Friday, 18 May 2012

قرارداد ِ پاکستان کی تیاری اور سر ظفر اللہ خان؟ June 19, 2011


تاریخ کے فیصلے بھی عجب ہوتے ہیں کہ بعض فیصلوں پرصدیوں تک بحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن لوگ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ انسان بنیادی طور پر ”حال“ میں زندہ رہتا ہے اور اکثرمستقبل کی دور دراز پیچیدگیوں کاصحیح ادراک نہیں کرسکتا۔ اسی صورتحال میں توجہیں، توضیحیں، وضاحتیں اور بے نتیجہ بحث جنم لیتی ہے۔ قرارداد ِ لاہور (قراردادِ پاکستان )23مارچ 1940کو پیش کی گئی اوراگلے دن 24مارچ کو منظور ہوئی۔ اکہتر برس گزر چکے اس کے مختلف پہلوؤں پربحث جاری ہے۔ قرارداد کی تشکیل اور اس کے مصنفین سے لے کراس کے متن تک لاکھوں صفحات لکھے جاچکے ہیں لیکن اتفاق رائے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس قرارداد کا مفہوم بھی لوگوں کا اپنا اپنا ہے جس طرح سچ ہر کسی کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد کسی غیرملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے واضح کیا تھا کہ ہم نے ایک ریاست کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا حوالہ سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ”جناح آف پاکستان“ میں دیا ہے۔ گاندھی سے خط و کتابت میں بھی قائداعظم کا موقف یہی تھا کہ وہ ایک ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اگر قرارداد کو بغور پڑھا جائے تو تاثر دوسرا ابھرتا ہے یوں قاری کنفیوژن کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے۔ مولانا فضل الحق سے لے کر شیخ مجیب الرحمن سے ہوتے ہوئے ولی خان اوردوسرے قومیت پرست سیاسی لیڈروں تک ہر کسی کا اصرار ہے کہقرارداد لاہور دو آزاد مسلمان مملکتوں کا تصور اور مطالبہ تھا جس نے 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد عملی شکل اختیار کرلی۔ بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے۔ اس پر پھر کبھی …!!
جہاں قرارداد لاہور کے متن کے بارے میں کنفیوژن اور کئی آراء ہیں وہاں اس کے لکھنے والے ہاتھوں اورمصنفین کے بارے میں بھی متعدد آراء پائی جاتی ہیں۔ اصلی (اوریجنل) مسودات اور کاغذات کی موجودگی کے باوجود اس پربحث و تمحیص کا سلسلہ ختم نہیں ہورہا۔ گشتہ دنوں محترم نذیر لغاری صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ سر ظفراللہ خان نے تیار کیاتھا۔ اس حوالے سے مجھے کئی فون آئے اور کئی دن تک وضاحتیں کرتا رہا کہ اس مسودے کا سرظفراللہ خان سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ طلبہ کا اصرار تھا کہ میں اس کی کالم میں وضاحت کروں تاکہ غلط تاثر کی تصحیح ہوسکے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ تحقیق میں کوئی حرف ِ آخر نہیں ہوتا اس لئے ضروری نہیں کہ میں جوکچھ لکھوں وہ حرف ِ آخر ہی ہو۔ میں نے اس موضوع پر جو کچھ پڑھا اور جتنا ریکارڈ کھنگالا اس سے سر ظفر اللہ خان کا قرارداد کی ڈرافٹنگ کے حوالے سے کوئی سراغ نہیں ملتا۔ شیر بنگال مولوی فضل الحق نے یہ قرارداد پیش کی تھی۔ ان کا بھی دعویٰ ہے کہ یہ قراردادانہوں نے ڈرافٹ کی تھی حالانکہ سچ یہ ہے کہ مولوی فضل الحق اس اجلاس میں کلکتہ سے تاخیر سے پہنچے تھے اورقرارداد ان کی آمد سے قبل سارے مراحل طے کرکے حتمی صورت اختیارکرچکی تھی۔ چودھری خلیق الزماں نے بھی اپنی کتاب میں قرارداد کی ”تحریر“ کا کریڈٹ لیا ہے لیکن تحقیق کے میدان میں اتریں تو ان کادعویٰ بے بنیاد ثابت ہوتاہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک آزا د مسلمان مملکت کے قیام کا فیصلہ بہت پہلے ہوچکا تھا اور 1939 میں سندھ مسلم لیگ یہ مطالبہ کرکے سبقت حاصل کرچکی تھی چنانچہ جب مسلم لیگ نے لاہور میں مارچ کے مہینے میں جلسہ کرکے یہ قرارداد منظور کرنے کا فیصلہ کیا توحکومت ِ برطانیہ نے قائداعظم پر جلسہ ملتوی کرنے کے لئے ہر قسم کادباؤ ڈالا اور اس ضمن میں سرظفر اللہ خان اور پنجاب پریمئر یا وزیراعظم سر سکندر حیات کی بھی خدمات حاصل کی گئیں لیکن قائداعظم نے ان کے دلائل کو مستردکردیا۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 20 مارچ 1940 کو وائسرائے ہند لنلتھگو نے لارڈ زٹلینڈ کو جو خفیہ خط لکھا اس میں یہ ذکر کیا کہ میں نے سر ظفر اللہ خان سے لیگی اجلاس ملتوی کرانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے کہا ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ قائداعظم آزاد مملکت کے مطالبے یا اجلاس کو ملتوی کرنے پر رضامند ہوں۔سوال یہ ہے کہ سر ظفر اللہ خان کا قرارداد لاہور کی ڈرافٹنگ سے تعلق کا تاثر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ 10جنوری 1939کو وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو نے اعلان کیا کہ ہندوستان کو ڈومینئین کا درجہ دے دیا جائے گا مطلب یہ کہ سوراج یا آزادی دے دی جائے گی۔ اس اعلان کے جواب میں سر ظفر اللہ خان نے وائسرائے کے لئے ایک نوٹ تیار کیا جس میں انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کے مطالبے اورموقف کا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کے حوالے سے تین سکیموں کا جائزہ لیا۔ پہلی سکیم چودھری رحمت علی کے تصور ِ پاکستان کی تھی، دوسری مشرق اور مغرب میں دومسلمان مملکتوں کے قیام کے حوالے سے تھی۔ 
جنہیں براہ راست تاج برطانیہ کے تحت ہونا تھا۔ اس نوٹ میں انہوں نے علیحدگی کی تحریکوں کو مستردکرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کی حمایت کی۔ ان تمام مسودات اور سرکاری ریکارڈکا مطالعہ کرنے کے بعدسید شریف الدین پیرزادہ اپنی انگریزی کتاب ”پاکستان کا ارتقا“ میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سر ظفر اللہ خان کا قرارداد ِ پاکستان کی ڈرافٹنگ سے کوئی تعلق نہیں تھابلکہ انہوں نے بعد ازاں ایک پبلک بیان میں واضح کیا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی تقسیم ہند کا کوئی فارمولا پیش نہیں کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس حوالے سے قائداعظم ان کی رائے کو کوئی اہمیت دیتے (پیرزادہ صفحہ نمبر 208) 
قرارداد ِ پاکستان کا اصلی مسودہ اور اس پر کی گئی ترمیمات اور خذف کئے گئے پیراگراف کراچی یونیورسٹی کے آرکائیوز میں موجودہیں۔ پس منظر کے طور پریہ جاننا ضروری ہے کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس 21مارچ 1940 کو لاہور میں ہوا جس میں قرارداد لاہور کی ڈرافٹنگ کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جوقائداعظم، سرسکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پرمشتمل تھی۔ پیر علی محمد راشدی کادعویٰ ہے کہ ڈرافٹ ریزولیشن قائداعظم نے تیار کیا اور مجھے دیا کہ میں اسے سرسکندر حیات کو پہنچادوں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ ڈرافٹ مولانا غلام رسول، شیخ عالم اور میرمقبول کی موجودگی میں سر سکندر کو دیا۔ سر سکندر حیات نے پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں 11مارچ 1941 کو انکشاف کیا کہ اوریجنل ڈرافٹ انہو ں نے تیار کیا تھا جس کا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے حلیہ بدل کر رکھ دیا ۔ اس بیان کی مسلم لیگ کی جانب سے کبھی تردید نہیں کی گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی ڈرافٹ سرسکندر نے تیار کیا تھا جس میں مسلم لیگ نے بنیادی تبدیلیاں کیں۔ 22مارچ کورات آٹھ بجے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں قائداعظم نے اراکین کو بتایا کہ قرارداد ٹائپ ہو رہی ہے۔ اس دوران قائداعظم دیر تک دوقومی نظریئے پر گفتگو کرتے رہے۔ جب ڈرافٹ آ گیا تو لیاقت علی خان نے اسے پڑھ کر سنایا اور مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ اراکین ورکنگ کمیٹی قرارداد کے مسودے پر غوروخوض کے لئے مزید وقت چاہتے تھے چنانچہ کمیٹی کا اجلاس اگلے دن گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ اگلے دن قرارداد کے ڈرافٹ پر سات گھنٹے تک بحث ہوتی رہی جس میں بہت سی تبدیلیاں منظور کی گئیں اور پھرمسودہ منظور کردیاگیا۔ اکثر ترمیمات مسلمان اقلیتی صوبوں کی جانب سے تجویز کی گئی تھیں۔ 
ان تجاویز اورترمیمات کا ریکارڈ کراچی یونیورسٹی کے فریڈم موومنٹ آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ جو ترمیمیں منظورہوئیں اورجو نہ ہوسکیں ان کا احوال بھی درج ہے۔ 23مارچ 1940کو جلسے کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعتوں سے ہوا۔ قرارداد پیش ہوئی تو چودھری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی اورپھر مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب اور عبداللہ ہارون نے اس کی حمایت میں تقاریر کیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو اجلاس 24مارچ تک ملتوی کردیا۔ 24مارچ کو قرارداد کی حمایت میں بہت سی تقاریر ہوئیں۔ نہایت جوش و خروش اوراعلیٰ ترین جذبات کے ساتھ قرارداد کو منظورکرلیا گیا۔ دراصل یہ قرارداد مسلمانان ِ ہند و پاکستان کے لئے ایک نئی صبح کا طلوع تھا جس نے شک و شبہات اور مایوسیوں کے اندھیروں کو ختم کردیا اور ان کی منزل کا تصور واضح کر دیا۔ نشان منزل سے لے کر حصول منزل تک کا سفر سات سال میں کیسے طے ہوا، تاریخ اسے معجزہ قرار دیتی ہے اور مسلمان اسے رضائے الٰہی سمجھتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment