی تھی اور آئی ایس آئی کے دو حاضر سروس فوجی افسروں نے اسے 25 ہزار ڈالر بھی دیئے۔ اس انکشاف اور اعتراف کے بعد پاکستان پر جتنا کیچڑ اچھالا گیا آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اس پر شکاگو میں مقدمہ چلتا رہا جس سے ہندوستان نے جی بھر کے فائدہ اٹھایا۔ کہا جا رہا ہے کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں آئی ایس آئی شامل نہیں تھی کوئی ایک دو اہل کار انفرادی سطح پر شاید ملوث ہوں۔ وہی بات جو اسامہ کے بارے میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کہی جا رہی ہے۔ مطلب یہ کہ حکومت کا اپنی ایجنسیوں پر کنٹرول نہیں اور ایجنسیاں ریاست کے اندر ریاست بن چکی ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈیوڈ ہیڈلی کون ہے؟ ڈیوڈ ہیڈلی کا اصل نام داؤد گیلانی ہے لیکن اس کا وزیراعظم کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ پاکستان کا شہری بھی ہے اور امریکہ کا بھی۔ میرے نزدیک ٹوٹتے سماجی رشتوں کے اثرات و مضمرات کا شاہ کار داؤد گیلانی ہے جس کے والد سلیم گیلانی عمر بھر ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے اور بطور ڈائریکٹر جنرل ریٹائر ہو کر لاہور میں نہر کے کنارے مقیم رہے جہاں ان کا انتقال 25 دسمبر 2008ء کو ہوا۔ سلیم اختر گیلانی ریڈیو کے ملازم تھے اور 1950 کے لگ بھگ تربیت کے لئے امریکہ بھیجے گئے۔ اس دور میں یہ رواج تھا کہ جو شرفاء باہر جاتے تھے وہ عام طور پر واپسی پر ایک عدد میم بھی ساتھ لاتے تھے۔ سلیم اختر گیلانی صاحب بھی امریکن بیوی لے کر وطن لوٹے۔ اس کے بطن سے جنم لینے والے بیٹے کا نام داؤد گیلانی رکھا گیا اور اسے حسن ابدال ملٹری کالج میں تعلیم دلوائی گئی۔ عام طور پر اس طرح کی شادیاں کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ جاتی ہیں اور گوریوں کو اپنے ملک کی یاد ستانے لگتی ہے چنانچہ یہی سلیم اختر گیلانی کے ساتھ ہوا۔ ان شادیوں کے ٹوٹنے کے اثرات اولاد پر پڑتے ہیں اور وہ کبھی کبھی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند بے وطن شہری بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی واردات داؤد کے ساتھ ہوئی۔ 1984ء میں وہ پاکستان میں ہیروئن کے مقدمے میں پکڑا گیا۔ پھر 1998ء کے لگ بھگ اس نے امریکہ میں خیبر ہوٹل کھولا جو چل نہ سکا۔ اسی عدم تحفظ اور نفسیاتی الجھنوں کے سبب وہ خفیہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ رحمان ملک کہتے ہیں وہ ڈبل ایجنٹ ہے، یقینا ہو گا اور اسے ایک سے زیادہ خفیہ ایجنسیاں استعمال کرتی ہوں گی۔ ویسے یہ الزام ایک وزیر پر ہے۔ داؤد گیلانی کچھ عرصہ پاکستان میں بھی اپنے والد کے پاس رہا۔ اسی دور میں اس کے رابطے مذہبی جماعتوں سے ہوئے۔ چنانچہ اس نے داڑھی رکھ لی اور بیوی کو برقعہ پہنانا شروع کر دیا۔ اس کے والد اکثر شکایت کرتے تھے کہ داؤد شدید مذہبی ہو گیا ہے۔ یہی داؤد امریکہ میں ڈیوڈ ہیڈلی ہے دوہرے نام اور پہلو دار شخصیت کے مالک داؤد نے پاکستان کو مشکل میں گرفتار کر رکھا ہے۔ اولاد آدم پر کوئی ایک اصول لاگو نہیں ہوتا لیکن اگر آپ جرائم کی خوفناک کہانیوں کے پس پردہ کرداروں کا مطالعہ کریں تو آپ کو عام طور پر ان میں ٹوٹے ہوئے انسانی رشتوں کی آہنگ سنائی دے گی۔ مختصر یہ کہ مضبوط خاندانی رشتے معاشرے کے لئے تقویت اور رحمت کا باعث ہوتے ہیں جبکہ بکھرے ہوئے انسانی رشتے معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment